Inquilab Logo Happiest Places to Work

قمری سال کی فضیلت و اہمیت

Updated: July 21, 2023, 2:20 PM IST | Mufti Nadeem Ahmed Ansari | Mumbai

زندہ قوم کے لئے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے،اسی لئے زمانۂ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی جس سے وہ کام لیا کرتے تھے اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے۔

One should not be ignorant of the AD date, but one should not be ignorant of the lunar calendar either
عیسوی تاریخ سے بیر نہیں، لیکن قمری تقویم سے لاعلمی بھی نہیں ہونی چاہئے

زندہ قوم کے لئے سال و تاریخ کا اہتمام نہایت ضروری ہے،اسی لئے زمانۂ قدیم سے اکثر اقوام کے پاس اپنی اپنی تاریخ تھی جس سے وہ کام لیا کرتے تھے اور یہ لوگ بعض مشہور واقعات سے تاریخ مقرر کیا کرتے تھے اور بعض لوگ بادشاہوں کی بادشاہت کے عروج وزوال سے تاریخ مقرر کرتے تھے۔ یہود نے بیت المقدس کی ویرانی کے واقعے سے تاریخ مقرر کی اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ ؑکے دنیا سے جانے کے بعد سے تاریخ بنائی، اسی طرح عرب کے لوگوں نے واقعہ ٔ  فیل سے تاریخ مقرر کی، جس کا واقعہ یہ ہے کہ ابرہہ، شاہِ یمن نے کعبۃاللہ کو ڈھانے کے لئے کوہ پیکر ہاتھیوں کے ذریعے کوشش کی تھی، مگر اللہ کی قدرت کہ اس کی بے ایمانی وکعبے کی (شان میں) گستاخی کے نتیجے میں وہ خود ابابیل نامی پرندوں کے ذریعے ہلاک کردیا گیا، عربوں نے اسی واقعے سے تاریخ مقرر کر لی۔ [نفائس الفقہ]
ہجری سال کا آغاز
 اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے سال کے بارہ مہینے بنائے اور ان کے متعلق ارشاد فرمایا:’’بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب (یعنی نوشتۂ قدرت) میں بارہ مہینے (لکھی) ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین (کے نظام) کو پیدا فرمایا تھا ان میں سے چار مہینے (رجب، ذو القعدہ، ذو الحجہ اور محرم) حرمت والے ہیں۔ ‘‘ (التوبہ:۳۶)
س آیت سے سال کے بارہ مہینے ہونا تو معلوم ہو گیا، لیکن ان میں کس مہینے سے سال کی ابتدا ءہوگی، اس طرح کی کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔ اس مسئلے کے حل کے لئے جب تاریخ کے دریچے سے جھانکنے کی کوشش کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں سنہ ہجری کا استعمال حضرت عمر فاروقؓکی خلافت کے بعدجاری ہوا۔ جمعرات ۳۰؍ جمادی الثانیہ۱۷؍ہجری کو حضرت علی مرتضیٰؓ کے مشورے سے سنہ کا شمار واقعۂ ہجرتِ نبویہ سے کیا گیا اور حضرت عثمان ذی النورینؓکے مشورے سے محرم کو اولین شہور مقرر کیا گیا۔ 
قمری تقویم اور اس کے فوائد
 ہجری سنہ کا دوسرے مروجہ سنین سے تقابل کریں تو یہ سنہ بہت سی باتوں میں دوسروں سے منفرد وممتاز نظر آتا ہے۔ ہجری سن کی ابتداء چاند کے اعتبار سے کی گئی اور اسلامی مہینوں کا تعلق چاند سے جوڑا گیا، تاکہ چاند کو دیکھ کر ہر علاقے کے لوگ،خواہ پہاڑوں میں رہتے ہوں یا جنگلوں میں، شہروں میں بستے ہوں یا دیہاتوں میں، نیز دور دراز جزیروں میں رہنے والے حضرات بھی چاند دیکھ کر  اپنے معاملات بہ آسانی طے کرسکیں اور انہیں کسی طرح کی کوئی مشکل درپیش نہ ہو۔ اس لئے کہ نہ اس میں کسی کا پڑھا لکھا ہونا ضروری ہے نہ دیگر کسی مادّی سبب کا یہاں احتیاج ہے۔اسلام کی اعلیٰ خصوصیات میں سے ایک خصوصیت مساوات ہے اور ایک خصوصیت ہمہ گیری بھی ہے، اسلام نے ان خصائص کی حصانت وحمایت میں یہ پسند فرمایا کہ اسلامی مہینے ادلتے بدلتے موسم میں آیا کریں۔ ذرا اسلام کے رکن چہارم، ماہِ رمضان کے روزوں پر غور کرو کہ اگر اسلام میں شمسی مہینہ مقرر فرمادیا جاتا تو نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کیلئے آسانی میں اور نصف دنیا کے مسلمان ہمیشہ کے لئے تنگی وسختی میں پڑ جاتے، پس اسلام کی مساواتِ جہاں گیری کا اقتضا ہی یہ تھا کہ اسلامی سال قمری حساب پر ہو۔ (رحمۃ للعالمینؐ)
قمری حساب کی حفاظت
اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:’’(وہی) صبح (کی روشنی) کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے (ربّ) کا مقررہ اندازہ ہے۔‘‘ (سورہ الانعام:۹۶)
حسبان‘ بالضم مصدر ہے، جو حساب کرنے اور شمار کرنے کے معنی میں آتا ہے، اس کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آفتاب و ماہتاب کے طلوع و غروب اور ان کی رفتار کو ایک خاص حساب سے رکھا ہے جس کے ذریعے انسان سالوں، مہینوں، دنوں اور گھنٹوں کا بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں کا حساب بہ آسانی لگا سکتا ہے۔ یہ اللہ جلّ شانہٗ ہی کی قدرتِ قاہرہ کا عمل ہے کہ ان عظیم الشان نورانی کُروں اور ان کی حرکات کو ایسے مستحکم اور مضبوط انداز سے رکھا کہ ہزاروں سال گزر جانے پر بھی ان میں کبھی ایک منٹ یا ایک سیکنڈ کا فرق نہیں آتا نہ  ان کی مشینری کو کسی ورک شاپ کی ضرورت پڑتی ہے:
’’نہ تو سورج کی مجال ہے کہ چاند کو پکڑ لے اور نہ رات دن سے آگے بڑھ کر پہلے آسکتی ہے، اور سب ایک ایک دائرے میں تیر رہے ہیں۔ ‘‘ (سورہ یٰسین:۴۰)  
  قرآنِ کریم کے اس ارشاد نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا کہ سالوں اور مہینوں کا حساب شمسی بھی ہو سکتا ہے اور قمری بھی، دونوں ہی اللہ جل شانہ کے انعامات ہیں، یہ دوسری بات ہے کہ عام اَن پڑھ دنیا کی سہولت اور ان کو حساب کتاب کی اُلجھن سے بچانے کے لئے اسلامی احکام میں قمری سن و سال استعمال کیے گئے اور چوں کہ اسلامی تاریخ اور اسلامی احکام، سب کا مدار قمری حساب پر ہےاس لئے امت پر فرض ہے کہ وہ اس حساب کو قائم اور باقی رکھے، دوسرے حساباتِ شمسی وغیرہ اگر کسی ضرورت سے اختیار کیے جائیں تو کوئی گناہ نہیں، لیکن قمری حساب کو بالکل نظر انداز اور محو کر دینا گناہِ عظیم ہے، جس سے انسان کو یہ بھی خبر نہ رہے کہ رمضان کب آئے گا اور ذی الحجہ اور محرم کب؟(معارف القرآن)
  چوں کہ احکامِ شریعت کا مدار حسابِ قمری پر ہے، اس لئے اس کی حفاظت فرض علی الکفایہ ہے۔(بیان القرآن)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK