Inquilab Logo

رمضان ڈائری(۱۰):چھوٹی پلیٹ، بڑی پلیٹ،تھال اور’’ بھرپور تھال‘‘ کی کہانی

Updated: April 01, 2023, 10:50 AM IST | Abdul Kareem kasam Ali | Mumbai

راقم کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ جو جانتے ہیں اُنہیں بھی یہ علم نہیں ہوگا کہ اخبار سے وابستگی سے کافی پہلے ایک وقت وہ تھا جب افطار کیلئے اسے (مجھے) ایک مسجد کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

راقم کو زیادہ لوگ نہیں جانتے۔ جو جانتے ہیں اُنہیں بھی یہ علم نہیں ہوگا کہ اخبار سے وابستگی سے کافی پہلے ایک وقت وہ تھا جب افطار کیلئے اسے (مجھے)ایک مسجد کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ 
 کوئی بھی شہر ہو، جہاں مسلم آبادی ہے وہاں مسجد ہے اور جہاں مسجد ہے وہاں کی  تمام چھوٹی بڑی مسجدو ںمیں رمضان المبارک کے دوران افطار کا نظم ہوتا ہے۔ مسجدوں میں افطار کا نظم کوئی اور نہیں کرتا، ہم آپ ہی کرتے ہیں۔ ہم میں  بہت سے ایسے ہیں جو کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتے اور مسجدوں میں افطار کا سامان پہنچا دیتے ہیں۔ اس سے  اُن افراد کی مدد ہوجاتی ہے  جو ملازمت کی وجہ سے اپنے گھرپر روزہ نہیں کھول پاتے۔ جنوبی ممبئی کی جتنی مشہور اور بڑی مساجد ہیں وہاں تو افطار کا مسئلہ نہیں ہے لیکن ایسی بھی مساجد ہیں جہاں اللہ کے گھر میں مہمان بن کر آنےوالوں کو روزہ کھولنے کے وقت اتنی چیزیں بھی میسر نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی بھوک مٹا سکیں۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ بھی ہوتاہے کہ ان افراد کو مغرب کی نماز کے فوراً بعد اپنے کام کاج میں دوبارہ مصروف ہونا پڑتاہے۔ اُنہیں  اتنا موقع نہیں ملتا کہ کہیں پیٹ بھر کر کھانا کھا سکیں۔ جن مساجد میں افطار کیلئے خاطرخواہ مقدار میں افطاری کا سامان نہیں آتا وہاں روزہ کھولنے والوں کی بھوک ادھوری رہ جاتی ہے۔ 
 جب مَیں یہ ڈائری تحریر کرنے کی بابت سوچنے لگا تو مجھے وہ چند سال بھی یا د آئے جب مَیں جنوبی ممبئی کی ایک مسجد میں افطارکیا کرتا تھا۔ وہاں کی ایک دکان پر میری ملازمت تھی۔ دکان کے مالکان افطار کیلئے گھرچلے جاتے تھے اور میں مسجد کے زینے طے کرتا تھا۔ رمضان کے اولین دنوں میں تو مسجد کے دسترخوان پر رونق ہوتی تھی مگر جیسے جیسے دن گزرتے جاتے دسترخوان سمندر سے دریا اور پھر وسط رمضان میں تالاب بن جاتا تھا۔ جیسے ابتدائے رمضان میں نمازیوں کی تعداد کافی زیادہ ہوتی ہے مگر جیسے جیسے دن گزرتے ہیں یہ تعداد کم ہوتی جاتی ہے اور اخیر رمضان میں ایک بار پھر یہ تعداد بڑھ جاتی ہے۔ مگر افطار کا دستر خوان سمٹنا شروع ہوتا ہے تو پھر سمٹتا ہی چلا جاتا ہے۔ 
 جنوبی ممبئی کی مسجد میں جو دسترخوان روزہ داروں کیلئے سجایا جاتا تھا وہ اطراف کی عمارتوں کے مکینوں کی جانب سے دی جانے والی پلیٹوں پر مشتمل ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے۔  چنانچہ جیسے جیسے ماہ صیام کی تاریخیں آگے بڑھتی تھیں پلیٹوں کی تعداد کم ہوتی جاتی تھی۔جو پلیٹیں آتی تھیں ان میں اشیائے خورد و نوش بھی کم ہوتی جاتی تھیں۔ اس ’پیٹرن‘ کا تجربہ مجھے پہلے کبھی نہیں  ہوا تھا۔ اس وقت بہت سے روزہ داروں کے چہروں  سے اُن کا درد جھلک جاتا تھا۔ درد سے مراد افطار کا  سمٹتا دسترخوان اور اشیاء کے تنوع کا فقدان۔ 
 دراصل ہم بھول جاتے ہیں کہ ہماری ہی بھیجی ہوئی پلیٹوں سے مسجدوں میں وہ افراد روزہ کھولتے ہیں جو بیچارے معاش کی خاطر اپنے گھر سے دور ہوتے ہیں۔ کیا ہمارا  فرض نہیں کہ ایسی مسجدوں میں زیادہ سے زیادہ پھل اور دیگر اشیاء بھجوائیں؟ تاکہ اللہ کے مہمان خاطرخواہ طریقے سے روزہ کھول سکیں؟  دلچسپ بات یہ ہے کہ ہمیں رمضان کے ابتدائی حصے میں تو مساجد کا یعنی مساجد میں افطاری بھجوانے کا احساس رہتا ہے مگر خدا جانے کیوں یہ احساس کم ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو مسجدوں میں پہنچنے والی پلیٹیں کیوں کم ہوں؟ یہاں یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ پلیٹوں اور تھالوں میں بھی الگ الگ سائز ہوتے ہیں جس کی بنیاد پر کوئی پلیٹ چھوٹی، کوئی بڑی، کوئی تھال چھوٹی اور کوئی بڑی تھال کہلاتی ہے۔ بڑی پلیٹ کے قریب کم روزہ دار ہوں تو اُن کی بن آتی ہے مگر پلیٹ  چھوٹی اور اس کے سامنے روزہ دار  زیادہ ہوں تو ان سب کا درد مشترک ہوتا ہے۔ 
 اپنے علاقے کی چھوٹی سی مسجد میں میرا مشاہدہ رہا ہے کہ مسجد میں جو اچھی تھال یا اچھی پلیٹ آتی ہے، وہ مسجد کے خواص کے پاس چلی جاتی ہے۔ تعطیل والے دن مَیں عصر کی نماز کے بعد کچھ وقت کیلئے مسجد ہی میں بیٹھ جاتا ہوں اور تلاوت کے بعد افطار کا انتظام کرنے والے علیم الدین شیخ سے باتیں کرنے لگتاہوں۔ہمارے علاقے کی مسجد کے اندر ایک تھال ہوتی ہے اور دوسری تھال باہر چبوترے پر ہوتی ہے۔ باہر کی تھال کی دیکھ بھال علیم الدین شیخ کرتے ہیں۔ اُنہیں بھی اس بات کا دکھ ہے کہ ’’پہلے چند روز تک گھروں سے اچھی خاصی افطاری آتی ہے لیکن بعد میں یہ ترتیب بگڑ جاتی ہے اور اشیاء کم ہوجاتی ہیں۔ ‘‘
 اگر اہل محلہ مسجدوں کو بھیجی جانے والی پلیٹوں کو اپنے گھر کی پلیٹ سمجھیں اور جتنا کچھ ممکن ہو، ان کی نذر کریں تو کسی روزہ دار کو پلیٹ یا تھال دیکھ کر دکھ نہ ہو بلکہ وہ خوشی سے پھولے نہ سمائے۔ ہمیں چاہئے کہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں جوش و خروش کا مظاہرہ کرکے خاموش نہ ہوجائیں بلکہ پورا مہینہ اس سلسلے کو دراز رکھیں کیونکہ ثواب روزانہ ملتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ثواب رمضان کے ابتدائی دنوں ہی میں ملتا ہے، بعد میں نہیں۔ ثواب کی گیارنٹی اللہ نے دی ہے بشرطیکہ ہم پلیٹ کی گیارنٹی دیں۔  

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK