Inquilab Logo

غیر منظم شعبہ معیشت کی بڑی طاقت ہے، اسے مزید کمزورنہیں کیا جاسکتا

Updated: December 05, 2021, 8:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

اس شعبے کو منظم کرنے کیلئے حکومت کو بہتر لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا۔ مقصد اس کو کمزور کرنا نہیں بلکہ اسے طاقت دینا ہونا چاہئے۔ اسے کمزور کرنا قومی معیشت کو کمزور کرنا، غیر لائسنس شدہ کاروبار کو متاثر کرنا اور شہریوں کوبے روزگار کرنا ہوگا البتہ طاقت دینے کی کوشش نہایت فائدہ بخش ہوگی۔

Representation Purpose Only- Picture INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 اکتوبر ۲۰۲۱ء میں اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) کی جانب سے جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہندوستانی معیشت کا غیر منظم شعبہ تیزی سے سکڑتا جارہا ہے۔ رپورٹ میں تحریر کردہ اعدادو شمار کے مطابق یہ شعبہ ۲۰۱۸ء کے مالی سال کے ۵۲؍ فیصد سے سمٹ کر ۲۰۲۱ء کے مالی سال میں ۲۰؍ فیصد رہ گیا ہے۔ بیشتر ماہرین معاشیات نے اسے خوش آئند قرار دیا ہے جبکہ متعدد نے اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور جس انداز میں یہ تحقیق مکمل کی گئی ہیں ، اس پر سوال بھی اٹھائے ہیں ۔
 کسی بھی ملک کی معیشت کے دو اہم شعبے، منظم اور غیرمنظم ہیں ۔منظم شعبے میں وہ کمپنیاں ، اسٹارٹ اپس اور کاروبار شامل ہوتے ہیں جو حکومت کی فائلوں میں رجسٹرڈ یا لائسنس شدہ ہیں جبکہ غیر منظم شعبے میں وہ چھوٹے تاجر، دکانیں یا ملازمین شامل ہیں جو سرکاری فائلوں میں رجسٹرڈ نہیں ہیں یا جن کے درست اعدادوشمار حکومت کے پاس نہیں ہیں ۔ منظم شعبے میں بہتر ملازمتیں ہوتی ہیں ، ملازمین طے شدہ اوقات اور بہتر حالات میں کام کرتے ہیں ، تنخواہ دینے کا باقاعدہ ایک نظام ہوتا ہے اور ملازمت یقینی رہتی ہے نیز یہ شعبہ باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، غیر منظم شعبے میں کام کے باقاعدہ اوقات یا مقررہ اُجرت نہیں ہوتی۔ یہ شعبہ حکومت کے ریکارڈ پر نہیں ہے اور نہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ یہ شعبہ ہر ریاست، ہر شہر اور ہر علاقے تک پھیلا ہوا ہے۔ یہ اتنا وسیع ہے کہ اس کے اعدادوشمار کے بارے میں کسی کو صحیح اندازہ نہیں ہے۔ 
 ماہرین معاشیات غیر منظم شعبے کو معیشت کی ترقی کے پاؤں کی ایک ایسی زنجیر قرار دیتے ہیں جس کے سبب اس کی رفتار سست پڑ گئی ہے۔ دی انڈین وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں کام کرنے والے ۸۸؍ فیصد افراد غیر منظم شعبے سے وابستہ ہیں ۔ یہ شعبہ سب سے زیادہ پروڈکشن کرتا ہے اور سب سے زیادہ روزگار فراہم کرتا ہے۔ اگرغیر منظم شعبہ کو مکمل طور پر منظم کردیا جائے تو کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ملک کی ترقی کی رفتار کتنی ہوگی اور ٹیکس کی صورت میں حکومت کے خزانے میں کتنا سرمایہ جمع ہوگا؟ اس سے ملک کی فلاح و بہبود کیلئے کتنے کام کرنے ممکن ہوں گے؟ دوسری طرف اس شعبے کی افرادی قوت کی زندگی کا معیار کتنا بہتر ہوگا؟ 
 مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی درج ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران غیر منظم شعبے کے ۵۸؍ فیصد افراد ایسے تھے جنہوں نے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنے کیلئے دوسروں سے قرض لیا۔ اسی شعبے سے وابستہ ۶۳؍ فیصد افراد نے سروے میں یہ راز فاش کیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں اُنہیں صرف ۲؍ وقت کی غذا میسر آرہی تھی۔ ہندوستان کی ۸۰؍ فیصد سے زائد آبادی غیر منظم شعبے پر انحصار کرتی ہے لیکن ملک کی جی ڈی پی میں اس کا حصہ ۲۰؍ فیصد سے بھی کم ہے۔ ان حالات کے پیش نظر وزارتِ محنت نے ستمبر میں ’’ای شرَم‘‘ نامی ایک ویب سائٹ جاری کی جس پر غیر منظم شعبہ سے وابستہ لیبر فورس (افرادی قوت) کو اپنا رجسٹریشن کروانا ہے۔ اس کا مقصد حکومت کی مختلف اسکیموں ، اجرت، بیمہ وغیرہ تک ان افراد کی رسائی آسان بنانا ہے۔ دی منٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق اس پورٹل کے لانچ کرنے کے پہلے ۳؍ ہفتوں میں ۶ء۵؍ ملین افراد نے اس پورٹل پر رجسٹریشن کیا تھا۔ خیال رہے کہ یہ تمام افرادملک کے غیر منظم شعبے سے وابستہ ہیں ۔ حکومت کے محتاط اندازے کے مطابق ہندوستان میں ۳۸۰؍ ملین افراد غیر منظم شعبے کا حصہ ہیں ۔ حکومت نے ملک بھر میں ۳؍ لاکھ ایسے سینٹر بنائے ہیں جو اس شعبے کے افراد کو ویب سائٹ پر رجسٹریشن کرنے میں مدد فراہم کریں گے۔ لیکن کیا یہ افراد اس ویب سائٹ کا حصہ بنیں گے؟
 دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں ۹۵؍ فیصد کمپنیاں اور ادارے ایسے ہیں جہاں ۵؍ سے بھی کم ملازمین کام کرتے ہیں ، یہی وہ افراد ہیں جو غیر منظم شعبے سے وابستہ ہیں یعنی ان کا شمار غیر منظم شعبے میں ہوتا ہے۔ اس شعبے میں ملازمین کم اُجرت پر بھی کام کرنے کیلئے تیار ہوجاتےہیں اس لئے ان کے پاس سرمایہ کاری یا اپنا معیار زندگی بہتر بنانے کیلئے بھی رقم نہیں ہوتی۔ بہت ہی کم افراد بچت کرتے ہیں جبکہ بیشتر ایسے ہوتے ہیں جو معمولی بچت سے بھی قاصر ہوتے ہیں ۔ اس وجہ سے ملک میں عدم مساوات کا خلاء بڑھتا ہے۔ 
  پہلے نوٹ بندی اور پھر جی ایس ٹی کے ذریعے اس شعبے کو کمزور کرنے کیلئے حکومت نے دو مرتبہ کوشش کی لیکن دونوں ہی مرتبہ ناکام رہی البتہ دونوں ہی مرتبہ غیر منظم شعبہ بری طرح متاثر ہوا تھا ۔ ان دونوں کے اثرات آج بھی بہت سی صنعتوں پر باقی ہیں ۔ ای شر َم اسکیم بھی حکومت کی اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس کے ذریعے حکومت غیر منظم شعبے کی افرادی قوت تک پہنچنا چاہتی ہے لیکن کیا حکومت اس میں کامیاب ہوگی؟ اس پر ابھی تبصرہ کرنا قبل از وقت ہوگا۔ تاہم، نوٹ بندی کے نفاذ کے وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ بھی کہا تھا کہ اس سے غیر منظم شعبے کو کمزور کرنے میں مدد ملے گی لیکن نوٹ بندی کو ۵؍ سال گزر جانے کے بعد بھی حالات میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ عوام آج بھی نقدی میں لین دین کو ترجیح دے رہے ہیں حتیٰ کہ نوٹ بندی سے قبل کے مقابلے آج زیادہ کرنسی نوٹ گردش میں ہیں ۔ اسی طرح جی ایس ٹی کے نفاذ کے متعدد مقاصد میں سے ایک یہ بھی تھا کہ معیشت میں شراکت کرنے والی ہر صنعت کو ٹیکس کے اس نئے نظام سے منسلک کردیا جائے گا لیکن اس کےپیچیدہ نظام کے سبب بیشتر ادارے اسے صحیح طریقے سے سمجھ سکے ہیں نہ ہی اس کا حصہ بنے ہیں ۔ تیسرا جھٹکا کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے دیا۔ لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد جب سب کچھ بند ہوگیا تو ایسی صنعتیں بری طرح متاثر ہوئیں جو کافی حد تک افرادی قوت کی مرہون منت تھیں ۔ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے ملازمین اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔لاک ڈاؤن ختم ہونے کے بعد ہنوز یہ شعبہ پوری طرح نہیں کھل سکا ہے۔
 غیرمنظم شعبے کو منظم کرنے کیلئے حکومت کو بہتر لائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا۔ مقصد اس کو کمزور کرنا نہیں بلکہ طاقت دینا ہونا چاہئے۔ اسے کمزور کرنا قومی معیشت کو کمزور کرنا، غیر لائسنس شدہ کاروبار کو متاثر کرنا اور شہریوں کوبے روزگار کرنا ہوگا البتہ طاقت دینے کی کوشش نہایت فائدہ بخش ہوگی بشرطیکہ اس کوشش کی بنیاد ہمدردانہ اور مخلصانہ پایسیوں پر رکھی جائے اور ویسا سلوک نہ ہو جیسا یکطرفہ تین زرعی قوانین کے ذریعہ کسانوں کے ساتھ روا رکھا گیا۔ اُن سے پوچھا تک نہیں گیا اور اُن پر قوانین تھوپ دیئے گئے جو کسانوں کی ایک سال کی جدوجہد کے بعد منسوخ کئے گئے ہیں ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK