دنیا نہ تو ترک اور نفرت کے قابل کوئی چیز ہے اور نہ ہی ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ بن جائے ۔ انسان اس میں ایک مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر تکلیف کو اسلئے برداشت کرتا ہے کہ امتحان میں کامیابی ہو
EPAPER
Updated: February 10, 2023, 12:49 PM IST | Professor Dr Muhammad Aslam Nazar | Mumbai
دنیا نہ تو ترک اور نفرت کے قابل کوئی چیز ہے اور نہ ہی ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ بن جائے ۔ انسان اس میں ایک مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر تکلیف کو اسلئے برداشت کرتا ہے کہ امتحان میں کامیابی ہو
مسلمان کا یہ ایمان ہے کہ اللہ رب العزت نے صرف اسلام کو ہی دین کا درجہ دیا ہے۔ فرمان خداوندی ہے:’’ بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔‘‘ دین اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کو اللہ تعالیٰ شرف قبولیت نہیں بخشے گا۔ تمام انبیاء دین اسلام لے کر آئے اور اسکی تبلیغ کرتے رہے۔
اسلامی تہذیب کی خصوصیات
ایک شخص جب دین اسلام پر ایمان لے آتا ہے تو اس کا طرز فکر بھی لازماً بدل جاتا ہے۔ وہ اس کائنات، ارض و سماء کی تخلیق ومقصد، اس کے نظام شب و روز، دنیوی زندگی اور آخرت کی غرض و غایت اور باقی ہر چیز کے بارے میں ایک مخصوص سوچ اور نظریہ قائم کر لیتا ہے پھر یہی نظریات اس کی پوری عملی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
تہذیب اسلام کے عوامل
تہذیب اسلام کے عوامل پانچ عقائد ہیں جو اجزائے ایمان کہلاتے ہیں۔ یہ وہ بنیادی تعلیم ہے جو ہر نبی نے اپنے زمانے کے لوگوںکو دی ہے۔ پہلا عقیدہ اللہ پر ایمان ہے، دوسرا عقیدہ فرشتوں پر ایمان ہے، تیسر اعقیدہ تمام آسمانی کتب کو ماننا ہے، چوتھا عقیدہ تمام انبیا ءؑ پر ایمان لانا ہے، لیکن پیروی صرف نبی آخر الزماںؐ کی کرنی ہے ، اور پانچواں عقیدہ آخرت پر ایمان ہےکہ ایک دن دنیا ختم ہو جائے گی اور دنیوی اعمال کے مطابق جزا یا سزا ملے گی اور وہ نئی زندگی ہمیشگی کی ہوگی۔
تہذیب اسلامی کے عناصر
تہذیب اسلامی کے عناصر پانچ ارکان ہیں جن پر ایمان انسان کو نیک اور قابل اعتماد مسلمان بنا دیتا ہے۔ پہلا رکن کلمه ٔ طیبہ ہے جو حق و باطل میں یکسر خط امتیاز کھینچ دیتا ہے، دوسرا رکن نماز ہے کہ دن بھر میں پانچ وقت کی نماز انسان کو خدا کی یاد سے معمور کرتی ہے، تیسرا رکن روزہ ہے جس کے ذریعے ضبط نفس اور پرہیز گاری حاصل ہوتی ہے، چوتھا رکن زکوٰۃ ہے کہ اس کی ادائیگی سے معاشرے سے غربت اور افلاس کا خاتمہ ہو جاتا ہے، اور پانچواں رکن حج ہے جس کی ادائیگی سے عالمگیر اخوتِ اسلامی اور مقصدِ حیات کا یقین راسخ ہوتا ہے اور بے شمار عالمی مسائل حل ہوتے ہیں۔
عالمگیر اخوت اسلامی
اسلامی تہذیب کی یہ خصوصیت مسلم معاشرے کو عالمگیر وسعت بخشتی ہے۔ ایک مسلمان ہزاروں میل دور دوسرے ملک کے مسلمانوں کو بھی اپنا بھائی سمجھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دنیابھر کے مسلمانوں کو ایک برادری میں منسلک کر دیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’بات یہی ہے کہ اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔‘‘ (الحجرات:۱۰) حدیث نبویؐ میں فرمایا گیا ’’ بے شک تم میں ہر ایک اپنے بھائی کے لئے بہ مانند آئینہ ہے‘‘ یعنی جس طرح آئینہ اپنے سامنے آنے والے کی اصلاح کرتا ہے اُسی طرح تمہیں ایک دوسرے کی اصلاح کرنی چاہئے۔
دنیوی زندگی امتحان و آزمائش
مسلمان یہ جانتے ہیں کہ دنیوی زندگی محض امتحان اور آزمائش ہے۔ انسان یہاں ایک مقصد کیلئے بھیجا گیا ہے اور اللہ تعالی کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر نقصان اور تکلیف کو اس لئے برداشت کرنا ہے کہ امتحان میں کامیابی ہو اور آخرت کی زندگی میں لازوال راحتیں ملیں۔ انسان کی اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ ارشاد خد اوندی ہے:
’’اور (اے لوگو!) یہ دنیا کی زندگی کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں ہے، اور حقیقت میں آخرت کا گھر ہی (صحیح) زندگی ہے۔ کاش! وہ لوگ (یہ راز) جانتے ہوتے۔‘‘ (العنکبوت:۶۴)
آخرت کی زندگی دائمی زندگی ہوگی چنانچہ عقلمندی اسی میں ہے کہ اُس اخروی زندگی کیلئے اِس دنیوی زندگی میں نیک عمل کئے جائیں۔ ظاہر ہے اس کو اپنا کر ایک مسلمان ناکامیوں پر دل برداشتہ نہیں ہوتا بلکہ تکلیفوں میں بھی سکون قلب کی نعمت سے سرفراز ہوتا ہے۔ مسلمان کا یقین ہے کہ دنیوی زندگی میں جس قدر تکالیف ہوں گی اُخر وی زندگی میں اس سے کہیں زیادہ راحتیں میسر آئیں گی۔ حدیث نبوی ؐہے’’دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے اور کافر کیلئے جنت۔‘‘
ایمان بالآ خرت
دنیوی زندگی کے اسلامی تصور کو کماحقہ واضح کرنے کے ضمن میں ایمان بالآخرت کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آخرت پر ایمان لانا اسلامی عقائد کی آخری کڑی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق آخرت کی زندگی کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اسی عقیدے پر تمام اعمال کا دارو مدار ہے۔ اگر اعمال کی بازپرس اور جو ابدہی کا خوف اور جزا وسزا کا ڈر نہ ہو تو دنیاوی قوانین کے باوجود انسان وحشی جانوروں اور درندوں سے بڑھ جائے۔ صرف جزا و سزا کا عقیدہ ہی تو ہے جو انسانوں کو جلوت و خلوت میں ان کی ذمہ داری محسوس کراتا ہے اس لئے آخرت پر ایمان رکھے بغیر انسانیت کی بہبود اور کامیابی ناممکن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مرد مومن کی شان یہ بتائی کہ وہ یوم آخرت اور آخرت کی زندگی پر ایمان ویقین رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک کے اندر اس حوالے سے متعدد مقامات پر ارشاد فرمایا:
’’وہ آخرت پر بھی (کامل) یقین رکھتے ہیں۔‘‘ (البقرہ:۴)
’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘ (البقرہ:۲۰۱)
’’اور جو لوگ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اس پر وہی ایمان لاتے ہیں اور وہی لوگ اپنی نماز کی پوری حفاظت کرتے ہیں۔‘‘ (الانعام:۹۲)
’’جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔‘‘ (التوبہ:۴۴)
مختصر یہ کہ اسلام میں آخرت کی زندگی کو بڑا اہم قرار دیا گیا ہے۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر خدا پر ایمان لانے کے ساتھ آخرت پر ایمان لانے کا ذکر اس عقیدے کی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ جبکہ دنیوی زندگی کا اسلامی تصور آخرت کی زندگی کی اہمیت کے تناظر میں بآسانی واضح کیا جاسکتا ہے۔
آخرت سے متعلق اسلامی نظریہ
آخرت سے متعلق اسلامی نظریہ یہ ہے کہ ایک دن ایسا آنے والا ہے جب یہ سارا نظام کائنات اور تمام کارخانۂ قدرت درہم برہم ہو جائے گا، دنیا کی ہر چیز ختم کردی جائے گی، پہاڑ اڑا دیئے جائیں گے، چاند، سورج ، ستاروں سے روشنی چھین لی جائے گی، آسمان پھٹ جائیں گے، غرض یہ کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز مٹادی جائے گی۔ اس سانحہ کو ساعت اور قیامت کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد گرامی ہے:
’’اور بیشک قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ۔‘‘ (الحج:۷)
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو یہ بتایا کہ مرنے کے بعد قبر کا عذاب و ثواب برحق ہے۔ نیک لوگ قبر میں راحت اور چین محسوس کرتے ہیں اور بد کار اور گنہگار انسانوں کو قبر میں عذاب دیا جاتا ہے۔ اس عقیدے کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کے بغیر باقی تمام عقائد بے معنی ہو جاتے ہیں ۔ ظاہر ہے جب تک یہ ڈر نہ ہو کہ مر کر بھی زندہ ہونا ہے اور اعمال کا حساب لیا جائے گا،تب تک نیکی کرنے کی آخر کیا فکر ہوگی؟ اور اگر کوئی شخص یہ ایمان رکھتا ہو کہ زندگی جیسے مرضی گزار لو، کوئی پوچھنے والا نہیں تو وہ شخص ظلم و ستم سے کب باز آنے والا ہے۔ اس کے برعکس جو آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ آخرت کی زندگی کے لئے ہر ممکن کوشش کرے گا۔
خلاصہ
دنیوی زندگی دارالعمل ہے اور آخرت کی زندگی دار الجزا ہے۔ دنیا نہ تو ترک اور نفرت کے قابل کوئی چیز ہے اور نہ ہی ایسی چیز ہے کہ انسان اس کا فریفتہ بن جائے ۔ یہ زندگی امتحان اور آزمائش کی زندگی ہے۔ انسان اس میں ایک مقصد کے لئے بھیجا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر چلتے ہوئے ہر نقصان اور تکلیف کو اس لئے برداشت کرتا ہے کہ امتحان میں کامیابی ہو اور آخرت کی زندگی میں راحتیں ملیں۔ دونوں انتہائی تصوراتِ افراط اور تفریط کو باطل قرار دیا گیا ہے۔ انسان کے غرور اور تکبر کی بیخ کنی کے علاوہ انسانی عظمت اور وقار کو بھی حسین انداز میں آشکار کیا گیا ہے۔ دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دے کر یہ واضح کیا گیا ہے کہ انسان کو اسی کوشش میں ہمہ تن مصروف رہنا چاہئے کہ دنیا میں وہ جتنی مدت زندہ ہے اس کا ہر لمحہ اس کھیتی کے بونے اور جو تنے میں صرف کردے اور زیادہ سے زیادہ تخم ریزی کرے تاکہ بعد کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ فصل کاٹنے کا موقع ملے۔