Inquilab Logo

بابری مسجد شہادت کی ۳۰؍ ویں برسی

Updated: December 07, 2022, 9:47 AM IST | Mumbai

اگر ہم تیس برس کی تصویر سامنے رکھیں تو آزادی کے بعد سے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مسلمانوں کا جتنا معاشی نقصان ہوا، کم و بیش اُتنا ہی گزشتہ آٹھ سال میں پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی اور پھر طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوا ہے۔

Babri Masjid martyrdom; Photo: INN
بابری مسجد شہادت; تصویر :آئی این این

اگر ہم تیس برس کی تصویر سامنے رکھیں تو آزادی کے بعد سے فرقہ وارانہ فسادات کے سبب مسلمانوں کا جتنا معاشی نقصان ہوا، کم و بیش اُتنا ہی گزشتہ آٹھ سال میں پہلے نوٹ بندی، پھر جی ایس ٹی اور پھر طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ تین بڑی ضربیں اُس اندرونی مار کی طرح ہیں جو دِکھائی نہیں دیتی مگر متاثرین کو شدید کرب میںمبتلا کرتی ہے۔ فسادات کی مار دکھائی دیتی تھی اس لئے ہر فساد کے بعد ریلیف جمع کی جاتی تھی اور اکثر اوقات یہ دیکھا گیا کہ ضرورت سے زیادہ ریلیف جمع ہوئی۔ مگر نوٹ بندی، جی ایس ٹی اور لاک ڈاؤن کے بعد ریلیف کے نظم کی بابت سوچا ہی نہیں گیا، البتہ لاک ڈاؤن کے دوران کھانے پینے کا جو بڑے پیمانے پر انتظام کیا گیا اور تقریباً ہر شہر میں جگہ جگہ کیا گیا، اُس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، وہ قابل ستائش تھا مگر اس انتظام کی نوعیت ہنگامی تھی، متاثرہ خاندانوں کو معاشی استحکام عطا کرنے سے اس کا تعلق نہیں تھا۔ مختصر یہ کہ غریب، نچلے متوسط طبقے اور متوسط طبقے کے خاندانوں کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے کسی ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت پر معاشرہ کی توجہ بہرحال نہیں ہے۔
 احتساب کے نقطۂ نظر سے مزید غور کیا جائے تو اور بھی کئی خانے خالی نظر آتے ہیں۔برادران وطن سے دوستانہ تعلقات کی شعوری کوشش ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں رہیں۔ تعلقات اچھے رہے، خوشگوار رہے مگر جن سے ہیں اُن تک ہی محدود رہے۔ یہ دائرہ وسیع نہیں ہوا جبکہ ایسی تنظیموں کا قیام عمل میں لایا جاسکتا تھا جن کی ماہانہ نشستوں میں برادران وطن کو تعلیمی، سماجی، علمی اور ادبی موضوعات پر گفت و شنید کیلئے مدعو کیا جاتا۔ اس سے مراسم گہرے ہوتے اور غلط فہمیاں ازخود دور ہوتیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دراڑیں ڈالنے کی ہزار کوششوں کے باوجود آج بھی برادران وطن کی بڑی تعداد مسلمانوں کیلئے اچھا جذبہ رکھتی ہے۔ 
 جہاں تک اہم موضوعات پر تبادلۂ خیال کا تعلق ہے، برادران ملت بھی وقفے وقفے سے مل بیٹھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ کتنی انجمنیں ہیں جنہوں نے سرکاری اسکیموں کو سمجھنے اور سمجھانے کیلئے میٹنگیں منعقد کیں تاکہ اُن اسکیموں سے،  جو سب کیلئے ہیں، مسلمان بھی فائدہ اُٹھائیں؟کتنی انجمنیں ہیں جنہوں نے روزگار کے نت نئے مواقع سے نوجوانوں کو روشناس کرانے کیلئے ماہرین سے استفادہ کا پروگرام مرتب کیا؟ ہم یہ نہیں کہتے کہ ایسی میٹنگیں نہیں ہوتیں۔ ہوتی ہیں مگراول تو اِن کی تعداد کم ہوتی ہے اور دوئم یہ کہ ان کا انعقاد ہنگامی طور پر ہوجاتا ہے، باقاعدہ نظم ( ماہانہ یا دوماہی نشستوں کی شکل میں) دیکھنے کو نہیں ملتا۔ 
 اجتماعی نظم ِ زکوٰۃ ایسا موضوع ہے جس پر بہت کچھ لکھا جاتا ہے مگر ملت نے اس جانب سنجیدہ توجہ کبھی نہیں دی۔جو ادارے زکوٰۃ کے نظم بالخصوص اجتماعی نظم کے مقصد سے وجود میں آئے یا جنہوں نے دیگر سرگرمیوں کے علاوہ یہ نظم بھی قائم کیا اُن کے حصہ میں کوئی خاص قبولیت نہیں آئی۔ وقف املاک سے متعلق اُمور بھی بڑی حد تک جوں کے توں ہیں۔ مساجد کے رجسٹریشن اور حساب کتاب کی جانب اب جاکر توجہ ہوئی ہے اور بڑے ملی ّ اداروں اور علماء نے رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ کیفیت دینی مدارس کے سروے کے یوپی حکومت کے فیصلے سے قبل کہاں تھی؟
 کہنے اور لکھنے کو بہت کچھ ہے مگر اس کالم میں اتنی گنجائش نہیں۔ بہتر ہوگا کہ ہم سب غوروفکر کریں، احتسابی نقطۂ نظر اپنائیں اور روز مرہ کی زندگی سے وقت بچا کر ’’ملت سازی‘‘ میں اپنا کردار نبھائیں۔ یہ ۶؍ دسمبر کو یادکرنیکا بہتر طریقہ ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK