Inquilab Logo Happiest Places to Work

وقت کی رفتار ہے یا ذہن کی رفتار ہے

Updated: December 31, 2022, 10:45 AM IST | Shahid Latif | Mumbai

رُخصت ہورہا ہے۲۰۲۲۔ کل، نئے سورج اور نئے دن کے طلوع کے ساتھ ہی نیا سال بھی شروع ہوگا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ۲۰۲۳ء بھی اُسی طرح گزر جائیگا جس طرح ۲۰۲۲ء گزرا۔ کیا وقت تیزی سے گزرنے لگا ہے کہ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا، یا، کوئی اور بات ہے؟

photo;INN
تصویر :آئی این این

سال ابھی شروع ہوا تھا، ابھی ختم ہوگیا۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ابھی دن نکلا تھا ابھی رات ہوگئی، ہفتہ ابھی شروع ہوا تھا ابھی نیا ہفتہ آگیا، یا، ابھی عید منائی تھی ابھی رمضان آگیا۔ ایسے جملے ہماری روزمرہ کی گفتگو کا حصہ ہیں۔ بار بار سننے کو ملتے ہیں، بار بار کہے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی عموماً یہ بھی کہا اور سنا جاتا ہے کہ ’’آج کل وقت اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ کچھ سمجھ ہی میں نہیں آتا۔
 کیا وقت واقعی تیزی سے گزرنے لگا ہے یا کوئی اور بات ہے؟ یہ اہم سوال ہے۔ اب سے بیس پچیس برس پہلے اگر کوئی شخص ٹرین سے سفر کا ارادہ کرکے وقت سے پہلے اسٹیشن پہنچتا اور اُسے یہ اعلان سنائی دیتا کہ ٹرین اپنے مقررہ وقت سے تین گھنٹے تاخیر سے روانہ ہوگی تو وہ پریشان ہوجاتا تھا کہ خدایا تین گھنٹے کا طویل وقت کیسے گزرے گا! آج کے زمانے میں ٹرین کے تاخیر سے روانہ ہونے کی اطلاع ملتی ہے تو کسی کو کوئی خاص پریشانی نہیں ہوتی۔ 
 آخر وقت اتنی تیزی سے کیوں گزر جاتا ہے یا دورِ حاضر کے انسان کو وقت گزارنے میں کوئی دقت کیوں نہیں ہوتی؟ کیا وقت واقعی تیزی سے گزرنے لگا ہے؟ کیا ایسا ہے کہ کل تک ایک ایک منٹ کے حساب سے جب ساٹھ منٹ گزر جاتے تھے تب ایک گھنٹہ مکمل ہوتا تھا اور اَب ایک گھنٹہ شاید آدھ گھنٹے میں گزر جاتا ہے؟ 
 یہ اس لئے ہورہا ہے کہ آج کے انسان کے پاس سوچنے، کرنے، کہنے، سننے، دیکھنے اور دیکھتے رہنے کا وہ سامان ہے کہ وقت کب اور کیسے گزرتا ہے کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ صبح اُٹھنے کے بعد اِس سے قبل کہ گھر کے در و دیوار کو آنکھ بھر کے دیکھا جائے اور اس سے قبل کہ گھر کے باہر پھیلے ہوئے آسمان اور قدرت کے دیگر مظاہر پر نگاہ جمے، آج کا انسان موبائل اُٹھالیتا ہے اور یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ کہیں کسی کا فون (کال) تو نہیں آیا تھا، کوئی پیغام (مسیج) تو نہیں ہے یا کوئی ایسی خبر تو نہیں ہے جو اُسے فوراً معلوم ہونی چاہئے۔ یہ سلسلہ دن بھر بلکہ دیر رات تک جاری رہتا ہے۔اس کی وجہ سے ذہن غیر شعوری طور پر ہی سہی بھٹک جاتا ہے اور اتنی سمتوں میں بھٹکتا ہے کہ وقت کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا۔ مثال کے طور پر آپ نے موبائل اُٹھایا اور تازہ واقعات پر نگاہ دوڑانی شروع کی۔ چند واقعات کو آپ نظر انداز کردینگے، دیگر چند واقعات پر تھوڑی دیر کیلئے رُکیں گے اور چند کی تفصیل دیکھنے یا پڑھنے لگیں گے۔ اگر وہ واقعات جنہیں آپ نے نظر انداز کردیا آٹھ تھے، جن واقعات پر آپ تھوڑی دیر کیلئے رُکے وہ پانچ تھے اور جن کی تفصیل آپ نے دیکھی یا پڑھی وہ تین تھے تو آپ آخر الذکر (تین) کو یاد رکھیں گے۔ جنہیں نظر انداز کیا (آٹھ) اور جن پر تھوڑی دیر کیلئے ٹھہرے (پانچ) اُنہیں بھول جائینگے مگر جان لیجئے کہ اس دوران آپ کا ذہن سولہ مرتبہ، سولہ مختلف سمتوں میں بھٹکا (۸+۵+۳=۱۶) اور آپ اس گمان میں رہیں گے کہ مَیں نے صرف تین واقعات کی تفصیل پڑھی یا دیکھی ہے۔ ذہن جتنی باربھٹکتا ہے آپ کا اُتنا وقت صرف ہوتا ہے اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے گزر گیا۔ 
 اگلے زمانوں میں وقت بے خیالی یا نیم خیالی میں نہیں گزرتا تھا بلکہ باقاعدہ گزارا جاتا تھا اور جو کام شعوری طور پر کیا جاتا ہے اُس کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی ہے لہٰذا سوچ سمجھ کر نظام الاوقات ترتیب دیا جاتا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو نظام الاوقات ازخود مرتب ہوجاتا تھا کیونکہ ذہن کو منتشر (ڈِسٹریکٹ) کرنے کا کوئی سامان نہیں تھا۔ اب ڈسٹریکشن اس قدر ہے کہ اگر کوئی مشین ایجاد ہوجائے جو یہ بتا سکے کہ ذہن کا کتنا حصہ خیالات، اطلاعات ، مشاہدات یا اُن کی پرچھائیوں وغیرہ سے پُر ہے تو جو منظرنامہ سامنے ہوگا اس پر یقین ہی نہیں ہوگا۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرین نفسیات میتھیو کلنگز ورتھ اور ڈینیل گلبرٹ نے ۲۲۵۰؍ افراد کے سروے کے ذریعہ یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اُن کا ذہن اصل کام سے کس حد تک بھٹکتا ہے تو معلوم ہوا کہ بیداری کے اوقات کا ۴۷؍ فیصد حصہ ۔ اگر یہی کیفیت ہر خاص و عام کی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ نیند کے علاوہ باقی تمام وقت کا تقریباً پچاس فیصد حصہ غیر مفید یا کم مفید چیزوں پر صرف ہورہا ہے۔ اطلاعاتی تکنالوجی کی وجہ سے آج کے انسان تک ایسی ایسی خبریں پہنچ رہی ہیں جن سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہیں ہے مگر وہ اُس کا دھیان بھٹکاتی ضرور ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ دھیان بھٹکانے والی ان چیزوں سے نہ تو کیف و نشاط حاصل ہوتا ہے نہ ہی یہ علم میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔ 
 اس گفتگو کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھلے ہی کسی انسان کا ذہن تھوڑی دیر کیلئے بھٹکے، اُسے دوبارہ پٹری پر آنے میں وقت لگتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک مطالعے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ایک بار ذہن بھٹکا تو دوبارہ اپنی جگہ واپس آنے کیلئے اسے ۲۳؍ منٹ، ۱۵؍ سیکنڈ درکار ہوتے ہیں۔ یہ ناقابل یقین معلوم ہوتا ہے کیونکہ جب ذہن بھٹکتا ہے تب انسان نہ تو اس کیفیت کو محسوس کرتا ہے نہ ہی بھٹک کر واپس آنے کی حقیقت اُس پر ظاہر ہوتی ہے چنانچہ کب بھٹکا اور کب واپس آیا کا احساس اسے نہیں ہوتا مگر غیر شعوری طور پر یہ ہوتا ہے اور اس سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ 
 انسانی ذہن میں بھٹکنے کی خصوصیت بدرجۂ اتم پائی جاتی ہے۔ اس کا تجربہ کرنا ہو تو کبھی نماز ادا کرلینے کے بعد جائزہ لیجئے کہ دو یا چار رکعت کے دوران کتنے خیالات آئے اور کب کب ذہن بھٹکا۔ آپ محسوس کریں گے کہ کوئی ڈجیٹل آلہ موجود نہ ہونے کے باوجود ذہن قابو میں نہیں تھا،یکسو‘ نہیں تھا۔ انسانی ذہن تسلسل کے ساتھ بھٹکتا ہے۔ نماز میں تو یہ بھی ہوتا ہے کہ بھٹکے ہوئے ذہن کو دوبارہ مرکوز کرنے کی کوشش کیجئے تو وہ مرکوز ہونے کے عنوان پر بھٹکنے لگتا ہے۔ کبھی کبھی تو رُک کر غور کرنا پڑتا ہے کہ دو رکعت ادا ہوچکی ہیں یا نہیں۔
 دراصل سال شروع ہوکر فوراً ختم نہیں ہوتا جیسا کہ محسوس ہوتا ہے۔ سال اب بھی تین سو پینسٹھ دن کا ہوتا ہے اور ہر دن رات کا مجموعی دورانیہ اب بھی چوبیس گھنٹے ہی کا ہے مگر اپنی ذہنی مصروفیتوں یا ذہن کے بار بار منتشر ہونے کے سبب ایسا لگتا ہے کہ وقت تیزی سے گزر نے لگا ہے۔ یہ خام خیالی ہے۔ وقت تیزی سے نہیں گزرتا، اُس کی رفتار وہی ہے جو پہلے تھی۔ فرق یہ آگیا ہے کہ اس کے مقابلے ہم تیزی سے گزرنے لگے ہیں۔ اس میں وقت کا قصور نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK