یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ سے تقریر کرتے ہوئے وزیراعظم مودی نے ’تُشٹی کرن‘ پر تنقید کی تھی۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کہیں وہ تنقید کے بہانے اپنے حامیوں کو اس بات کی یقین دہانی تو نہیں کرارہے تھے کہ انہیں ایک موقع اور دو تاکہ مسلمانوں پر مزید مظالم ڈھائے جائیں
نوح میں فساد کے بعد وہاں کئی مہاپنچایتیں ہوئیں جن میں مسلمانوں کے خلاف کافی زہر افشانیاں کی گئیں۔ تصویر:آئی این این
اس مرتبہ یوم آزادی کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل سے تقریر کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے خاندان پرستی اور بدعنوانی کے ساتھ ہی ’خوشامدی سیاست‘ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ بہت دنوں سے پس منظر میں پڑے اس لفظ کو لال قلعہ کی بلندی سے نشانہ بنایا جانا ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے، خاص طور پر اُس وقت، جبکہ ہندوستان کے مسلمان تاریخ کی سب سے کمزور حالت میں ہیں ۔ انہیں سرعام ذلیل کیا جا رہا ہے۔ قوم پرستی کے نام پر انہیں ’قوم سے `خارج‘ کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ مسلم خواتین کی آبروریزی کرنے والوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا رہا ہے اور رہا ہونے کے بعد عوامی سطح پر اُن کاخیر مقدم کیا جارہا ہے۔
’خوشامدی سیاست‘سے مراد وہ سیاسی رویہ ہے جس میں کسی جارح گروہ کو غیر ضروری رعایتیں دی جاتی ہیں ۔ آر ایس ایس اور بی جے پی شروع ہی سے کانگریس پرخوشامدی سیاست کرنے کا الزام عائد کرتی رہی ہے تاکہ ہندو اکثریت کے درمیان اسے مسلم نواز پارٹی ثابت کیا جاسکے۔ یہ مہم کافی حد تک کامیاب بھی رہی ہے۔ لیکن اِس وقت کانگریس یا کوئی دوسری اپوزیشن پارٹی مرکز میں اقتدار میں تو ہے نہیں ۔ دس سال سے تو مودی ہی وزیر اعظم ہیں ۔ پھر یہ خوشامدی سیاست کون کر رہا ہے؟ اور اس کا سماجی انصاف پر کس طرح برا اثر پڑ رہا جس کا دعویٰ وزیراعظم مودی نے کیا ہے۔
وزیر اعظم کی جانب سے خوشامدی سیاست کا یہ جملہ اُس وقت اٹھایا گیا ہے جب دنیا ہندوستان میں اقلیتوں کی نسل کشی کاخدشہ محسوس کررہا ہے۔ نومبر۲۰۲۱ءمیں ’یو ایس ہولوکاسٹ میوزیم‘ نے ہندوستان کو ان ممالک کی فہرست میں سب سے اوپر رکھا تھا جہاں اقلیتوں کا قتل عام کیا جا سکتا ہے۔ جنوری۲۰۲۲ء میں ’ جینوسائیڈ واچ‘ کے بانی گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کے سامنے بھی ایسی ہی ایک رپورٹ پیش کی تھی۔ انہوں نے ’ہری دوار دھرم سنسد‘ میں عوامی سطح پر مسلمانوں کے خاتمے کی اپیل کرنے والی تقریروں کا حوالہ دیتے ہوئے خبردار کیا تھاکہ ہندوستان میں قتل عام ہو سکتا ہے۔ یہ وہی گریگوری سٹینٹن ہیں جنہوں نے۱۹۸۹ء میں افریقی ملک روانڈا کے بارے میں اسی طرح کی وارننگ جاری کی تھی جو ۱۹۹۴ء میں درست ثابت ہوئی۔ اُس وقت روانڈا میں ’توتسی‘ قبیلے کے تقریباً ۸؍ لاکھ شہریوں کو’ ہوتو‘ قبیلے کے انتہا پسندوں نے قتل کر دیا تھا۔ان قاتلوں کو حکومت کا تحفظ فراہم تھا۔
جنہیں اس طرح کی دھمکیوں میں مبالغہ آرائی نظر آرہی ہو، انہیں ابھی حالیہ دنوں کی پنجاب،ہریانہ ہائی کورٹ کی وارننگ پر دھیان دینا چاہئے۔ ہائی کورٹ نے نوح میں ہونے والے فساد کے بعد جاری بلڈوزر مہم کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسے روک دیا۔ ہائی کورٹ نے اسے ایک ’مخصوص کمیونٹی‘ کو نشانہ بنانے کی مہم قرار دیا اور پوچھا کہ کیا یہ ’نسلی تطہیر‘ کی مشق ہے۔
اگر کوئی اور وقت ہوتا تو ہائی کورٹ کا یہ ریمارکس قومی تشویش اور بحث کا موضوع بنتا، لیکن ملک کی بدتر حالات کو اجاگر کرنے والے اس عدالتی تبصرے کوصرف حکومت ہی نے نہیں ، نام نہاد مین اسٹریم میڈیا نے بھی نظر انداز کر دیا۔ صرف ہریانہ ہی نہیں ، یوپی اور بی جے پی کی حکمرانی والی دیگر ریاستوں میں بھی مسلمانوں کے گھروں اور بستیوں پر جس طرح سے بلڈوزر چلائے جا رہے ہیں ، اس کی پوری دنیا میں چرچے ہو رہے ہیں ۔اس غیر انسانی اور اقلیت مخالف سرکاری پالیسی پر شرمندہ ہونے کے بجائے بی جے پی کی حکومتیں اور اس کے حامی اس کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں ۔
صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کے نیو جرسی میں گزشتہ سال یوم آزادی کے موقع پر بی جے پی حامیوں کی طرف سے نکالی گئی ترنگا یاترا میں ایک بلڈوزر بھی شامل تھا جسے یوگی آدتیہ ناتھ کے پوسٹروں سے سجایا گیا تھا۔ انڈین امریکن مسلم کانفرنس اور ہندوز فار ہیومن رائٹس جیسی تنظیموں کے شدید احتجاج کے بعد انتظامیہ کو پریڈ کی اجازت دینے پر معذرت کرنی پڑی تھی۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں نے امریکی حکومت کو امریکہ میں ہندو تارکین وطن میں آر ایس ایس کی بڑھتی ہوئی دراندازی کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
آر ایس ایس اور بی جے پی کی نظریاتی بنیاد میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت شامل ہے۔ ان سے وابستہ تنظیمیں اس پالیسی کے تحت مسلسل اپنی فعالیت کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ پھر بھی حکومت سے اتنی توقع تو کی جاتی ہے کہ وہ قانون توڑنے والوں کو سزا دے گی، لیکن بی جے پی حکومتوں میں نجی سطح سے لے کر عوامی اجلاسوں تک میں اقلیتوں کو دھمکیاں دینے والے اوران پر ظلم کرنے والے ہی نہیں بلکہ قاتل بھی اپنے آپ کو ’سزا سے پرے‘ سمجھ رہے ہیں یعنی انہیں سزا کا کوئی خوف نہیں ہے۔ مسلم خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو جس طرح سے جیل سے رہا کیا جاتا ہے اور پھر بی جے پی لیڈران جس طرح سے عوامی سطح پر ان کی عزت افزائی کرتے ہیں ، اس سے سارا فرق کھل جاتا ہے۔
ایسے میں آج ’تشٹی کرن‘ تو اُن کا ہورہا ہے جو اقلیتوں پر کھلے عام مظالم ڈھاتے ہیں اوران کے مذہبی عقائد کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ۳۱؍ جولائی کو، یوم آزادی سے۱۵؍ دن پہلے آر پی ایف کانسٹیبل چیتن سنگھ چودھری نے جے پور،ممبئی سینٹرل سپر فاسٹ ٹرین میں قبائلی برادری سے تعلق رکھنے والے اپنے سینئر افسر کو قتل کرنے کے بعد کئی بوگیوں میں تلاش کرکے تین مسلمانوں کوگولی مار دی تھی۔ ظاہر ہے کہ وہ لباس سے پہچانے گئے تھے۔ اب یہ سی سی ٹی وی فوٹیج سے بھی سامنے آگیا ہے کہ چیتن سنگھ چودھری نے بندوق کی نوک پر ایک برقع پوش خاتون کو’جے ماتا دی‘ بولنے پر مجبور کیا تھا۔ اس نے یوگی اور مودی کو ملک کیلئے ضروری قرار دیتے ہوئے ایک تقریر بھی کی تھی۔ چودھری کو یقیناً احساس تھا کہ وہ قوم کیلئے بہت اچھا کام کر رہا ہے۔ اسے ذہنی طور پر ’پاگل‘کہنے والوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس طرح پاگلوں کی تعداد میں اضافے کیلئے حکومت کی یہی ’تشٹی کرن‘ کی پالیسی ہی ذمہ دار ہے۔
سیاسی ماہرین نے وزیراعظم مودی کے دوسرے دور کے اس آخری یوم آزادی کے خطاب کو انتخابی تقریر قرار دیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ یہ۲۰۲۴ء کے انتخابات میں پسماندہ طبقات اور اقلیتوں کے ممکنہ اتحاد سے پیدا ہونے والی پریشانی کا ثبوت ہے۔ لیکن معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔ وزیراعظم مودی کی طرف سے ’تشٹی کرن‘ کا سوال اٹھانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقلیتوں کوکچلنے کے ابھی اور کئی ’دور‘ چلیں گے۔ نسل کشی کے دہانے پر کھڑے ہندوستان سےانہیں تسلی نہیں ہورہی ہے۔ ان کی فوج نام نہاد قوم پرستی کی کدال سے اس دہانے کو گرانے پرآمادہ ہے۔یہ سب بڑے پیمانے پر ہندو سماج کو متحرک کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے تاکہ۲۰۲۴ء کا راستہ ہموار ہو۔ سوال یہ ہے کہ جو ہندوسماج اپنی رواداری اور مساوات پر فخر کرتا تھا، وہ اس’ادھرم‘ کو کب تک ’دھرم‘ مانتا رہے گا؟کمزوروں پر ہونے والے اس ظلم کو وہ کب تک چپ چاپ دیکھتا رہے گا؟ کیا وہ تلسی داس کی دی گئی دھرم کی تعریف بھول گیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ’’ظالم کچھ بھی ہو سکتے ہیں ، مذہبی تو نہیں ہو سکتے۔‘‘