Inquilab Logo

ء۱۹۶۰ء کے بعد مہاراشٹر میں اردو افسانہ نگاری کی روایت

Updated: October 10, 2022, 12:21 PM IST | Dr. Abdullah Imtiaz | Mumbai

بیسویں صدی کی آخری دہائی میں مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں نے موضوعات کی یکسانیت اور مروجہ افسانوی اسلوب کے خلاف آواز بلند کی اور اس کہانی کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے جس میں دل کے دھڑکنے کی صدا واضح طور پر سنی جاسکے۔

In the current literary scenario of Maharashtra, Urdu fiction has gained a boost among the youth circles. .Picture:INN
مہاراشٹر کے موجودہ ادبی منظر نامے میں نوجوان حلقوں میں اردو افسانہ نگاری کو فروغ حاصل ہوا ہے۔ تصویر:آئی این این

جس وقت تحریکِ آزادی شباب پرتھی اس وقت بمبئی ذریعۂ معاش کا اہم مرکزتھا۔ لوگ ملک کے مختلف حصوں سے ہجرت کرکے بمبئی میں داخل ہورہے تھے جس میں ایک بڑا طبقہ ادیبوں کا بھی تھا۔ پریم چند سے لے کر کرشن چندر، منٹو، بیدی، عصمت اور خواجہ احمدعباس جیسے اعلا پایہ کے ادیبوں نے ممبئی کی ادبی محفل کو رونق بخشی۔یہ شہر اس وقت جدید افسانہ کا مرکز تھا۔ جب یہاں کے ادیبوں نے ترقی پسند تحریک میں شمولیت اختیار کی تو ادبی دنیا میں ایک انقلاب آگیا۔ اس تحریک نے جہاں دبے کچلے افراد کی زندگی اور ان کے مسائل کو موضوع بنایاوہیں ظالموں اور سرمایہ داروں کے ظلم وبربریت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی۔ ترقی پسند تحریک کا دوراردو افسانہ نگاری کا عہدزریں کہا جاسکتا ہے۔ اس وقت ہندوستان مختلف مسائل سے دوچار تھا۔ عدم مساوات اور معاشی بحران کا مسئلہ ابھی حل بھی نہیں ہوا تھا کہ ملک کی تقسیم کا سانحہ پیش آیا، تقسیم ہند کے سانحے اور اس کے ردعمل کے طور پر رونما ہونے والے فسادات نے لوگوں کو ذہنی کرب میں مبتلا کردیا۔ اس دوران انسانیت کو شرمسارکردینے والے حادثات اور ہجرت کے کرب نے لوگوں کو بے حس بنادیا جس نے ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو صلب کردیا۔ جہاں ان مسائل کی وجہ سے اردو افسانے کے موضوعات کو وسعت حاصل ہوئی، وہیں موضوعات کی یکسانیت نے اکتاہٹ پیدا کردی اور مقلدین کی بھرمار نے ادب کو نعرہ بنادیا جس کی وجہ سے اس تحریک کا زور ،روز بروز ختم ہوتا چلاگیا۔ ۱۹۶۰ء کے بعداردو افسانے میں تجربات اور ردوقبول کے دور کا آغاز ہوا۔ ان تجربات نے جہاں اردو افسانے کو مروجہ اسلوب سے باہر نکالا وہیں اردو افسانے کو نئے معنی و مفاہیم بھی عطا کئے۔ جدیدیت کی یہ تحریک ادب کے ساتھ ساتھ اسلوب اور موضوعات میں بھی شعوری طور پر تبدیلی کی خواہش مند تھی۔ چنانچہ اظہار خیال کیلئے نئے اسلوب کی تشکیل کا عمل شروع ہوا اور یہیں سے اسلوب کی سطح پر تجربات کے دور کا آغاز ہوا۔ موضوعات میں انفرادیت اور نئے پن کی جستجو نے انھیں اجتماعی موضوعات سے دورکردیا ۔ کبھی افسانے میں کردار کو، کبھی کہانی کو ردکیا گیا۔ افسانہ نگار اپنی بات اشاروں ، کنایوں ، تشبیہات و استعارات میں بیان کرنے لگا۔ حقیقت نگاری کا اسلوب علامتی اور تمثیلی پیرایہ بیان اختیار کرتا چلاگیا۔ اسی دور میں قاری تلازمۂ خیال ، خود کلامی، شعور کی روکی تکنیک اور آپ بیتی جیسے اسلوب سے متعارف ہوا۔۱۹۷۰ء کے بعد اردو افسانہ نگاری کا اہم مرکز مہاراشٹر رہا۔ ۱۹۷۰ کے بعد افسانہ نگاروں کی نسل جوگیندر پال، سریندرپرکاش، رام لال، اقبال متین، رتن سنگھ، اقبال مجید اور جیلانی بانو جیسے قدآور افسانہ نگاروں پر مشتمل ہے۔ سریندر پرکاش اور جوگیندرپال نے جب مہاراشٹر کی سرزمین پر قدم رکھا تو دونوں نے جدیدیت کا پرزور استقبال کیا اور یہیں سے اردوافسانے میں ایک نئے دورکا آغازہوا۔ جوگیندرپال اور سریندرپرکاش نے جدیدیت کے زیراثر بے شمار افسانے تحریرکئے۔ دونوں کا ویژن اور افسانوں کا کینوس بے حد وسیع ہے۔ سریندر پرکاش کے افسانوں میں ’’جپّی ژاں‘‘، ’’ دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘، ’’ساحل پر لیٹی عورت‘‘اور ’’سرنگ‘‘ وغیرہ کا شمار ان کے کامیاب افسانوں میں ہوتا ہے۔ دوسری طرف جوگیندر پال نے ’’نوزائدہ‘‘،’’ پیچھے‘‘، ’’گھر‘‘، ’’مقامات‘‘، اور ’’پرندوں کا جھنڈ‘‘ جیسے لافانی افسانے تخلیق کئے۔ مہاراشٹرا میں جدیدیت کی اس تحریک کوآگے بڑھانے میں رفعت نواز،الیاس فرحت، ابراہیم اختر، سریندر کمارمہرا، محمود شکیل اور رشیدانور وغیرہ نے اہم کردار ادا کیا جو اس وقت افسانے کے فن پر طبع آزمائی کررہے تھے اور ان کے افسانے اس دور میں متواتر رسائل میں شائع ہورہے تھے۔ ترقی پسند تحریک کی مانند علامتی اور تمثیلی افسانوں کی یہ دنیا رفتہ رفتہ یکسانیت کا شکار ہوتی چلی گئی۔ موضوعات میں دہشت گردی ، عدم تحفظ، فرد کی تنہائی، انتظامیہ کی بے حسی اور ایک نامعلوم مستقبل کی نشاندہی باقی رہ گئی تھی ۔ بیشتر افسانہ نگار انھیں موضوعات کے اردگرد چکر لگارہے تھے۔ ۱۹۸۰ء کے بعد مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں کیلئے یہ دور لمحۂ فکریہ تھاکہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ، افسانے کی کس روش کواختیار کریں ایک طرف ترقی پسند تحریک کے واضح نقوش تھے، دوسری طرف جدیدیت کی تحریک باہیں کھولے دروازے پردستک دے رہی تھی۔ جدیدیت کی تحریک کے زیراثر اردوافسانے میں مختلف سطحوں پر زبردست تجربے کئے گئے اس میں کچھ کامیاب بھی ہوئے اور کچھ ناکام بھی مگر ان تجربوں سے افسانہ نگاروں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ اس دور میں بہت سے افسانے ایسے لکھے گئے جو کہانی پن سے یکسر خالی تھے یعنی افسانے کے روایتی اجزا ئے ترکیبی سے انحراف کیا گیا اور اسے افسانے کے لیے غیر ضروری قرار دیتے ہوئے علامتی پیرایہ بیان اختیار کیا گیا ، چاہے قاری کی رسائی ان تک ہویا نہ ہو۔ اس پیرایہ بیان میں بھی وہ افسانہ نگار جو افسانے کے فن سے واقف تھے کامیاب افسانے تحریر کئے، مگر۱۹۸۰ء کے بعد کی افسانہ نگاروں کی یہ نسل ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہوکر نئی راہ کی متلاشی تھی چناچہ انھوں نے ایسے افسانوں کی تخلیق پر زوردیاجس میں کہانی پن، پلاٹ اور ماجراکے ساتھ ساتھ علامت اور استعارہ بھی حسب ضرورت شامل ہو مگر کہیں سے بھی آورد والی کیفیت نہ پیدا ہونے پائے، افسانے میں تجسس کے ساتھ ساتھ افسانہ نگاری کے فن کو بھی ملحوظ رکھا جائے جس کی وجہ سے افسانہ کامیابی کی کسوٹی پر کھرا اترتاہے۔ مذکورہ بالا اصولوں کو سامنے رکھ کر ۱۹۸۰ء کے بعد مہاراشٹرا میں لکھے گئے افسانوں میں سلام بن رزاق کا افسانہ’’آخری کنگورہ‘‘، نورالحسنین کا ’’فقط بیان تک‘‘ اور ’’سبزۂ نوررستہ کا نوحہ‘‘ ، مشتاق مومن کا ’’ترنت شور مچائیے اور انعام پائیے‘‘، ساجد رشید کا ’’سونے کے دانت‘‘، انور خان کا ’’حق‘‘، ’’گڑھی میں اترتی شام‘‘ اور ’’فنکاری‘‘ ، انورقمر کا’’فضول کاغذات میں ملے تین خط‘‘، احمدعثمانی کا ’’اپنی مٹی‘‘ اور اشتیاق سعید کا افسانہ ’’ہل جوتا‘‘ وغیرہ مہاراشٹر کے نئے افسانوں میں اولیت کے حامل ہیں۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں مہاراشٹر کے افسانہ نگاروں نے موضوعات کی یکسانیت اور مروجہ افسانوی اسلوب کے خلاف آواز بلند کی اور اس کہانی کی تلاش میں سرگرداں ہوگئے جس میں دل کے دھڑکنے کی صدا واضح طور پر سنی جاسکے اور کہانی روح کی تسکین کا ذریعہ بن سکے۔ جس میں شہری زندگی کے مسائل اور زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کے ساتھ ساتھ ان کی آرزوئیں اور تمنائیں انگڑائیاں لے رہی ہوں اور معاشرے کے ایک ایک پہلو کو اجاگر کرسکے، جہاں کہانی اسلوب کے پردے میں نہ چھپ جائے۔ اس احساس کے زیر اثر مہاراشٹرکی اردوافسانہ نگاری نے اپنا رخ بدلا جوکہ نہ تو اپنے پیش رو افسانہ نگاروں کے مشابہ تھا اور نہ ہی بالکلیہ جدیدیت کا منحرف جس کے نتیجے میں ایک ایسے افسانے کا چہرہ سامنے آیا جسے ناقدین نے ’’نئے افسانے‘‘ کے نام سے منسوب کیا، جوکہ افسانہ نگاروں کے فطری تقاضوں کو اپنے بھیتر پوری طرح سموئے ہوئے تھا۔ اس دور کے افسانہ نگاروں نے جہاںکہانی پن کے انحراف کو رد کیا، وہیںعلامتی افسانوں کی بامعنویت گیرائی اور گہرائی کوبھی اپنے افسانوں میں جگہ دی۔ اس نئے افسانے کی کامیابی کاسہرا سلام بن رزاق کے سرہے۔ مگران کے شانہ بشانہ مہاراشٹر کے دوسرے افسانہ نگاروں نے بھی اسے ترقی دینے میں اہم کرداراداکیا۔ آج مہاراشٹر میں اردو افسانے کی یہ مستحکم بنیاد انھیں افسانہ نگاروں کی کوششوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے۔ عصر حاضر کے مہاراشٹرکے افسانہ نگاروں میں سلام بن رزاق، انورقمر، ساجدرشید، انور خان، نورالحسنین، حمید سہروردی،مقدرحمید، سید محمداشرف، معین الدین جنابڑے، بلراج مین را، بانوسرتاج،احمد عثمانی، ایم مبین، عارف خورشید، مشتاق مومن، قاضی مشتاق ،محمودایوبی، علی امام نقوی، مظہرسلیم، اشتیاق سعید، رحمن عباس، مشتاق رضا، عظیم راہی، م ۔ناگ، طارق کولہاپوری، اقبال نیازی اور براق مرزا وغیرہ کا نام خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔  ترقی پسند تحریک نے مہاراشٹر میں جو اردو افسانہ نگاری کا بیج بویا تھا آج وہ توانا درخت بن کر کئی جدید افسانہ نگاروں کیلئےراحت کا سبب بن گیا ہے۔ ان میں کچھ ایسے افسانہ نگاربھی شامل ہیں جو اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیںجن کے قلم اب خاموش پڑچکے ہیں۔ توکچھ ایسے بھی ہیں جن کے افسانے مسلسل ہمارے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جن سےمستقبل میں امیدیں وابستہ ہیں۔ مہاراشٹر میں افسانہ نگاروں کا یہ کارواں آج بھی رواں دواں ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK