Inquilab Logo

رسول اکرم ﷺکے دعوتی خطوط کا اسلوب نگارش نہایت سادہ اورعام فہم ہے

Updated: January 13, 2023, 11:28 AM IST | Maulana Nadeem Al-Wajdi | Mumbai

سیرتِ نبی ٔ کریم ؐ کی اس خصوصی سیریز میں سلاطین عالم کے نام لکھے گئے آپؐ کے خطوط کا تذکرہ جاری ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ آپؐ کے مکتوبات میں دعوت ِ اسلام مرکزی موضوع ہے، خطوط نہایت مختصر مگر دلنشین ہیں

Religion was spread in other countries of the world through the Prophet`s letters, so the first wish of every Muslim is to visit the Holy Mosque of the Prophet.
مکتوبات ِ نبویؐ کے ذریعے بھی دنیا کے دیگر ممالک میں دین کی اشاعت ہوئی ، چنانچہ ہر مسلمان کی اولین خواہش مسجدِ نبویؐ کی زیارت ِ مقدسہ بھی ہوتی ہے


(گزشتہ سے پیوستہ) حضرت عمروبن العاصؓ کہتے ہیں کہ میں نے مختلف اموال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعین کردہ صدقات کی تفصیل عباد کو بتلائی۔ جب اونٹ کا نمبر آیا تو کہنے لگا کہ اے عمرو! کیا ان مویشیوں میں بھی صدقہ لیا جائے گا جو خود ہی چرلیتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں! کہنے لگا: خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ میری قوم ملک کی وسعت اور افراد کی کثرت کے باوجود اس کو مان لے گی۔
 حضرت عمرو بن العاصؓ مزید فرماتے ہیں کہ میں عباد کے محل میں کئی روز رہا، ہمارے اور اس کے درمیان جو بات چیت ہوتی وہ جاکر اپنے بھائی کو بتلایا کرتا تھا۔ ایک دن بادشاہ نے مجھے اپنے محل میں بلایا، میں گیا، دروازے پر چوکیداروں نے مجھے پکڑ لیا، بادشاہ کے اشارے پر مجھے چھوڑ دیا گیا۔  اندر جاکر میں نے بیٹھنا چاہا لیکن بادشاہ کے نوکروں نے مجھے بیٹھنے نہیں دیا، میں نے بادشاہ کی طرف دیکھا تو اس نے کہا: تم اپنی بات کہو، میں نے سر بہ مہر خط اس کی طرف بڑھا دیا، اس نے خط پڑھا اور پڑھ کر اپنے بھائی کو دے دیا، بھائی نے بھی وہ خط پڑھا، میں نے دیکھا کہ اس کا بھائی زیادہ نرم دل ہے۔
بادشاہ نے مجھ سے پوچھا: قریش نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا؟ میں نے کہا سب ان کے اطاعت گزار ہوچکے ہیں، اور یہ اطاعت گزاری  دین سے محبت کی بنا پر ہے۔ بادشاہ نے پوچھا: ان کے ساتھ کون لوگ ہیں، میں نے کہا، بہت لوگ ہیں، انہوں نے اسلام کو بہ رضا ورغبت قبول کیا ہے اور اسلام کو تمام دوسری چیزوں پر ترجیح دی ہے۔ اللہ نے انہیں ہدایت دی، ان کی عقل نے بھی رہ نمائی کی، وہ یہ بات سمجھ گئے ہیں کہ پہلے وہ گمراہ تھے۔ اب اس علاقے میں تمہارے سوا کوئی بادشاہ نہیں رہا، سب نے اسلام قبول کرلیا ہے، اگر تم نے اسلام قبول نہیں کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی نہیں کی تو ان کے سوار تمہیں روند ڈالیں گے، تمہارے سر سبز وشاداب کھیتوں کا صفایا کردیں گے، اس لئے میرا مشورہ ہے کہ تم بھی اسلام قبول کرلو، سلامت رہوگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں تمہاری قوم کا سردار بنادیں گے، نہ تم پر سواروں کی فوج حملہ کرے گی اور نہ پیادوں کی فوج یہاں آئے گی۔
حضرت عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ میری یہ باتیں سن کر بادشاہ نے کہا: اے عمرو! آج جاؤ، کل پھر آنا۔ اس کے بعد میں عباد کے پاس آگیا، اس نے کہا: اے عمرو !اگر بھائی پر بادشاہت کی ہوس غالب نہ آئی تو وہ اسلام قبول کرلے گا۔ اگلے دن میں پھر بادشاہ کے پاس گیا، اس نے اندر آنے کی اجازت نہیں دی، میں نے عباد کو بتلایا کہ آج میں بادشاہ تک نہیں پہنچ سکا، عباد نے مجھے اس کے محل میں پہنچا دیا۔ بادشاہ نے مجھ سے کہا کہ میں نے تمہاری باتوں پر غور کیا ہے، اگر میں بادشاہت ایسے لوگوں کے حوالے کردوں جس کے سوار ابھی یہاں پہنچے بھی نہیں ہیں، اس صورت میں لوگ مجھے کمزور اور بزدل کہیں گے، اور اگر اس کے سوار یہاں پہنچ گئے تو ایسی گھمسان کی جنگ ہوگی کہ ماضی میں ایسی کسی جنگ سے سابقہ نہ پڑا ہوگا۔
میں نے کہا: ٹھیک ہے، میں کل واپس جارہا ہوں، جب اسے یقین ہوگیا کہ میں اب واپس جانے والا ہوں تب اس نے اپنے بھائی سے تنہائی میں بات چیت کی اور یہ کہا کہ عرب کے پیغمبر جن بادشاہوں پر غالب آچکے ہیں ان کے مقابلے میں ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے، انہوں نے جس کو بھی پیغام بھیجا ہے اس نے وہ پیغام قبول کیا ہے، اس گفتگو کے بعد ان دونوں بھائیوں نے مجھے صبح سویرے بلوا بھیجا اور اسلام قبول کرلیا، ان کے ساتھ بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے، جو مسلمان نہیں ہوئے ان پر جزیہ قائم کردیا گیا، ان لوگوں نے صدقات وصول کرنے اور لوگوں کے جھگڑے نمٹانے کے لئے مجھے اختیار دے دیا، چناں چہ میں وہاں کے مال داروں سے زکوٰۃ وصول کرتا رہا اور غریبوں میں تقسیم کرتا رہا، اسی دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کے دنیا سے پردہ فرمانے کی خبر پہنچی تب میں وہاں سے مدینے کی جانب روانہ ہوا۔ (تاریخ الطبری: ۲/۲۶، زاد المعاد: ۴/۶۸، الروض الانف: ۴/۳۹۰)
اس خط کے متعلق مؤرخین کی رائے یہ ہے اور حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایت کے سیاق سے بھی پتہ چلتا ہے کہ یہ خط فتح مکہ کے بعد روانہ کیا گیا، کیونکہ اس میں حضرت عمرو بن العاصؓ بادشاہ کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ تمام قریش  یاتو اپنی مرضی سے یا جنگ کے خوف سے مسلمان ہوچکے ہیں۔ 
خلاصۂ کلام
ہم نے سات مکتوبات نبوی کا متن، ترجمہ اور ان کے بارے میں دوسری ضروری تفصیلات پیش کی ہیں ان میں سے چھ مکتوبات وہ ہیں جن کے متن اصل حالت میں دریافت ہوچکے ہیں اورو ہ مختلف ملکوں کے میوزیم وغیرہ میں محفوظ کردیئے گئے ہیں، یہ چھ خطوط ان لوگوں کے نام لکھے گئے تھے (۱) نجاشی شاہ حبشہ (۲) قیصر روم ہرقل (۳)شاہ مصر واسکندریہ مقوقس (۴) شہنشاہ ایران خسرو پرویز کسری (۵) شاہان عمان جیفر وعباد  (۶)گورنر  بحرین منذر بن سادی ۔ ان میں جیفر و عباد کے نام جو خط لکھا گیا وہ فتح خیبر کے بعد لکھا گیا ہے، باقی تمام خطوط صلح حدیبیہ کے بعد فتح خیبر سے پہلے لکھے گئے ہیں، اس لئے فتح خیبر کے ذکر سے پہلے ان کا تذکرہ مناسب سمجھا گیا، رسولؐ اللہ  نے تقریباً تین سو دعوتی خطوط تحریر فرمائے، ان میں سے ایک سو انتالیس خطوط کے متن محفوظ ہیں، باقی کے متن تو محفوظ نہیں البتہ راویوں نے ان کا مفہوم نقل کردیا ہے اور وہ بھی حدیث، سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔ یہاں تمام خطوط نقل نہیں کئے جاسکتے البتہ کچھ قبائل کے اسماء بہ حروف تہجی سید محبوب رضوی ؒکے’مکتوبات نبویؐ ‘ سے نقل کئے جاتے ہیں۔
(الف)  اَبُو شدّاد ۔ ابو راشد ازدی۔ ابو رہیمہ۔ ابو نخیلہ۔ ابو العُکَیر قُشَیْری۔ اَبِی الحارِث۔ ابی ظُبْیَان۔ احمر بن مُعاویہ۔ اَرْطَات بن کعب نخعی۔ اَرْقَم بن کعب نخعی۔ اَقْرَع بن حَابِس۔ انس بن عامر۔ اَسْقَع بن شُرَیح جَرمی۔ اہلِ جُرش۔ (ب) بنی معاویہ۔ بکر بن وائل۔ بنی جُصَیْل۔ بنی ضِبَّاب۔ بنی جِنَاب۔ بنی قَتَان۔ بنی قُرَہ۔ بنی اَسَد۔ بنی جِفان۔ بنی مَعن۔ بلال بن حارث مُزَنی۔ بنی قشیر۔ (ث) ثمامَہ بن اَثال الحنَفی۔ (ج) جَبَلہ بن اَیْہم غَسَّانِی۔ حُفَیْنہ بن نَہد۔ جُنَادۃ الاَزْدی۔ جابر بن ظالم طائی۔ جمیل بن رِزام العددی۔ جرد بن عمرو العذری۔ (ح) حبیب بن عَمْرو۔ حُرَیث بن حسان شیبانی۔ حارث بن ابی شمِر غسانی۔ حصین بن اوس سُلمی۔ حجدم بن فُضالہ جُہَنی۔ حَضرْمی بن عامر۔ حارِثہ۔ حِصن بن قَطن۔ حُصَین بن نضلہ اسدی۔ حرام بن عوف سُلَمی۔ (خ) خزیمہ بن عاصم عُکلِی۔ خالد بن ہَوذَہ۔ (ذ) ذی الکلاع الاَصفر۔ (ر) راشِد سُلَمی۔ رزین بن انس سُلَمِی۔ رقّاد بن عَمرو۔ ربیعہ بن ذی مرحَب حَضْرَمی۔ ربیع ومطرف وانس۔ رعیۃُ السُحَیْمی۔ رقّاد بن ربیعہ۔ (ز) زَمَل بن عمرو۔ زیاد بن جَہور لَخْمِی۔ زُرَارَہ بن قیس نخعِی۔ زُہَیر بن قِرضم قُضَاعی۔ زہدُ الخیل طائی۔ زیاد بن حارث۔ (س) سَرِیع بن حاکم تمیمی۔ سلمہ بن مالک سُلَمِی۔ سُعَیر بن عَدَّا۔ سعید بن سفیان الرعلی۔ سَمْعَان بن عمرو کلابی۔ سلمان الفارسی۔ (ش) شعیب بن فُزّہ۔ شُرَیح بن حُرَیم۔ شدّاد بن ثُمامہ اوسی۔ شَمع جُہنی۔ (ص) صیفی بن عامر ثَعلْبِی۔ (ض) ضِمَام بن زید الہمدانی۔ ضحاک بن سفیان الضّبانی۔ ضجیع بن عبد اللہ بکائی۔ (ط) طُفَیْلُ الحارثی۔ (ع) عاصم بن حارث۔ عمرو بن مَعْبَد جُہنی۔ عُرَیب عبد کُلَال۔ عُمَیر ذِی مَرّاں۔ عُبادہ بن اَشیب عنزی۔ عمرو بن عبد اللہ۔ عدی بن شَراحیل۔ عبد اللہ بن عکم۔ عَوْسَجہ بن حَرمَلہ جُہنی۔ عامر بن ہلال۔ عباس بن مرداس سُلَمِی۔ عتبہ بن فَرقد سلمی۔ عُقَیل بن کعب۔ عباس بن عبد المطلب۔ عَامِر بن طفیل۔ عِدَّا بن خالد۔ عامر بن اَسْود طائی۔ عُک ذوخیواں ہمدانی۔ (ق) قُرّہ بن عبد اللہ۔ قیس بن عمرو نخعی۔ قیص بن حصین۔ قیس بن مالک ارحبی۔ قیس بن نمط۔ قیس بن یزید۔ قیلہ بنت مخرمہ۔ قبیلۂ بکر بن وائل۔ قبیلۂ حَدَس۔ قتادہ بن اَعْور تمیمی۔ قَتَان بن یزید الحارثی۔ (ک) کیبہ بن ہَوذَہ۔ کرب بن ابرہہ۔ (ل) لاجب السُلَمی۔ (م) مُجَّاعہ بن مُرارہ السُلمی۔ مِرج بن خالد۔ مالک بن نَمَط۔ مَعْدِی کرب بن ابرہہ۔ مالک بن عبید الحسحاس۔ مِکْنَفْ عبد رضا خولانی۔ مُطَّرف المازِنی۔ مسعود بن وائل حَضْرَمی۔ مسلم بن حارث تمیمی۔ مَجدی بن عمَرو۔ مَصْعَب بن عُمَیر۔ مسعود بن رُحَیْلہ اشجَعِی۔ ماعز بن مالک اسلمی۔ معاویہ بن جَروَل۔ معاویہ بن ثور بکائی۔ (ن) نُعمیم بن مَسْعُود اشجَعِی۔ (و) ولید بن جابر طائی۔ وقاص، قمامہ وعبداللہ بن قُحافہ۔ (ہ)ہوذہ بن نُبَیشَہ السُّلمی۔ (ی) یزید بن طفیل الحارثی۔ یزید بن جمل الحارثی۔  یہود بنی عُریض۔ یہود بنی غادیہ۔ 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی خطوط کا اسلوب نگارش نہایت سادہ اور عام فہم ہے، عبارت مختصر اور جامع ہے، غیر ضروری انشا پردازی نہیں ہے، اسی ایجاز واختصار میں ان مکاتیب کی اثر انگیزی اور معنی آفرینی پوشیدہ ہے، آپؐ کے خطبات اور مکتوبات عام طور پر بہت مختصر ہوتے تھے، ان میں لفظ وبیان کی نمائش کے بجائے حقیقت پسندی کا طرز نمایاں ہوتا تھا، اپنی دعوت کو دوسروں تک پہنچانے کا عمل فلسفیانہ موشگافیوں اور منطقی نکتہ آفرینیوںکے بجائے سادہ اور دل نشیں انداز بیان کا زیادہ متقاضی ہوتا ہے، تاکہ جو بات دل سے نکلے دل پر اثر انداز ہو۔
دعوتی خطوط کا آغاز مکتوب نگار اور مکتوب الیہم کے ناموں کی وضاحت سے ہوتا ہے، پھر نام کے ساتھ یہ وضاحت ہے کہ لکھنے والا اللہ کا رسول ہے، اور جس کو لکھا گیا ہے اس کے عہدے اور منصب کی صراحت بھی ہے، نجاشی اور قیصر روم وغیرہ کے خطوط میں رسول کے ساتھ عبد کا اضافہ بھی ہے، کہ یہ دراصل عیسائیوں کے اس عقیدے کی تردید ہے کہ وہ اپنے پیغمبر کو خدا کا درجہ دیتے ہیں، جب کہ رسول صرف رسول ہوتا ہے، خدا نہیں ہوتا، پرویز شنہشاہ فارسی کے نام خط میں اللہ رب العزت کی وحدانیت پر خاص زور دیا گیا ہے، کیوں کہ ان کے یہاں دو خداؤں یزداں اوراہرمن کا تصور موجود تھا، انہیں یہ بتلانے کی ضرورت تھی کہ خدا ایک ہے، اسی طرح بت پرست مشرکین کو بھی ایک خدا کے تصور سے متعارف کرایا گیا ہے، یہود ونصاری کو ان کی کتابوں کے حوالے سے یہ بتلایا گیا ہے کہ میری نبوت کا ذکر تمہاری تورات اور انجیل میں موجود ہے۔
ان خطوط میں کسی طرح کی کوئی دھمکی نہیں ہے، نہ کسی جنگ کا ذکر ہے، بلکہ صاف لفظوں میں تلقین کی گئی ہے کہ ایمان لے آؤ، سلامت رہو گے، اگر مسلمان ہوجاتے ہو تو تمہارا یہ ملک، تمہاری بادشاہت اور شنہشاہیت، اور امارت وحکومت سب باقی رہے گا، اپنے باشندوں کو بھی اسلام قبول کرنے کے لئے کہو، ورنہ ان کے غیر مسلم رہ جانے کا گناہ تمہارے سر پر ہوگا، لیکن رعایا کے لئے اسلام قبول کرنے میں کسی طرح کی کوئی زور زبردستی نہیں ہے، قبول کرلیں تو بہت اچھا، نہ قبول کریں تو وہ تمہارے ملک میں رہیں گے، مگر انہیں جزیہ ادا کرنا ہوگا، ان کی حفاظت کی ذمہ داری تمہاری ہوگی، بس ان خطوط میں یہی موضوعات  ہیں۔ بہت سے خوش قسمت امراء وحکام نے اس دعوت پر لبیک کہا اور اسلام کی آغوش رحمت میں آگئے، اور بہت سے بدقسمت اس دولت سے محروم رہے، جن میں سے بہت سے اپنی موت آپ مر گئے، بہت سے امراء وحکام اور شہنشاہوں کو خلفاء اسلام کے دورِخلافت میں اپنی حکومتیں گنوانی پڑیں، اور وہاں اسلام کا پرچم لہرایا۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK