ہزاروں نے فوج میں دوبارہ جانے سے احتراز کیا ہے جبکہ اس سے بھی بڑی جمعیت نے (جو کہ عوام پر مشتمل ہے)حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ عدالتی اصطلاحات نافذ ہوں ۔
EPAPER
Updated: September 25, 2023, 1:42 PM IST | Ramzy Baroud | Mumbai
ہزاروں نے فوج میں دوبارہ جانے سے احتراز کیا ہے جبکہ اس سے بھی بڑی جمعیت نے (جو کہ عوام پر مشتمل ہے)حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ عدالتی اصطلاحات نافذ ہوں ۔
اسرائیل نے شروع ہی سے اپنے چہرے پر جمہوریت اور استحکام کے مکھوٹے سجارکھے ہیں۔ ان مکھوٹوں کو دیکھ کر وہ مغربی طاقتیں خوش ہوتی ہیں جن کے پاس غیر معمولی سیاسی ، معاشی اور فوجی طاقت ہے۔ یہ مغربی طاقتیں اپنے بااثر کارپوریٹ میڈیا کی مدد سے اسرائیل کی شبیہ کو مزید چمکانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں ۔ اس کوشش کے ذریعے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اسرائیل اعلیٰ معیاری جمہوری اور مستحکم ریاست ہے۔ ایک طرف یہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف عربوں اور فلسطینیوں کو دشمن کے روپ میں باور کرایا جاتا ہے۔ دشمنوں میں اُن لوگوں کو بھی شامل کرلیاجاتا ہے جو اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں ۔ یہ جاننے اور دیکھنے کی کوشش بڑی حد تک بے معنی ہے کہ اسرائیل کتنا جمہوری اور کتنا مستحکم ہے کیونکہ یہ اصطلاحات ان لوگوں کیلئے بہت آسانی سے استعمال کرلی جاتی ہیں جو اقتدار میں ہیں۔ یہ کام اس لئے بھی آسان ہے کہ اسرائیل اندرون ملک جمہوریت کے جاری وساری ہونے کی تصویر پیش کرتارہتا ہے، بھلے ہی یہ نہ بتاتا ہو کہ جمہوریت کتنی جانبدارانہ ہے ۔ جہاں تک استحکام کا سوال ہے یہ پروپیگنڈہ کبھی کرتا نہیں ہے کہ غیرملکی کمپنیوں کا جو پیسہ اسرائیل میں لگا ہے وہ غیر معمولی طورپر محفوظ ہے۔
یہ سارے معاملات نعرے اور یکطرفہ اعلانات ہیں ۔کئی برسوں سے یہ بھی سمجھایا جارہا ہے کہ اسرائیل مشرقی وسطیٰ کی واحد جمہوریت ہے جس کے استحکام کو وہ فوج تحفظ فراہم کرتی ہے جودنیا کی سب سے زیادہ اخلاقی فوج ہے ۔یہ ایسا خوشنما غبارہ ہے جو میڈیا کی ہواؤں پر بلند ہوتا رہتا ہے مگر جو لوگ حقائق کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں انہیں علم ہے کہ اسرائیل کا عرب زمینوں پر قبضہ غیر قانونی ہے اور اس نے فلسطینیوں اور عرب ملکوں کے خلاف کئی مرتبہ جنگ کا آغاز کیا ہے۔ستمبر ۲۰۱۲ء میں اس وقت کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اپنے ملک کا تعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ ہم ایک ایسے خطے میں ہیں جہاں سیاسی کیفیت بدلتی رہتی ہے، حالات کسی بھی وقت دھماکہ خیز ہوجاتے ہیں مگر ہم نے کوشش کی ہے کہ اس جزیرے کی مانند رہیں جس کے چاروں طرف بھلے ہی طغیانی ہو مگر جزیرہ محفوظ رہے۔ ‘‘ یہ بیان دیتے وقت نیتن یاہو بھول گئے یا کوشش کی کہ دنیا بھول جائے کہ مشرق وسطیٰ میں دھماکہ خیز حالات پید ا کون کرتا ہے۔ رہا سوال مشرقی وسطیٰ کے ان حالات کا جن میں اسرائیل کا عمل دخل نہیں ہے تو اکادُکا واقعات کے علاوہ حالیہ تاریخ میں یہاں نہ تو کوئی بغاوت ہوئی نہ ہی سیاسی بحران پیدا ہوا۔اس خطہ میں کوئی معاشی کسادبازاری بھی نہیں ہوئی جن کا مغربی طاقتوں نے مشاہدہ کیا اور معاشی طورپر طاقتور ہونے کے باوجود پریشان حالی کا شکار رہیں۔
لوٹ کر آتے ہیں اسرائیل کے جمہوری اور مستحکم ہونے کی طرف ۔ ۷؍ ستمبر کو ایک ویڈیو وائرل ہوا جس میں دیکھا گیا کہ اسرائیل کے فوجی گولانی پول کوجو کہ اُن ہی کے فوجی ٹھکانے کا حصہ ہے منہدم کررہے ہیں ۔اس ویڈیو کو یہ کہہ کر نظر انداز کیاجاسکتا ہے کہ کبھی کبھار ایسا ہوجاتا ہے مگر یہ کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے بلکہ واقعات کے تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ وہاں کے کم از کم دس ہزار فوجیوں نے اعلان کردیا ہے کہ اگر نیتن یاہو معاشی اصطلاحات پر اڑے رہیں گے تو وہ فوجی یونٹس میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہزاروں نے فوج میں دوبارہ جانے سے احتراز کیا ہے جبکہ اس سے بھی بڑی جمعیت نے (جو کہ عوام پر مشتمل ہے)حکومت کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ عدالتی اصطلاحات نافذ ہوں لیکن نیتن یاہو اور ان کی سخت گیر حکومت کسی کی سننے کو تیار نہیں ہے۔
اسرائیل کے فوجی تجزیہ کار اور ممتاز صحافی اِن دنوں ایسے سوالات سے بحث کررہے ہیں جو چند سال پہلے تک سوچے بھی نہیں جاسکتے تھے۔ مثال کے طورپر کیا ہوگا اگر فوج عوام کے خلاف کھڑی ہوجائے؟ کیا ہوگا اگر عوام حکومت کو اکھاڑ پھینکیں ؟ کیا ہوگا اگر اسرائیل بطور جمہوری ملک برقرار نہ رہے؟ ماہرین اور صحافیوں کو ایسا لگتا ہے کہ یہ سوالات بہت سے ذہنوں میں نمودار ہورہے ہیں کیونکہ آثار ہی کچھ اس طرح کے پائے جارہے ہیں ۔ اس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل کے دوسابق افسران نے جن کا تعلق داخلی سلامتی خدمات سے تھا، امریکی صدر جوبائیڈن کو خط لکھا کہ وہ نیتن یاہو سے ملاقات نہ کریں ۔یہ خط ۳۱؍ اگست کو منظر عام پر لے آیا گیا تھا۔اس خط میں لکھا گیا تھا کہ نیتن یاہو اسرائیل کو بہت نقصان پہنچا رہے ہیں بالخصوص امریکہ اور اسرائیل کی فوجی شراکت داری کو ۔ان حالات میں آپ خود اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسرائیل کو مشرقی وسطیٰ کی واحد جمہوریت باور کرانا کتنا مشکل ہے اور کون اس کو تسلیم کرے گا۔اسی بنیاد پر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے ملک کو سرمایہ کاری کیلئے محفوظ بتاتی تھی مگر اب کون یہاں سرمایہ لگائے گا۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ۲۰۲۰ ءاور ۲۰۲۲ء کے مقابلے میں اسرائیل میں ہونے والی غیرملکی سرمایہ کاری ۶۰؍فیصد کم ہونے کو ہے ۔ یہ صورت حال اسرائیل ہی کی وزارت مالیات کی ظاہر کردہ ہے۔اس میں ۲۰۲۱ء کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ یہ صورت حال اسرائیل کی جمہوریت اوراستحکام کا منہ چڑا رہی ہے۔
اسرائیلی حکومت عدالتی اصلاحات کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے یہ اسی کو معلوم ہے مگر اپنی ساکھ بچانے کی کوشش میں وہ اتنا ضرور کرسکتی ہے کہ فلسطینیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ انصاف کی ضمانت دے۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بیرونی دنیا میں اس کی قبولیت بڑھے گی کیونکہ فلسطین کا مسئلہ جو اِس کا پیدا کردہ ہے کئی دہائیوں سے اس کی ساکھ کو متاثر کررہا ہے ۔ یاد رہنا چاہئے کہ فلسطین کی آزادی کے بغیر اسرائیل کا مستقبل ہمیشہ اَبرآلود رہے گا، اسے استحکام نہیں ملے گا، اس پر نسل پرستی کا الزام گہرا ہوتا رہے گااور وہ ہر وقت حالت جنگ میں رہے گا۔
کیا اسرائیل کے حکمراں جو اندرونی حالات سے نمٹنے میں ناکام ہیں خارجی حالات کو بہتر بناسکتے ہیں ؟ یہ ان کی حکمت ِ عملی، سیاسی بصیرت،عاقبت اندیشی اور تدبر کی آزمائش ہے۔