Inquilab Logo

غیر پارلیمانی الفاظ کا تنازع

Updated: July 16, 2022, 11:28 AM IST | Mumbai

ایوان پارلیمان، جمہوریت کا مقدس ایوان ہے جہاں عوام کیلئے، عوام (کے نمائندوں) کے ذریعہ، عوام کے مسائل و معاملات پر گفتگو اور بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور ضروری قوانین بنائے جاتے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

 ایوان پارلیمان، جمہوریت کا مقدس ایوان ہے جہاں عوام کیلئے، عوام (کے نمائندوں) کے ذریعہ، عوام کے مسائل و معاملات پر گفتگو اور بحث و مباحثہ ہوتا ہے اور ضروری قوانین بنائے جاتے ہیں۔ بحث و مباحثہ کے دوران حکمراں جماعت یا اتحاد کے اراکین، اپوزیشن کو ہدف تنقید بناتے ہیں اور اپوزیشن کے اراکین حکمراں جماعت یا اتحاد کو۔ اِس دوران لفظی جھڑپیں بھی ہوتی ہیں جن میں غیر شائستہ الفاظ بھی در آتے ہیں۔ ہم، بطور اُصول، اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ غیر شائستہ الفاظ کا استعمال ہرگز نہ ہو کیونکہ سخت سے سخت تنقید مقصود ہو تو وہ بھی شائستہ الفاظ میں ممکن ہے۔ پارلیمانی قدروں کے زوال سے پہلے یہی روایت تھی۔ اراکین پارلیمان، تنقیدی نقطۂ نظر سے بڑی سے بڑی بات نہایت عمدگی کے ساتھ یا نہایت حسین پیرائے میں کہہ گزرتے تھے اور جو ہدف بنتا تھا اس کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی تھی۔ تسلیم کہ چند روز قبل جاری شدہ ’’غیر پارلیمانی الفاظ‘‘ کا اعلامیہ نیا نہیں بلکہ پارلیمنٹ اور قانون ساز اسمبلیوں کا روایتی اقدام ہے مگر اس مرتبہ جن الفاظ کو ناپسندیدہ قرار دیا گیا اور اس تنبیہ کے ساتھ اُنہیں ترک کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے کہ اگر ان کا استعمال ہوا تو اسے پارلیمنٹ کے ریکارڈ سے نکال دیا جائیگا، سراسر زیادتی ہے۔ ان میں کئی الفاظ، محاورے وغیرہ ایسے ہیں جو عام بول چال کا حصہ ہیں اور برسہا برس سے بولے جارہے ہیں۔ نہ ان کا کہنے والا کسی بُرائی سے ان کا استعمال کرتا ہے نہ ہی سننے والا ان سے کبیدہ خاطر ہوتا ہے۔ کیا اراکین پارلیمان، خواہ وہ حکمراں اتحاد سے وابستہ ہوں یا حزب اختلاف سے،ذخیرۂ الفاظ کے اعتبار سے اتنے بے مایہ ہیں کہ بہتر الفاظ کا انتخاب نہیں کرسکتے؟  ہونا تو یہی چاہئے کہ سخت تنقید بھی شائستہ الفاظ میں کی جائے مگر ہماری سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ڈھنڈورہ پیٹنا، گھڑیالی آنسو، ڈراما، بہری سرکار، آئی واش (بکواس، فضول)، کرپٹ (بدعنوان)، لائی (جھوٹ)، اِن کامپیٹنٹ (نا اہل)، اَن ٹرو (ماورائے حقیقت)، مس لیڈ (گمراہ کرنا)، کاوَرڈ (بزدل) اور کریمنل (جرائم پیشہ) میں قابل اعتراض کیا ہے؟ایسے اور بھی کئی الفاظ اَب غیر پارلیمانی الفاظ کی فہرست میں شامل ہیں۔ لوک سبھا کے اسپیکر اوم برلا نے اپوزیشن کی تنقید کے بعد وضاحت تو کی ہے کہ ان الفاظ اور محاوروں کی ادائیگی پر پابندی نہیں ہے مگر انہیں ریکارڈ سے حذف کردیا جائیگا۔ مگر یہ وضاحت بھی سمجھ میں نہیں آتی۔ ریکارڈ سے حذف کردینا ایسا ہی ہے جیسے کسی بامعنی سطر کے کلیدی الفاظ کااُڑ جانا۔ اگر پارلیمانی اجلاس کا موضوع ہی بدعنوانی ہو تو بدعنوان افسران یا افراد کو کیا کہا جائیگا؟ ’’ایماندار نہیں ہیں‘‘ کہنے سے مفہوم ادا نہیں ہوسکتا۔ کاش لوک سبھا سکریٹریٹ سے جاری ہونے والے کتابچہ میں اس کی بھی وضاحت کردی جاتی کہ جو لفظ اَب غیر پارلیمانی ہے اُن کا متبادل پارلیمانی لفظ کیا ہوگا! پارلیمنٹ میں شائستگی ازحد ضروری ہے اور تمام اراکین پارلیمان (اور اراکین اسمبلی) پر، جو عوام کے نمائندے ہیں، لازم ہے کہ شائستگی کو بہرقیمت برقرار رکھیں  مگر یہ ’’دستور ِ زباں بندی‘‘ عجب ہے۔ ویسے، پارلیمنٹ میں ہونے والی گفتگو کا معیار صرف الفاظ سے قائم نہیں رہتا، اس کیلئے بلندیٔ فکر، موضوع پر قدرت اور ناقابل تردید و انکار دلائل بھی ازحد ضروری ہیں لیکن یہ کہتے ہوئے افسوس ہوتا ہے کہ اس جانب کسی کی توجہ نہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے بجائے ایک دوسرے کو قائل کرنا (اور قائل ہونا) بھی پارلیمنٹ کے وقار کیلئے ضروری ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK