Inquilab Logo

دو ہزار کے نوٹ کا قصہ

Updated: May 23, 2023, 10:26 AM IST | Mumbai

کرنسی نوٹ پہلے بھی بند ہوئے ہیں۔ نوٹ ہی نہیں سکے بھی بند ہوئے ہیں۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کرنسی نوٹ پہلے بھی بند ہوئے ہیں۔ نوٹ ہی نہیں سکے بھی بند ہوئے ہیں۔ پانچ پیسے، دس پیسے اور بیس پیسے کے سکے کب چلن سے غائب  ہوئے کسی کو اس کا علم نہیں۔ جب بھی نوٹ یا سکہ عدم دستیاب ہوجاتا ہے تو ازخود بند ہوجاتا ہے۔ پانچ، دس، بیس اور پچیس پیسے کی مالیت کے سکوں کے ساتھ اور اُن سے پہلے چونی اور اٹھنی کا دور تھا۔ ایک پرانی فلم کا گیت ’’آمدنی اٹھنی، خرچا روپیہ‘‘  آج بھی کبھی کبھی سنائی دے جاتا ہے۔ چونی ّکے ساتھ ساتھ  یہ اٹھنی ّ بھی کسی اعلان کے بغیر ازخود مفقود ہوگئی۔ ممکن ہے ان سکوں کے ’’باقیات‘‘ سکہ اندوزی  کے شوقین افراد کے پاس اب بھی موجود ہوں اور بچوں کو دِکھانے کے کام آتے ہوں۔ اگر نہیں ہیں تو مذکورہ فلمی گیت تو بہرحال موجود ہے جو اگلے وقتوں کی اٹھنی ّ کی یاد دِلاتا ہے۔
 خیر، جہاں تک نوٹ یا سکہ بند کرنے کا تعلق ہے، یہ نہ تو کوئی مشکل کام ہے نہ ہی ماضی میں اس کیلئے باقاعدہ اعلان کی ضرورت پیش آئی ہے مگر نومبر ۲۰۱۶ء کے ’’سانحہ‘‘ کے بعد سے ’’نوٹ بندی‘‘ یا ’’ڈیمونیٹائزیشن‘‘ کے نام ہی سے لوگ دہل جاتے ہیں بالکل ویسے ہی جیسےسن اسی ّ کی دہائی  میں یہ خبر گرم تھی کہ آسمان سے اسکائی لیب گرنے والی ہےاور اس سے ہر خاص و عام پریشان اور فکرمند تھا۔
  نوٹ بندی نے عوام کو ایسے ایسے دُکھ دیئے کہ خدا کی پناہ۔ آسمانی آفت ہو تو متاثرین صبر کرلیتے ہیں مگر یہ آفت ایسی تھی کہ جس پر صبر کرنا بھی کارے دارد تھا۔  اُسی سانحہ کے پیش نظر اب آر بی آئی کو دو ہزار روپے کے کرنسی نوٹ کے تعلق سے اتنی وضاحت کے ساتھ بیان کرنا پڑا کہ اس کا مقصد کیا ہے، اس کیلئے کیا کیا سہولتیں میسر ہوں گی اور چار مہینے کے بعد، جب نوٹ تبدیل کروانے کی مدت ختم ہوجائیگی، تب بھی دو ہزار کا نوٹ لیگل ٹینڈر کے طور پر برقرار رہے گا یعنی کسی کے پاس یہ نوٹ ہوگا تو ناقابل قبول نہیں ہوگا۔ 
 آر بی آئی کی وضاحت میں کہا گیا ہے کہ دو ہزار کے نوٹ کی واپسی کا فیصلہ ’’کلین نوٹ پالیسی‘‘ کا حصہ ہے۔ماضی میں اسی پالیسی کے تحت حکومت نے نوٹوں کے کسی بھی بنڈل پر اِسٹیپلر پن نہ لگانے کی ہدایت جاری کی تھی۔ اس کے بعد یہ تنبیہ کی گئی تھی کہ نوٹ پر کچھ لکھنا درست نہیں ہے۔ ایسے نوٹ قبول نہیں کئے جائینگے۔ اس پالیسی کے مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے دو ہزار کے نوٹ  واپس لینے کے فیصلے پر غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ کلین نوٹ کے مشن میں تو ہر طرح کے نوٹ آسکتے ہیں یعنی اس پالیسی کا اطلاق دس اور بیس روپے کے نوٹ پر بھی ہوسکتا ہے اور  پچاس، سو، دوسو اور پانچ سو کے نوٹ پر بھی ہوسکتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ اس کا اطلاق صرف دو ہزار کے نوٹ پر ہورہا ہے؟ اس کی وضاحت نہیں ملتی۔ وضاحت اس بات کی بھی نہیں ملتی کہ جب زیر بحث نوٹ لیگل ٹینڈر کے طور پر ۳۰؍ ستمبر کے بعد بھی قابل قبول ہوگا تو چار ماہ بعد کی اِس تاریخ کا تعین کیوں کیا گیا؟ 
 ہمارے خیال میں  یہ نوٹ بند کرنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ اِس کی چھپائی ۱۹۔۲۰۱۸ء میں بند ہوچکی ہے۔ بازار میں یہ نوٹ نہ تو بڑی تعداد میں موجود ہے نہ ہی عوام نے اسے کبھی بھی خوش دِلی کے ساتھ قبول کیا ہے۔ آر بی آئی کچھ نہ کرتا تب بھی باقیماندہ ووٹ وقت کے ساتھ خود ہی آؤٹ آف مارکیٹ ہوجاتے جیسے دو روپے کا پرانا نوٹ، جو حال حال تک تھا، اب مفقود ہے، پچاس کا نوٹ بھی کم ہوتا جارہا ہے اور سو روپے کے پرانے نوٹ کا دیدار بھی شاذو نادر ہی ہوتا ہے۔

Currency Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK