Inquilab Logo

اسلوب ِتفسیر ہرمفسراور ہرزمانےکے ساتھ بدلتا رہتا ہے

Updated: January 20, 2023, 1:10 PM IST | MUMBAI

گزشتہ ہفتے شائع ہونے والے حسن البناؒ کے مضمون ’’تفسیرقرآن، مفسرین کی محنت اور علم تفسیر سے دلچسپی‘‘ کا دوسرا اور آخری حصہ

The best way to understand the Qur`an is for the reader to collect his scattered thoughts while reciting it with prudence and humility; Photo: INN
قرآن کو سمجھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ قاری تدبر اور خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کے وقت منتشر افکار کو جمع رکھے; تصویر:آئی این این

 (گزشتہ سے پیوستہ) ابن عطیہؒ فرماتے ہیں: ’’سلف صالح کی اکثریت مثلاً سعید بن المسیّب، عامر شعبی اور دوسرے لوگ تفسیر قرآن کو بہت عظیم سمجھتے تھے، اور باوجود اپنی عالی مقامی اور بالغ نظری کے احتیاط کی بناپر تفسیر نہیں بیان کرتے تھے‘‘۔ ابوبکر الانباری فرماتے ہیں: ’’ائمہ سلف قرآن کی مشکلات کی تفسیر کرنے میں احتیاط سے کام لیتے تھے۔ بعض حضرات یہ سوچتے تھے کہ جو تفسیر وہ بیان کریں گے، ممکن ہے وہ اللہ کی مرضی کے مطابق نہ ہو، اور بعض لوگ ڈرتے تھے کہ کہیں وہ تفسیر میں کوئی ایسی بات نہ کہہ دیں جس پر کسی مسلک کی بنیاد قائم ہوجائے اور اس کی پیروی کی جانے لگے۔ پھر بعد میں آنے والا کوئی شخص اپنی رائے سے کوئی غلط تفسیر بیان کرے اور کہے کہ قرآن کی تفسیر بالرائے میں سلف میں سے فلاں شخص میرا امام ہے۔‘‘
ابن ملیکہؒ فرماتے ہیں: ’’حضرت ابوبکر صدیقؓ سے قرآن کے ایک حرف کی تفسیر پوچھی گئی تو انھوں نے فرمایا: ’’اگر میں قرآن کے کسی حرف کی تفسیر ایسی کردوں، جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے برخلاف ہو، تو کون سا آسمان مجھے سایہ دے گا؟ کون سی زمین مجھے پناہ دے گی؟ میں کہاں جائوں گا اور کیا کروں گا؟‘‘
ترمذی اور ابوداؤد نے حضرت جندبؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے قرآن میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اور وہ صحیح ہو تب بھی اس نے غلطی کی۔‘‘(مقدمہ تفسیرالقرطبی (الجامع للاحکام القرآن) سنن الترمذی، ۲/۱۵۷)
تفسیر بالرائے سے مراد یہاں یہ ہے کہ کوئی شخص قرآن کی تفسیر میں کوئی بات بغیر علم کے محض ناواقفیت میں یا غلطی میں پھنس کر، یا اپنے آپ کو جاہل کہلانے سے بچنے کے لیے کہے، یا مخصوص اغراض کے تحت راہِ صواب اور راہِ حق سے منحرف ہوجائے۔ اس نیت کے ساتھ کوئی قرآن کی تفسیر کرے، تو اگر وہ صحیح بات بھی کہے تو بھی غلطی پر ہے اور وہ گنہگار ہوگا۔ البتہ جو لوگ اپنی خواہشوں سے بالاتر رہ کر راہِ حق معلو م کرنے کے لیے غوروفکر کرتے ہیں، وہ اگر غلطی کریں تب بھی اجر کے مستحق ہوں گے اور اگرصحیح بات کہیں تو ان کے لیے دو اجر ہیں۔ اس طرح سلف کے تفسیر کی طرف راغب ہونے اور مفسرین کی قدرومنزلت کرنے اور تفسیر بالرائے سے ڈرنے اور دوسروں کو منع کرنے کے درمیان تطبیق ہوجاتی ہے۔
مختلف ثقافتوں اور زمانوں سے اسلوب تفسیر کی اثرپزیری
تفسیر کا اسلوب مختلف زمانوں میں معاشرتی ، تہذیبی اور ثقافتی ارتقا سے متاثر رہا ہے۔ ابتدا میں اس کا طریقہ بہت آسان اور سادہ تھا۔ صرف چند آیات اور الفاظ اور کچھ واقعات کی تفسیر کی جاتی تھی۔ اس لئے کہ لوگ اپنے عربی ذوق اور لغوی سلیقہ کی وجہ سے تفسیر سے بے نیاز تھے اور عملی سنت پر (جس کا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہؓ وتابعینؒ کے ساتھ رہ کر مشاہدہ کیا تھا) اکتفا کرتے تھے۔
پھر تفسیر اور قصص کا زمانہ آیا، تو اس میں تفسیر کے نام پر منقول روایات اور قصے لکھے گئے۔ ان میں کچھ تو صحیح اور اسبابِ نزو ل اور احکام کے واقعات پر مبنی ہوتے تھے اور کچھ اہلِ کتاب سے منقول قصے ہوتے تھے، جن میں رطب و یابس ، جو کچھ مفسرین کے علم میں آتا تھا، سب جمع کر دیتے تھے۔ ان میں سب سے اہم اور مفید تفسیر امام محمد بن جریر طبری (م: ۳۱۰ھ) کی تفسیر  جامع البیان فی تفسیرالقرآن ہے۔
پھر ترجمہ اور فلسفہ کا دور آیا۔ ایران اور یونان کے علوم سے روابط قائم ہوئے۔ مسلم فلاسفہ اور علما کے درمیان عقیدے کے بہت سے مباحث اور فقہی معاملات میں اختلاف ہوا۔ چنانچہ تفسیر کی کتابوں میں بھی یہ اسلوب اپنایا گیا۔ ان میں بہت سے فلسفیانہ نظریات بیان کئے گئے۔ آیات کے ذریعے مختلف عقائدی آراء اور مسالک پر استدلال کیا گیا۔ بعض ماہرین لغت نے بھی قرآن کریم کی بہت سی آیات کی تفسیریں کی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی توجہ بلاغت کے نکتوں، لغوی توجیہات اور نحوی استعمالات پر مرکوز رکھی ہے۔ اس کی مثال میں زجاج، واحدی اور ابوحیان اندلسی کی تفسیریں پیش کی جاسکتی ہیں۔ راغب اصفہانی (جو چھٹی صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں) کی کتاب المفردات  آج تک متداول ہے۔
عصرحاضر کے بہت سے مفسرین کا رجحان سائنسی ترقی کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنے اور قرآن نے علومِ کائنات کے جن اصول و قوانین اور مظاہر کی طرف اشارہ کیا ہے، انھیں بیان کرنے کی طرف ہے۔ جیساکہ شیخ طنطاوی جوہری نے اپنی تفسیر الجواھر میں کیا ہے۔ اسی طرح کچھ دوسرے مفسرین کی توجہ معاشرتی قوانین، ہدایت کےنفسیاتی اسالیب اور تاریخی تبدیلیوں کے اسباب بیان کرنے اور ان کا قرآن کریم کے ذریعے استنباط کرنے کی طرف رہی ہے، تاکہ مسلمانوں کو قرآن کے ذریعے اپنی عظمت ورفعت کو واپس لانے کی تحریک مل سکے، اور ان کی معاشرتی زندگی قرآن کی تعلیمات اور قوانین سے مربوط ہوسکے، جیساکہ استاد امام شیخ محمد عبدہٗ اور ان کے وارث اور شاگرد سیّد محمدرشیدرضا، اللہ دونوں پر رحم کرے ، نے اپنی تفسیر المنار میں بیان کیا ہے۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تفسیر کا اسلوب ہر مفسر اور ہر زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے اور ایساہونا قدرتی امر تھا۔ مفسرین تفسیر کے ذریعے وہ چیزیں بیان کرتے ہیں، جو وہ کتابِ الٰہی سے سمجھتے ہیں۔ ان کا آلۂ فہم ان کی عقلیں ہیں اور مادۂ علم ان کا ماحول اور ان کے زمانے کےعلوم ہوتے ہیں، اس لئے لازمی بات ہے کہ اس کا اظہار نمایاں طور پر ان کے رشحاتِ قلم اور آراء میں ہو۔
سب سے افضل تفسیراور فہم قرآن کا بہتر طریقہ
ایک بھائی نے ایک مرتبہ مجھ سے سوال کیا: ’’قرآن کریم کی سب سے افضل تفسیر اور اس کو سمجھنے کا سب سے بہتر طریقہ کیا ہے؟‘‘ میرا جواب تھا: ’’تمہارا دل۔‘‘ یقیناً مومن کا دل کتاب اللہ کی سب سے افضل تفسیر ہے۔ قرآن کو سمجھنے کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ قاری تدبر اور خشوع کے ساتھ اس کی تلاوت کے وقت منتشر افکار کو جمع رکھے۔ ساتھ ہی سیرتِ نبویؐ سے بھی واقف ہو یعنی اسبابِ نزول اور سیرتِ نبویؐ کے مختلف مقامات سے اس کے ربط سے آگاہ ہو۔ اس سے اسے قرآن کے صحیح فہم میں بڑی مدد ملے گی۔ اس کے بعد جب وہ تفسیر کی کتابوں کا مطالعہ کرے تو اس کا مقصد صرف کسی مشکل لفظ کا معنی یا کسی مخفی ترکیب سے واقفیت حاصل کرنا یا اپنی معلومات میں اضافہ کرنا ہو، جس سے وہ کتاب اللہ کا صحیح فہم حاصل کرسکے۔ یہ چیزیں محض فہم قرآن میں معاون ہوتی ہیں۔ فہم تو حقیقت میں نُور ہے جو دل کی گہرائی میں روشن ہوتا ہے۔استاذ امام شیخ محمد عبدہٗ نے اپنے بعض شاگردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’ہمیشہ قرآن کی تلاوت کرو، اس کے اوامر و نواہی کو سمجھو اور اس کے مواعظ اورعبرتوں سے سبق حاصل کرو۔جس طرح کہ نزولِ وحی کے زمانے میں اہلِ ایمان اس کے ساتھ برتائو کرتے تھے۔ مختلف تفاسیر کا اگر مطالعہ کرو، تو صرف کسی ایسے لفظ کو سمجھنے کے لئے.... پھر قرآن جو راہ تمہیں دکھانا چاہتا ہے اس پر چل پڑو اور جو چیزیں تمہارے اُوپر عائد کرتا ہے انھیں اپنے اُوپر عائد کرلو۔‘‘
بے شک جو شخص اس طریقے پر عمل کرے گا، وہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس کا اثر اپنے اندرون محسوس کرے گا اور اس میں ایسا ملکہ پیدا ہوجائے گا کہ فہم قرآن اس کی فطرتِ ثانیہ بن جائے گا اور اس کے لئے ایسا نُور ہوگا، جس سے وہ دُنیا اور آخرت دونوں میں روشنی حاصل کرے گا ، ان شاء اللہ!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK