آج جب میں قرآن کی تلاوت کر رہی تھی اس وقت میری نظر سے ایک ایسی آیت گزری جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ آیت آجکل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور جیسے اسی دور کے مسلمانوں سے خطاب فرما یا جارہا ہو۔ اس آیت کا ترجمہ ہے
حالات خواہ ہمارے حق میں ہوں یا مخالف، رب العالمین سے ہی مدد مانگنا چاہئے
آج جب میں قرآن کی تلاوت کر رہی تھی اس وقت میری نظر سے ایک ایسی آیت گزری جسے پڑھ کر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے یہ آیت آجکل کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے اور جیسے اسی دور کے مسلمانوں سے خطاب فرما یا جارہا ہو۔ اس آیت کا ترجمہ ہے:
’’(اے مسلمانو!) تمہیں ضرور بالضرور تمہارے اموال اور تمہاری جانوں میں آزمایا جائے گا، اور تمہیں بہر صورت ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی اور ان لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سے اذیت ناک (طعنے) سننے ہوں گے، اور اگر تم صبر کرتے رہو اور تقویٰ اختیار کئے رکھو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔‘‘ (آل عمران:۱۸۶)
آج ایسا ہی ہو رہا ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان پریشان حال ہیں، کہیں ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے ،ان کے حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے، انہیں ہر طرح سے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے یہاں تک کہ پیغمبر اسلام ؐ کی شان میں گستاخی کے واقعات بھی پے در پے ہورہے ہیں۔ گویا ہر طرف سے ہمیں آزمایا جا رہا ہے۔
اس آیت کو پڑھئے اور اپنا جائزہ لیجئے۔ بہت سارے معاملات میں ہم صبر و ضبط کھو بیٹھتے ہیں ۔ جہاں تک تقویٰ کی بات ہے ، دلوں کا حال تو رب العالمین ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن جو کچھ نظر آتا ہے اس پس منظر میں ضروری ہے کہ ہم راہِ راست پر آجائیں۔ اگر ہم حکم ربانی بجالائیں، صبر و تقویٰ اختیار کریں اور ثابت قدم رہیں تو پھر ان شاء اللہ ،اللہ کی رحمت کا نزول ہوگا ،ہمارے مصائب کو ختم کر دیا جائے گا، اللہ ہم پر رحم کرے گا اور ضرور کرے گا کیونکہ وہ ارحم الراحمین ہے، سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔ اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں، راہ مستقیم پر گامزن ہو جائیں ،پھر دیکھیں کہ جو لوگ ہمارے دشمن ہیں، وہ ہم سے قریب ہوجائیں گے ۔
آج ہماری پسماندگی کی وجہ یہ ہے کہ ہم اللہ کو بھول چکے ہیں اور قرآن سے دور ہیں، سنت پر عمل نہیں کرتے، نماز جسے آپ ﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا،اسے بھی وقت پر ادا نہیں کرتے۔ آج ہمارے درمیان اتحاد نہیں۔ ہر شخص خود کو مکمل اور بہترین ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر کوئی اپنی کامیابی کا دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کامیاب ہے۔ ایسے لوگ اس ارشاد ربانی کو بھول جاتے ہیں کہ :
’’ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتاً کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ (آل عمران:۱۸۵)
آج ہم خود پر غور کریں، کہ کیا ہمارے اعمال ایسے ہیں کہ ہمیں جنت میں داخل کیا جائے ؟