Inquilab Logo Happiest Places to Work

نبی کریمﷺ کے سفرمعراج کی حکمت و فضیلت اور مقاصد و اہداف

Updated: February 25, 2022, 4:50 PM IST | Aisha Batool

ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت ِ حال اللہ اور اس کے رسول ﷺہی بہتر جانتے ہیں۔ ان حکمتوں سے محبوب کی دلجوئی سے لے کر عظمت ِمصطفیٰ ؐتک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر وا ہوتے ہیں

Picture.Picture:INN
مسجدِ اقصیٰ جہاں شب ِ معراج آپؐ نے انبیائے کرام ؑ کی امامت فرمائی تھی نیز یہیں سے آپؐ آسمان کی طرف تشریف لے گئے تھے۔ تصویر: آئی این این

عربی لغت میں ’’معراج‘‘ ایک وسیلہ ہے جس کی مدد سے بلندی کی طرف چڑھا جائے اسی لحاظ سے سیڑھی کو بھی ’’معراج‘‘ کہا جاتا ہے۔(ابن منظور، لسان العرب، ج ۲)روایات اور تفسیر میں حضور ﷺ  کا مکہ سے بیت المقدس اور بیت المقدس سے آسمان کی طرف تشریف لے جانے اور پھر اپنے وطن لوٹ آنے کے جسمانی سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں سورۃ اسراء کی پہلی آیت میں اس کی وضاحت کی گئی:’’وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجد ِ حرام سے (اس) مسجد ِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بے شک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے۔‘‘آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مسافت خدا کی نشانیاں دیکھنے کا پیش خیمہ بنی ۔مذکورہ آیت میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلے مرحلے کا ذکر کیا گیا ہے جبکہ اس سفر کے دوسرے مرحلے کی عکاسی سورہ نجم کی ابتدائی آیات میں اس طرح کی گئی:’’قسم ہے روشن ستارے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جب وہ (چشم زدن میں شبِ معراج اوپر جا کر) نیچے اترے۔ تمہارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے ۔‘‘ (النجم:۲۔۱)
معراج النبی ﷺکی حکمتیں
ارباب فکر نے سفر معراج کی کچھ حکمتیں بیان فرمائی ہیں مگر حقیقت حال اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ان حکمتوں سے محبوب  کی دلجوئی سے لے کر عظمت ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک منشائے ایزدی کے کئی پہلو انسانی زندگی پر وا  ہوتے ہیں۔  پہلی حکمت: معراج کی پہلی حکمت یہ ہے کہ اعلان نبوت کے بعد کفار مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ معاشرتی سطح پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور آپ ؐ  کے خاندان کا بائیکاٹ کردیا جس کی بناء پر آپ ﷺ کو انتہائی کرب سے گزرنا پڑا۔ بائیکاٹ کے بعد آپؐکے چچا اور آپ ؐ کی محبوب بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا خالق حقیقی سے جا ملیں چنانچہ ایسے حالات میں اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ اپنے پاس بلاکر سارے غم، دکھ اور پریشانیاں دور کردی جائیں اور اپنا دیدار کروایا جائے۔ جب محبوب حقیقی کا چہرہ سامنے ہوگا تو سارے غم و تکالیف اور مصیبتیں کافور ہوجائیں گی۔ گویا اللہ رب العزت معراج پر بلاکر اپنے پیارے محبوب علیہ الصلوۃ والسلام کی دلجوئی کرنا چاہتے تھے کہ اگرچہ دنیا میں یہ کافر تمہیں تنگ کرتے ہیں اور مصائب و آلام اور آزمائشیں آپ ؐ پر آتی ہیں مگر آپ ؐ گھبرایا نہ کریں کیونکہ ہماری پیار بھری آنکھیں آپ کو تکتی رہتی ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اور (اے حبیبِ مکرّم! اِن کی باتوں سے غمزدہ نہ ہوں) آپ اپنے رب کے حکم کی خاطر صبر جاری رکھیے۔ بے شک آپ (ہر وقت) ہماری آنکھوں کے سامنے (رہتے) ہیں۔‘‘ 
(الطور:۴۸)دوسری حکمت: عرش پر بلاکر اللہ رب العزت نے اپنے حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا دیدار کرایا اور امت کی بخشش کی نوید سنائی اور ۵۰؍ نمازوں کا تحفہ بھی شب معراج کو عطا کیا اور فرمایا: ’’آپ کی  امت دن میںپانچ نمازیں ادا کرے گی مگر اس کو ثواب پچاس نمازوں کا عطا کروں گا۔‘‘  تیسری حکمت: معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روز بہت سے واقعات پیش آئے جن کی بشارت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ عیسائی پیشواؤں نے بھی دی جن کا تذکرہ درج ذیل ہے:
بیت المقدس میں امامت انبیاء علیہم السلام
عیسائی پیشوا جو مسجد اقصیٰ کا بہت بڑا پادری تھا اس نے کہا : میری عادت تھی کہ میں ہر روز رات کو سونے سے پہلے مسجد کے تمام دروازے بند کردیا کرتا تھا۔ اس رات بھی میں نے تمام دروازے بند کردیئے لیکن انتہائی کوشش کے باوجود ایک دروازہ بند نہ ہوسکا۔ میں نے اپنے کارندوں اور تمام حاضرین سے مدد لی۔ سب نے پورا زور لگایا مگر دروازہ نہ ہلا۔ بالآخر میں نے ترکھانوں کو بلایا تو انہوں نے اسے دیکھ کر کہا کہ اوپر کی عمارت نیچے آگئی ہے۔ اب رات میں کچھ نہیں ہوسکتا۔ صبح دیکھیں گے۔ لہٰذا ہم دروازے کے دونوں کواڑ کھلے چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ صبح ہوتے ہی میں وہاں آیا تو دیکھا کہ دروازہ بالکل ٹھیک ہے۔ مسجد کے پتھر پر سوراخ ہے اور سواری کے جانور باندھنے کا نشان اس میں نظر آرہا ہے۔ یہ منظر دیکھ کر میں سمجھا کہ آج رات انتہائی کوشش کے باوجود دروازہ کا بند نہ ہونا اور پتھر میں سوراخ کا پایا جانا اس سوراخ میں جانور باندھنے کا نشان موجود ہونا حکمت سے خالی نہیں۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آج رات اس دروازے کا کھلا رہنا صرف نبی معظم ﷺکے لئے تھا ،یقیناً  اس نبی معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری اس مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھی۔ (تفسیر ابن کثیر، جلد۳) 
معراج النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادتیں
    حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شب معراج کے واقعات کا تذکرہ کیا تو کفار مکہ نے مختلف سوالات کرکے شہادتیں طلب کیں۔ چنانچہ آپﷺ  نے کفار کے سامنے اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ میں فلاں بن فلاں کے قافلہ پر بھی گزرا۔ ان کا ایک اونٹ میری وجہ سے بدک کر بھاگا اور وہ دونوں سوار گر پڑے۔ ان میں فلاں شخص کا ہاتھ ٹوٹ گیا جب وہ آئیں تو ان سے دریافت کرلینا۔  کفار مکہ نے حضور ﷺ سے ایک قافلہ کی بابت پوچھا۔ آپﷺ نے فرمایا: میں اس قافلہ پر مقام تنعیم پر گزرا ہوں، کفار قریش نے کہا کہ وہ قافلہ کیا چیزیں لاد کر لے جارہا تھا۔ اس کی ہیئت کیا ہے اور ان میں کون کون لوگ ہیں؟ حضور ﷺ نے اس قافلہ کی ہیئت کی وضاحت فرمائی کہ اس قافلہ کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے اس پر دھاری دار دو بوریاں لدی ہوئی ہیں اور سورج نکلتے ہی وہ قافلہ پہنچ جائے گا۔  کفار کدیٰ پہاڑ پر آبیٹھے اور انتظار کرنے لگے کہ سورج نکلتے ہی ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب کریں گے۔ ان میں سے ایک آدمی بولا! خدا کی قسم! سورج نکل آیا۔ دوسری طرف ان کے ہی ایک آدمی نے کہا: وہ دیکھو قافلہ بھی آگیا۔ اس کے آگے بھورے رنگ کا اونٹ ہے۔ لہٰذا بالکل اسی طرح تھا جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا ۔ اس کے باوجود کفار ایمان نہ لائے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK