• Thu, 16 October, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

تقویٰ کی حقیقت

Updated: February 07, 2020, 8:10 AM IST | Maulana Abul Ala Maududi

  تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔

علامتی تصویر۔ تصویر: پی ٹی آئی
علامتی تصویر۔ تصویر: پی ٹی آئی

 تقویٰ ہے کیا چیز؟
  تقویٰ حقیقت میں کسی وضع و ہیئت اور کسی خاص طرزِ معاشرت کا نام نہیں ہے بلکہ دراصل وہ نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو خدا ترسی اور احساسِ ذمہ داری سے پیدا ہوتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں ظہور کرتی ہے۔ حقیقی تقویٰ یہ ہے کہ انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو، عبدیت کا شعور ہو، خدا کے سامنے اپنی ذمہ داری و جواب دہی کا احساس ہو اور اس بات کا زندہ ادراک موجود ہو کہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے، جہاں خدا نے ایک مہلت عمر دے کر مجھے بھیجا ہے اور آخرت میں میرے مستقبل کا فیصلہ بالکل اس چیز پر منحصر ہے کہ میں اس دیئے ہوئے وقت کے اندر اس امتحان گاہ میں اپنی قوتوں اور قابلیتوں کو کس طرح استعمال کرتا ہوں ، اس سروسامان میں کس طرح تصرف کرتا ہوں جو مشیت الٰہی کے تحت مجھے دیا گیا ہے، اور ان انسانوں کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہوں جن سے قضائے الٰہی نے مختلف حیثیتوں سے میری زندگی متعلق کر دی ہے۔ 
 یہ احساس و شعور جس شخص کے اندر پیدا ہوجائے اس کا ضمیر بیدار ہوجاتا ہے، اس کی دینی حِس تیز ہو جاتی ہے، اس کو وہ ہر چیز کھٹکنے لگتی ہے جو خدا کی رضا کے خلاف ہو۔ وہ اپنے نفس کا آپ جائزہ لینے لگتا ہے کہ میرے اندر کس قسم کے رجحانات و میلانات پرورش پا رہے ہیں ۔ وہ اپنی زندگی کا خود محاسبہ کرنے لگتا ہے کہ میں کن کاموں میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں صرف کر رہا ہوں ۔ وہ صریح ممنوعات تو درکنار مشتبہ امور میں بھی مبتلا ہوتے ہوئے خود بخود جھجکنے لگتا ہے۔ اس کا احساسِ فرض اسے مجبور کر دیتا ہے کہ تمام اوامر کو پوری فرمانبرداری کے ساتھ بجا لائے۔ اس کی خداترسی ہر اس موقع پر اس کے قدم میں لرزش پیدا کر دیتی ہے جہاں حدود اللہ سے تجاوز کا اندیشہ ہو۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی نگہداشت آپ سے آپ اس کا وطیرہ بن جاتی ہے اور اس خیال سے بھی اس کا ضمیر کانپ اٹھتا ہے کہ کہیں اس سے کوئی بات حق کے خلاف سرزد نہ ہو جائے۔ 
 یہ کیفیت کسی ایک شکل یا کسی مخصوص دائرہ میں ہی ظاہر نہیں ہوتی بلکہ آدمی کے پورے طرزِ فکر اور اس کے تمام کارنامۂ زندگی میں اس کا ظہور ہوتا ہے، اور اس کے اثر سے ایک ایسی ہموار و یک رنگ سیرت پیدا ہوتی ہے جس میں آپ ہر پہلو سے ایک ہی طرز کی پاکیزگی و صفائی پائیں گے۔ بخلاف اس کے جہاں تقویٰ بس اس چیز کا نام رکھ لیا گیا ہے، کہ آدمی چند مخصوص شکلوں کی پابندی اور مخصوص طریقوں کی پیروی اختیار کرے اور مصنوعی طور پر اپنے آپ کو ایک ایسے سانچے میں ڈھال لے جس کی پیمائش کی جا سکتی ہو، وہاں آپ دیکھیں گے کہ چند اشکال تقویٰ جو سکھا دی گئی ہیں ، ان کی پابندی تو انتہائی اہتمام کے ساتھ ہو رہی ہے، مگر اس کے ساتھ زندگی کے دوسرے پہلوؤں میں وہ اخلاق، وہ طرزِ فکر اور وہ طرزِ عمل بھی ظاہر ہو رہے ہیں جو مقامِ تقویٰ تو درکنار، ایمان کے ابتدائی مقتضیات سے بھی مناسبت نہیں رکھتے، یعنی حضرت مسیحؑ کی تمثیلی زبان میں مچھر چھانے جا رہے ہیں اور اونٹ بے تکلفی کے ساتھ نگلے جا رہے ہیں ۔ میری ان باتوں کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ وضع قطع، لباس اور معاشرت کے ظاہری پہلوؤں کے متعلق جو آداب و احکام حدیث سے ثابت ہیں میں ان کا استخفاف کرنا چاہتا ہوں یا انہیں غیرضروری قرار دیتا ہوں ۔ خدا کی پناہ اس سے کہ میرے دل میں ایسا کوئی خیال ہو۔ دراصل جو کچھ میں آپ کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اصل شے حقیقت ِ تقویٰ ہے نہ کہ مظاہر۔ پہلی چیز دیر طلب اور صبر آزما ہے، بتدریج نشوونما پاتی اور ایک مدت کے بعد برگ و بار لاتی ہے، جس طرح بیج سے درخت کے پیدا ہونے اور پھل پھول لانے میں کافی دیر لگا کرتی ہے۔ اسی لئے سطحی مزاج کے لوگ اس سے اُپراتے ہیں ۔ بخلاف اس کے دوسری چیز جلدی اور آسانی سے پیدا کر لی جاتی ہے جیسے ایک لکڑی میں پتے اور پھل اور پھول باندھ کر درخت کی سی شکل بنا دی جائے۔ تقویٰ کی پیداوار کا یہی ڈھنگ آج مقبول ہے۔ لیکن ظاہر ہے کہ جو توقعات ایک فطری درخت سے پوری ہوتی ہیں وہ اس قسم کے مصنوعی درختوں سے تو کبھی پوری نہیں ہو سکتیں ۔

islam Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK