Inquilab Logo

طلب کی فکر کیجئے، رسد اپنا راستہ خود بنالے گی

Updated: January 10, 2022, 3:22 PM IST | Bharat Jhun Jhunwala

طلب اور رسد کا توازن بہتر معاشی صحت کا غماز ہوتا ہے۔ طلب کا کم ہونا بھی ٹھیک نہیں (جیسا کہ اِس وقت ہے) اور رسد کم ہے تو بھی ٹھیک نہیں کہ اس سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ اس مضمون میں ایسے کئی نکات بیان کئے گئے ہیں۔

Picture.Picture:INN
علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

ہندوستان دُنیا کی سب سے تیز رفتار معیشت بن گیا ہے۔ اس کے باوجود اندرون ملک طلب (ڈیمانڈ) بے حد کمزور ہے۔ اس کو طاقت پہنچانے یعنی صارفین کی طلب میں اضافے کیلئے حکومت کو (۱) سپلائی سائڈ پالیسی اور (۲) ڈیمانڈ سائڈ پالیسی کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ سپلائی سائڈ پالیسی میں طلب کو بڑھانے کیلئے حکومت کو اشیاء اور مصنوعات کی قیمتوں میں تخفیف کو یقینی بنانا چاہئے۔ فرض کرلیجئے کہ بازار میں آلو کی قیمت کم ہوتی ہے تو گاہک آلو کی زیادہ مقدار خریدیں گے اور دیگر سبزی ترکاریاں شاید اتنی مقدار میں نہ خریدیں۔ ا سکی وجہ سے آلو کی طلب میں اضافہ ہوگا۔ اس دوران سپلائی بھی زیادہ ہوئی تو طلب بھی بڑھے گی۔ معلوم ہواکہ طلب بھی زیادہ ہے اور سپلائی بھی۔ ایسی صورت میں دونوں کا توازن اس وقت برقرار رہے گا جب قیمت کم رہے گی۔ اب اگر طلب اس سے بھی زیادہ بڑھی تو قیمت میں اضافہ ہوگا جس کے نتیجے میں کسان زیادہ مقدار میں آلو بازار کو فراہم کریں گے۔ معلوم ہوا طلب بھی بڑھی ہے اور رسد (سپلائی) بھی۔ یہ ہے ڈیمانڈ سائڈ پالیسی۔ اس میں بھی ڈیمانڈ اور سپلائی کا توازن برقرار رہنا چاہئے۔ البتہ یہاں قیمت بڑھنے کا پورا پورا امکان رہتا ہے۔ یعنی اب جو توازن قائم ہوگا وہ زیادہ قیمت پر ہوگا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ خواہ طلب میں اضافے کی وجہ سے رسد بڑھے یا رسد کی فراوانی کے سبب طلب میں اضافہ ہو، دونوں ہی صورتوں میں اشیاء اور مصنوعات کا حصول یا حاصل کرنے کا جوش بڑھے گا۔ ماہرین معاشیات کے نزدیک یہ دونوں ہی تدابیر قابل قبول ہیں مگر اس کا فیصلہ کہ کس وقت کون سی تدبیر یا فارمولہ کارگر ہوگا، ایک اہم فیصلہ ہوتا ہے جو بازار کی نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت پر مبنی ہوتا ہے۔ حکومت نے اس وقت جو پالیسی اپنائی ہے وہ سپلائی سائڈ پالیسی ہے۔ ریزرو بینک نے کمرشیل بینکوں کو کم شرح سود پر قرض مہیا کیا ہے تاکہ وہ بھی اپنے گاہکوں کو کم شرح سود پر قرض دے سکیں۔ اس کے پیچھے خیال یہ ہےکہ جب آسانی سے یعنی کم شرح سود پر قرض حاصل ہوگا تو تجارتی اور کاروباری لوگوں کو پیداواری لاگت کم آئے گی اور اشیاء کی خریداری بڑھے گی بالکل ویسے ہی جیسا کہ آپ نے اوپر کی مثال میں دیکھا کہ جب آلو سستا ہوا تو اس کی طلب بڑھی، طلب کے ساتھ ہی اس کا صرف یعنی کنزمپشن بڑھا۔ حکومت نے پیداوار سے متعلق ایسی اسکیم جاری کی ہے کہ جو زیادہ پیداوار کو یقینی بنائے گا وہ اُتنا فائدہ میں رہے گا۔ اسے پروڈکشن لنکڈ انسینٹیو اسکیم (پی ایل آئی ایس) نام دیا گیا ہے جس میں صنعتوں کو مالیاتی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں تاکہ وہ پیداوار میں اضافہ کریں۔ اس کے پیچھے منطق یہ ہے کہ جب کم لاگت پر زیادہ پیداوار ہوگی تو نسبتاً کم قیمت پر اشیاء کی خرید ممکن ہوگی جس کے نتیجہ میں طلب (ڈیمانڈ) میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔
 رسد کو ترجیح دینے والی یہ پالیسی جسے بالائی سطور میں سپلائی سائڈ پالیسی کہا گیا ہے، خالی از خطر نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پالیسی بروئے کار لائی جائے مگر اس سے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہوں۔ اس کی مثال پالن پور (گجرات) کے کسانوں سے دی جاسکتی ہے جنہوں نے چند سال پہلے آلو کی فصل کا بڑا حصہ سڑکوں پر پھینک دیا تھا کیونکہ پیداوار زیادہ ہونے کے باوجود طلب میں اضافہ نہیں ہوا تھا جب کہ قیمت بہت معمولی تھی۔ اس وقت آلو ۳؍ روپے کلو فروخت کیا جارہا تھا اس کے باوجود گاہک نہیں تھے۔
 اس کے برخلاف، ڈیمانڈ سائڈ پالیسی یا مانگ کو تقویت دینے کا عمل کارگر ہوسکتا ہے۔ مثال کے طور پر، کووڈ کی وباء کے سبب ماسک کی زبردست ڈیمانڈ ہوئی جبکہ اس ڈیمانڈ کیلئے نہ تو بینکوں نے شرح سود کم کرکے آسان قسطوں کا قرض جاری کیا نہ ہی کوئی اور حکمت یا تدبیر آزمائی گئی۔ چونکہ طلب تھی اور غیر معمولی تھی اس لئے ماسک بنانے والوں نے وسائل اپنے طور پر تلاش کئے اور ماسک سازی کو تیزی کے ساتھ جاری کیا۔ 
 یہی فرق ہے سپلائی سائڈ پالیسی اور ڈیمانڈ سائڈ پالیسی میں کہ سپلائی کو یقینی بنایا گیا تو ضروری نہیں کہ طلب یا ڈیمانڈ بھی اسی رفتار سے بڑھے گی جبکہ ڈیمانڈ سائڈ کو ذہن میں رکھا گیا اور طلب بڑھانے پر توجہ دی گئی تو سپلائی ازخود یقینی ہوجاتی ہے کیونکہ بازار میں کوئی ایسا نہ ہوگا جو طلب کو دیکھنے کے باوجود رسد کی فکر نہیں کرے گا، کاروبار تو ہر ایک کو کرنا ہے۔ اس کیلئے وہ جو بھی بھاگ دوڑ کرسکتا ہے کرے گا مگر طلب کو دیکھ کر رسد میں ذرہ برابر بھی غفلت سے کام نہیں لے گا۔
 اس تفصیل سے آپ خود اس نتیجے پر پہنچ رہے ہوں گے کہ حکومت کو سپلائی سائڈپالیسی چھوڑ کر ڈیمانڈ سائڈ پالیسی پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے کیونکہ ڈیمانڈ ہی کا دوسرا نام صَرف یا استعمال یا کنزمپشن ہے۔جب صَرف بڑھتا ہے تو معیشت میں تیزی آتی ہے جبکہ عوام میں بھی خوشحالی کا احساس جاگ پڑتا ہے کہ وہ جو کچھ بھی چاہتے ہیں خرید سکتے ہیں۔ اگر کسان گنا پیدا کریں، شکر کارخانے شکر پیدا کریں اور پھر شکر غیر ملکوں کو برآمد کردی جائے تو اس سے لوکل مارکیٹ کی طلب اور رسد کی مساوات میں کوئی فرق نہیں آئے گا۔ 
 طلب یا ڈیمانڈ بڑھانے کیلئے حکومت کو دو منصوبے وضع کرنا چاہئے۔ حکومت نے عوامی فلاح کے کاموں کیلئے جن افسران اور اہلکاروں کو متعین کیا ہے اُنہیں ان اسکیموں سے ہٹا یا جائے بالکل اُسی طرح جیسے حکومت کسانو ں کی منڈیوں سے درمیانی لوگوں کو ہٹانا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی عوام کو ڈائریکٹ ٹرانسفر کے ذریعہ مالی مدد فراہم کی جائے جو ڈیمانڈ میں اضافے کا یقینی سبب بنے گی۔ دوسرا منصوبہ یہ ہو کہ جو سرمایہ باہر جاتا ہے اُسے روکا جائے۔ اطلاعات شاہد ہیں کہ ملک کے مالدار ترین لوگ بیرونی ملکوں میں منتقل ہورہے ہیں جس سے سرمایہ باہر جارہا ہے۔ صنعتکار بھی دیگر ملکوں میں فیکٹریاں قائم کرکے اُن فیکٹریوں میں مینوفیکچرنگ کروا رہے ہیں جس کے بعد اپنا ہی مال درآمد کیا جائیگا۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی ضروری ہے۔ سماجی کشیدگی بھی معاشی ترقیات کے امکانات کیلئے نقصان دہ ہے ۔n
  (مضمون نگار آئی آئی ایم بنگلور کے سابق پروفیسر ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK