ترقی پسند ادیب و شاعر سجاد ظہیر (۵؍نومبر ۱۹۰۵ء تا۱۳؍ستمبر ۱۹۷۳ء) کا یہ مضمون ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں شعر اور موسیقی کے تناظر میں اس کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی اس کی معنویت برقرار ہے۔
EPAPER
Updated: September 17, 2023, 1:40 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai
ترقی پسند ادیب و شاعر سجاد ظہیر (۵؍نومبر ۱۹۰۵ء تا۱۳؍ستمبر ۱۹۷۳ء) کا یہ مضمون ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا تھا۔ موجودہ حالات میں شعر اور موسیقی کے تناظر میں اس کا مطالعہ کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی اس کی معنویت برقرار ہے۔
مشاعرے میں کسی شاعر کی مقبولیت سے اس کی شاعری کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ خوش گلو اور خوش آواز شعراء جو مشاعروں میں اپنا کلام ترنم سے سناتے ہیں ،عام طور سے پسند کئے جاتے ہیں ۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہوتے ہیں جن کی مقبولیت ان کے کلام کی خوبی سے نہیں ، ان کے ترنم کی لطافت کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن یہ سمجھنا بھی غلط ہوگا کہ ترنم سے شعر پڑھنے والے تمام شعراء کا کلام ، شعری خوبیوں سے عاری ہوتا ہے ۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو جگرؔ صاحب مرحوم کی ہے۔ ان کا والہانہ ترنم ان کے شعر کا جز معلوم ہوتا تھا لیکن ان کی کوئی اچھی غزل اگر تنہائی میں خاموشی سے بھی پڑھی جائے تو اس کی دیگر خوبیوں کے ساتھ ساتھ اس کی موسیقی اور اس کا لہجہ بھی دل کو گرویدہ کرتا ہے۔ مجروحؔ اور مخدومؔ کا ترنم بھی نہایت دلآویز ہے۔ مجازؔ کے ترنم کا آہنگ آج بھی ہمارے کانوں میں گونجتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کے کلام کا بلند معیار بھی مسلّم ہے۔ جدید ترین ’’ترنم نوازوں ‘‘ میں زبیرؔ رضوی ہیں جن میں خوش نوائی کے ساتھ ساتھ ادبی نزاکت اور جدت ِ خیال بھی ہے۔
بات یہ ہے کہ شعر اور موسیقی کا گہرا تعلق ہے، اور مجھے اعتراف ہے کہ میری اپنی زندگی میں لطف و انبساط کا سب سے گہرا احساس انہیں لمحوں میں ہوا ہے جب میں نے خسروؔ، حافظؔ، غالبؔ، فیضؔ یا مخدومؔ کا کلام کسی خوش گلو اور ماہر سنگیت کار سے سنا ہے۔ ملکہ پکھراج کی گائی ہوئی فیض کی غزل یا مخدومؔ کی ’’ایک چنبیلی کے منڈوے تلے‘‘ جسے اقبال قریشی نے سنگیت میں باندھا ہے، ایک بیش بہا روحانی تجربہ ہے اور انہیں سن کر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ صوفیائے کرام نے سماع کی محفل کو کیوں اتنی اہمیت دی تھی۔ لیکن ایک بار کلکتے کے ایک مشاعرے میں ، جس کی صدارت کے فرائض میں انجام دے رہا تھا، میں نے یہ سوچا کہ مشاعرے کا آغاز غالبؔ کی ایک غزل کو باقاعدہ راگ میں سنا کر کیا جائے۔ میرے جس نوجوان دوست نے غالب کی غزل گا کر سنائی وہ بہت اچھے گانے والے تھے۔ ان کے سنگت کے طبلہ نواز بھی موجود تھے اور وہ خود ہارمونیم بجا رہے تھے لیکن جیسے ہی یہ غزل شروع ہوئی، مجمع ناراض ہوگیا اور چاروں طرف سے آوازیں آنے لگیں کہ ہم شعر سننے کے لئے آئے ہیں ، گانا سننے کے لئے نہیں ۔ مجمع کا یہ رنگ دیکھ کر گانا موقوف کردیا گیا اور پھر مشاعرہ شروع ہوا۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں نے آداب ِ مشاعرہ کا احترام نہیں کیا تھا۔ گانا اپنی جگہ ہے، شاعری اور مشاعرہ اپنی جگہ۔ اسی لئے مشاعروں میں جو شاعر اپنا کلام گا کر سناتے ہیں ان کے گانے کو ’’ترنم‘‘ کہا جاتا ہے۔ موسیقی کی نظر سے دیکھا جائے تو یہ گانے کی کسی قدر پست قسم ہے۔ (اکثر ترنم سے پڑھنے والے بے سرے بھی ہوتے ہیں ) آپ اگر کسی شاعر سے کہیں کہ اپنا کلام ترنم سے سنائے تو وہ برا نہیں مانے گا ، لیکن اگر اس سے یہ کہئے کہ ’’اپنا کلام گا کر سنائے‘‘ تو وہ اسے اپنی توہین محسوس کرے گا، حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بڑا سنگیت کار ایک فنکار کی حیثیت سے شاعر سے کم قابل احترام نہیں ہوتا ۔
اردو کے بہت سے ’’مقطع‘‘ لوگوں کو میں نے یہ کہتے سنا ہے کہ جب سے ترنم سے شعرپڑھنے کا رواج ہوا ہے، مشاعرو ں میں اچھی شاعری سنانا مشکل ہوگیا ہے۔ اس لئے کہ سامعین ترنم کو تحت اللفظ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے ۔ جوشؔ، فراقؔ، فیضؔ، سردار جعفریؔ، اخترالایمانؔ، تاباں ؔ، کیفیؔ، ساحرؔ، نیاز حیدرؔ اپنا کلام تحت اللفظ میں سناتے ہیں ۔ جوش اور کیفی تو تحت اللفظ کی اس روایت میں شعر خوانی کرتے ہیں جو مرثیوں کی ہے اور میر ؔ و انیس ؔ سے منسوب ہے۔ اس کے باوجود یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ ترنم سے شعر سنانے والے کے مقابلے میں وہ کم مقبول ہیں یا اس کی وجہ سے ان کا شعر پھیکا معلوم ہوتا ہے۔
اصل بات یہ ہے کہ مشاعروں میں پڑھنے والے بیشتر شاعروں کا کلام ، خواہ وہ ترنم سے پڑھنے والے ہوں یا سادے انداز میں ، یا تو پست معیار کا ہوتا ہے یا پھر مشاعرے میں پڑھنے کے لئے ناموزوں ہوتا ہے۔ پھر سامعین کے ادبی معیار کا بھی مسئلہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مشاعروں کی غیرمعمولی مقبولیت کے باوجود ان میں شریک ہونے والوں کی بہت بڑی تعداد اردو ادب اور اس کی روایات سے بہت کم واقف ہوتی ہے۔ ایسی صورت میں اگر کبھی کبھی اچھے شعر یا اچھی نظم کو داد نہ ملے تو ہمیں تعجب نہ کرنا چاہئے۔ یہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ گھٹیا ، بازاری قسم کا مشاعرہ ’’لوٹ لیتا‘‘ ہے جس کی وجہ سے خوش مذاق سامعین اور اچھے شاعروں کو بہت کوفت ہوتی ہے۔ یہ صورت حال تو اس وقت تک بدلی نہیں جاسکتی جب تک کہ علم و ادب اور مذاق سلیم کی تربیت عام نہ ہو، جب تک ہر پڑھے لکھے گھر میں خوش مذاقی نہ پھیلے اور اکثریت ان تربیت یافتہ خوش مذاق لوگوں کی نہ ہوجائے۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل قریب میں ہم تہذیب و تمدن کا یہ نسبتاً بلند معیار حاصل کرسکیں گے یا نہیں ۔ ان ملکوں میں جہاں ہندوستان کے مقابلے میں بہت زیادہ لوگ تعلیم یافتہ ہیں ، متمدن اور مہذب انسان کی تربیت کا مسئلہ کافی مشکل ہے۔ بہرحال اس سلسلے میں ہمیں دو باتوں کی طرف توجہ دینا ہوگی: اول تو یہ کہ ہمارے نقاد، ادیب اور ادبیات کے اساتذہ مسلسل مذاقِ سلیم کی تربیت کی کوشش کریں ، اور معیار بھی گھٹنے نہ پائے، دوسرے یہ کہ اس جمہوری اور عوامی دور میں اس بلند معیار کی مسلسل زیادہ سے زیادہ لوگوں میں ترویج کی جائے۔ ظاہر ہے کہ بلند معیاری کے متعلق لوگوں میں اختلاف ہوگا۔ کوئی شعر کسی کو بلند معیار کا معلوم ہوگا تو کسی کو نہیں لیکن یہ اختلاف اساتذہ کے متعلق نسبتاً کم ہوگا اور جدید ادباء کے متعلق زیادہ ہوگا۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ادبی معیار اختلاف ِ آراء کے ذریعے ہی ابھرتے ہیں ۔ ان معاملات میں ہمیں وسیع المشربی برتنا چاہئے اور سنجیدگی سے ادبی تخلیقات کو پرکھنا اور ان کے متعلق اختلاف کو برداشت کرکے اپنی رائے قائم کرنا چاہئے۔
چند روز ہوئے، میں سردار جعفری سے ادبی معیار کے متعلق گفتگو کررہا تھا اور اردو شاعری کے موجودہ پست معیار کا رونا رورہا تھا۔ سردارؔ نے اس موقع پر بڑی دلچسپ بات کہی ۔ انہوں نے کہا کہ اول درجے کی شاعری تو بہت کم ہوتی ہے اور یقینی ہم کو اول درجے کی شاعری کی جستجو کرنا چاہئے، لیکن دوسرے درجے کی شاعری بھی اپنی اہمیت رکھتی ہے۔ اس کی بھی افادیت ہے اور ہماری تہذیبی زندگی میں اس کا مقام ہے۔
ایک بہت دلچسپ کتاب ان دنوں میری نظر سے گزری ہے۔ اس کا نام ’’سفینۂ غزل‘‘ ہے ۔ اسے تاج کمپنی کراچی نے شائع کیا ہے۔ ’’سفینۂ غزل‘‘ میں ولیؔ (وفات ۱۷۴۴ء) سے لے کر بیسویں صدی تک کے متوفی شعراء کی غزلوں کا انتخاب ہے۔ انتخاب سید محمد عباس نے کیا ہے۔ فی الجملہ یہ انتخاب اچھا ہے۔ اس پر ایک سرسری نظر سے ہی سردار جعفری کی بات کا ثبوت مل جاتا ہے یعنی اس میں بیشتر غزلوں کے اشعار دوسرے درجے کے ہیں ، اور وہ یقینی اچھے بھی ہیں اور پرلطف بھی ۔میں تو چاہوں گا کہ اردو ادب کے ہر طالبعلم کے پاس یہ کتاب ہو اور وہ اس کا مطالعہ کرتا رہے۔ اردو زبان کا غیرمعمولی حسن، اس کے ارتقاء کی منزلیں ، نیز اردو ادب کی خامیاں اور ’’تنگنائے غزل‘‘ کی اچھی اور بری سب خصوصیتیں اس مجموعے میں ہمیں نظر آئیں گی۔ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں نے دوبارہ اردو شعر کے ایک ایسے معیاری انتخاب کی ضرورت محسوس کی جو غالباً حجم میں ’’سفینۂ غزل‘‘ سے بہت زیادہ مختصر ہوگا لیکن جس میں صرف بلند ترین معیاری شاعری شامل ہوگی۔(مضامین سجاد ظہیر۔۱۹۷۹ء)