Inquilab Logo

وہ تین احکام ِ الٰہی ہیں جو کامیاب زندگی کی کلید ہیں

Updated: December 09, 2022, 3:24 PM IST | Fazilat al-Sheikh Dr. Usama Khayyat | MUMBAI

اپنے بندوں کے لئے شفیق، ان پر مہربان اور بو قلموں نعتوں کے ساتھ ان سے محبت کرنے والے اللہ کے احسانات میں سے یہ ہے کہ اس نے انہیں ہر اس خیر کا حکم دیا ہے جس سے ان کے نفوس سعادت بخت ہوں، دل مطمئن ہوں، زندگی خوش گوار ہو اور جس سے دنیا وآخرت میں انہیں کامیابی و کامرانی حاصل ہے

Enjoining goodness is a duty on every Muslim; Photo: INN
نیکی کا حکم دینا ، ہر مسلمان پر فرض ہے؛تصویر:آئی این این

  اپنے بندوں کے لئے شفیق، ان پر مہربان اور بو قلموں نعتوں کے ساتھ ان سے محبت کرنے والے اللہ کے احسانات میں سے یہ ہے کہ اس نے انہیں ہر اس خیر کا حکم دیا ہے جس سے ان کے نفوس سعادت بخت ہوں، دل مطمئن ہوں، زندگی خوش گوار ہو اور جس سے دنیا وآخرت میں انہیں کامیابی و کامرانی حاصل ہے۔ ان میں سب سے بڑھ کر نفع بخش اور تاثیر کے اعتبار سے سب سے زیادہ قوی اور باقی رہنے والے تین ربانی احکام ہیں۔ اللہ کی کتاب میں موجود ایک آیت ان پرہے ۔ یہ احکام و نواہی کے تمام شرعی قواعد کو جامع ہیں۔ یہ تمام مخلوقات کے ساتھ طرز عمل کے قواعد کو مضبوط کرتے ہیں اور ان کے ساتھ احسان کرنے اور انہیں سعادت بخشنے کے طریقوں کو بیان کرتے ہیں اور ان میں سے اہل شر کے شر سے بچنے کے راستوں کو بتلاتے ہیں۔
 اور وہ اللہ تعالی کے اس قول میں ہیں جس میں اس نے اپنے معزز ترین مخلوق اور مکرم ترین رسول محمد  ﷺکو مخاطب کیا ہے 
 ’آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ (الاعراف:۱۹۹)
 اللہ پاک نے نبی اکرم ﷺ کو حکم دیتے ہوئے آغاز کیا کہ لوگوں کے اخلاق و اعمال میں اسے اختیار کریں تو جس  کا کہنا لوگوں کے لئے سہل ہو اور کرنا آسان ہو اور جو ان کے نفوس کو گوارا ہو اور جو ان کے بس میں ہو ۔ شریعت نے سب سے کامل و مکمل کے مطالبہ اور باطن کی چھان بین کے ذریعہ نہ تنگی پیدا کی ہے اور نہ انتہا کو طلب کیا ہے تاکہ حرج دور ہو اور سختی کو دفع کیا جائے۔پھر نیکی کرنے کا حکم ہوا اور نیکی ہر وہ بھلائی ہے جسے عقل سلیم پہچانتی ہے ، اس کی اچھائی و نفع رسانی کا اقرار کرتی ہے اور اس میں سب سے بلند اللہ کی توحید ہے اور ہر وہ اعمال ہیں جن کا اللہ نے حکم دیا ہے یا جن کو مستحب قرار دیا ہے ، جیسا کہ اسے ابن جریر رحمہ اللہ نے راجح قرار دیا ہے اور انہیں میں سے قطع تعلق کرنے والوں سے صلہ رحمی کرنا، نہ دینے والوں کو دینا اور ظلم کرنے والوں سے در گزر کرنا ہے۔
 اللہ کے بندو! اور جب جاہلوں کی طرف سے اذیت حتمی چیز تھی، جسے ہونا ہی تھا اور جسے روکا نہیں جاسکتا تو تیسر ا حکم یہ آیا کہ جاہلوں سے اعراض کیا جائے،  ان کی جہالت کا جواب نفس کے انتقام اور غیض و غضب کی پیاس بجھانے کے لئے اسی کے جیسی جہالت سے نہ دیا جائے بلکہ ان کی اذیت رسانی پر صبر کریں اور بردباری سے کام لیں اور یہی اچھی حالت اور مثالی طریقہ ہے جس پر اپنے دوستوں اور دشمنوں کے ساتھ نبی رحمت و ہدایت ﷺ کے حکم کو مانتے ہوئے قائم تھے۔  ابن قیم ؒ فرماتے ہیں: ’’ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حکم دیا کہ جو لوگ صبح و شام اللہ کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں انہیں کے ساتھ خود کو رکھا کریں اور یہ کہ آپ ﷺ کی آنکھیں ان سے ہٹنے نہ پائے اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ ان سے زائد از ضرورت کو لیں، ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور اپنے کام میں ان سے مشورہ لیا کریں اور ان کے لئے دعائے خیر کریں اور آپ ﷺ کو حکم دیا کہ جو آپؐ کی نافرمانی کرے اور پیچھے رہ جائے اسے علاحدہ کر دیں یہاں تک کہ وہ توبہ کرلے اور آپؐ کی اطاعت میں لوٹ آئے ۔
  اللہ  تعالیٰ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ آپ ﷺ ان پر حدود قائم کریں جو ان میں سے ایسے گناہ کا ارتکاب کریں جو حدود کے موجب ہوں اور اس سلسلے میں آپ ﷺ کے نزدیک شریف ورذیل برابر ہوں اور شیاطین  وانس میں سے دشمنوں کو دفع کرنے کا حکم دیا کہ وہ انہیں احسن طریقے سے دفع کریں، تو جو کوئی آپ ﷺ کے ساتھ بر اسلوک کرے، آپ ﷺ اس کے ساتھ اچھے سے پیش آئیں، اس کی جہالت کا بر دباری سے ، ظلم کا در گزر سے اور قطع تعلق کا صلہ رحمی سے جواب دیں۔
  اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو مطلع کیا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کا دشمن ایسا ہو جائے گا جیسے کہ وہ بڑا جگری دوست ہو اور شیاطین الجن سے دشمنوں کو دفع کرنے کا حکم دیا کہ ان سے اللہ کی پناہ مانگ کر انہیں دفع کریں اور قرآن کریم میں تین جگہوں پر ان دونوں حکموں کو جمع کیا ۔ اللہ کا فرمان ہے ’آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرلیں۔ اور اگر آپ کو کوئی وسوسہ شیطان کی طرف سے آنے لگے تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجئے بلاشبہ وہ خوب سننے والا خوب جاننے والا ہے۔‘‘ (الاعراف:۱۹۹۔۲۰۰)
 اللہ تعالی نے آپ ﷺ کو جاہلوں کے شر سے اعراض کر کے اور شیطان کے شر سے اللہ کی پناہ مانگ کر بچنے کا حکم دیا اور اس آیت میں آپ ﷺ کی تعلیم کے لئے اخلاق و اوصاف کریمانہ کو جمع کردیا۔ اس لئے کہ جس کی اطاعت کی جاتی ہے لوگوں کے ساتھ اس کے تین احوال ہوتے ہیں: ضروری ہے کہ اس کا ان لوگوں پر حق ہو جنہیں پورا کرنا ان کےلئے ضروری ہو، اس کا بس چلے اور وہ لوگوں کو حکم دے اور یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کی جانب سے اس کے حق میں کو تاہی اور زیادتی سرزد ہو تو اللہ نے حکم دیا کہ وہ ان سے وہ حق لے جو ان کے نفسوں کے بس میں ہو اور گوارا ہو اور ان پر آسان ہو اور گراں نہ ہو اور وہ زائد از  اللہ نے آپ ﷺ کو حکم دیا کہ انہیں نیکی کا حکم دیں اور جب نیکی کا حکم دیں تو بھلائی کے ساتھ دیں، شدت اور سختی سے نہیں اور ان میں سے جاہلوں کی جہالت کا جواب اس سے اعراض کر کے دیں، اُنہی کے جیسی جہالت سے جواب نہ دیں ، اس سے آپ ﷺ ان کے شر سے محفوظ رہیں گے۔
 ’’ آپ دعا کریں کہ اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وہ دکھائے جس کا وعدہ انہیں دیا جا رہا ہے۔ تو اے رب ! تو مجھے ان ظالموں کے گروہ میں نہ کرنا۔ 
اور بیشک ہم اس بات پرضرور قادر ہیں کہ ہم آپ کو وہ (عذاب) دکھا دیں جس کا ہم ان سے وعدہ کر رہے ہیں، آپ برائی کو اس طریقے سے دور کریں جو سراسر بھلائی والا ہو۔ہم ان (باتوں) کو خوب جانتے ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں، اور آپ (دعا) فرمائیے: اے میرے رب! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اور اے میرے رب! میں اس بات سے (بھی) تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آجائیں۔‘‘ (المومنون: ۹۳؍تا۹۸)
 اور اللہ پاک کا فرمان ہے’’اور نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتے۔ برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست۔ اور یہ بات انہیں کو نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پاسکتا۔ اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو، یقیناً وہ بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے۔‘‘ (فصلت:۳۴؍تا۳۶)
 یہ ہے انس و جن اور مومن و کافر روئے زمین پر بسنے والوں کے ساتھ نبی اکرم ﷺکا طرز عمل اور ان تمام میں نبی اکرم ؐہی اسوہ ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے ’’یقیناً تمہارے لئے رسولؐ اللہ  (کی ذاتِ مبارکہ) میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کے لئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘ (الاحزاب – :۲۱)
  اے اللہ کے بندو! جاہلوں یعنی بے وقوفوں سے اعراض ان سے دور رہ کر اور ان سے بحث و مباحثہ نہ کر کے ہو گا اور ان کی اذیت کا اس سے بہتر علاج،  ان کی زیادتی کو اس سے زیادہ زیر کرنے والا اور ان کے دلوں پر اس سے زیادہ گراں اور کچھ نہیں کہ ان سے اعراض کیا جائے اور یہ اعراض اس لئے ضروری ہے کہ جب ان کے پاس حق نہیں ہو تا تو وہ حق کے طالب نہیں ہوتے اور جب حق کو پاتے ہیں تو اپنی خواہشات کے بر خلاف اسے قبول نہیں کرتے ، وہ کسی عہد کا پاس نہیں رکھتے ، نہ کسی دوستی کی حفاظت کرتے ہیں اور صرف اسی نعمت کی شکر گزاری کرتے ہیں جو جاری ہو ، جب وہ سلسلہ ختم ہو جاتا ہے تو شکر گزاری کفران نعمت میں بدل جاتی ہے ، تعریف مذمت ، رشتہ قطع تعلق اور محبت نفرت کی طرف چلی جاتی ہے۔
 اللہ کے بندو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور زائد از ضرورت کو اختیار کرنے ، نیکی کا حکم دینے او جاہلوں سے اعراض برتنے کے الٰہی حکم پرعمل تمہارے لئے ہر بھلائی کو پانے ، ہر برائی کو دفع کرنے ، دنیا میں سعادت، آخرت میں فوز و فلاح اور بلندی کے حصول کا سب سے اچھا ذریعہ ہو۔ اور ہمیشہ یا در کھو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خیر الوری ﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ” اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو۔ “ (احزاب:۵۶)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK