راہل گاندھی بلکہ اس سے بھی پہلے پرینکا گاندھی ان تمام ریاستوں میں جہاں الیکشن ہونے والے ہیں نریندر مودی کے پہنچنے سے صرف ایک یا دو دن پہلے پہنچ جاتے ہیں، اس سے پہلے کہ نرینددر مودی وہاں آکر اپنے نئے نئے وعدے کریں، جنہیں آج عوام صاف جھوٹ سمجھنے لگے ہیں۔
راہل گاندھی کی ریلی ۔ تصویر: آئی این این
۲۰۱۴ ءکے عام انتخابات کی یاد تازہ کیجئے، یہ ایک تاریخی الیکشن تھا، یہ وہی زمانہ تھا جب نریندر مودی وزیر اعظم کے طور پر نمائندہ تھے۔ اس زمانہ میں پرشانت کشور بی جے پی کے انتخابی مشیر بلکہ کارساز تھے۔ انہوں نے ایک نئی ٹرک اپنائی تھی۔ جس صوبہ میں جہاں کہیں سونیا گاندھی کی الیکشن ریلی ہوتی تھی، کیونکہ اس وقت وہی کانگریس کی انچارج سمجھی جاتی تھیں ،تو پرشانت کشور ان کے جلسہ کے اگلے دن نریندر مودی کی میٹنگ رکھوادیا کرتے تھے۔ نریندر مودی وہاں پہنچ کر ان تمام باتوں یا سوالوں کا جواب دے دیا کرتے تھے جو سونیا گاندھی نے پچھلے دن کہی تھیں ۔ ظاہر ہے بعد میں کہی جانے والی بات یادوں میں زیادہ تازہ ہوتی ہے، اس لئے لوگوں کو سونیا سے زیادہ نریندر مودی کی باتیں یا د ہوتی تھیں ، کانگریسی اس نئی چال سے بہت گھبرا تے تھے، اس طرح ہوتا یہ تھا کہ اگر کرکٹ کی کوئی ٹیم میچ کیلئےاپنی پچ تیار کرے تو دوسری ٹیم کو چارو ناچار اسی پچ پر کھیلنا پڑتاہے، اس لئے میچ پچ تیار کرنے والی ٹیم کے نام آتا ہے،راہل گاندھی نے اسے یاد رکھا اور آج دیکھئے کیا ہو رہا ہے۔راہل گاندھی بلکہ اس سے بھی پہلے پرینکا گاندھی ان تمام ریاستوں میں جہاں الیکشن ہونے والے ہیں نریندر مودی کے پہنچنے سے صرف ایک یا دو دن پہلے پہنچ جاتے ہیں ، اس سے پہلے کہ نرینددر مودی وہاں آکر اپنے نئے نئے وعدے کریں ، جنہیں آج عوام صاف جھوٹ سمجھنے لگے ہیں مگر وہ عوام کے سامنے یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر کانگریس نے الیکشن جیت لیا تو وہ یہ وعدے پورے کرے گی۔ یہ بات لوگوں کو زیادہ یاد رہتی ہے، اس کا سلسلہ کرناٹک کے چنائو سے شروع ہوا ۔ پرینکا اور بعد میں راہل نے بھی وہاں جا کر بتایا تھا کہ ا گر ان کی پارٹی جیتتی ہے تو وہ کرناٹک کے عوام کو پانچ ائیٹم دیں گے اور الیکشن جیتنے کے بعد انہوں نے وہ پانچ آئیٹم دے بھی دیئے، یہی آج مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ میں ہو رہا ہے۔ راہل اور پرینکا وہاں لوگوں سے نہ صرف وعدے کر رہے ہیں بلکہ انہیں یہ بھی یاد دلاتے ہیں کہ انہوں نے کرناٹک میں وہ وعدے پورے بھی کر دکھائے ہیں ۔ مودی سرکار جواب ڈھونڈتے ہی رہ جاتے ہیں ، نریندر مودی کیلئے یہ بھی مشکل ہے کہ وہ کسی بھی صوبہ میں اپنی حکومت کی کارگزاریاں گناتے بھی ڈرتے ہیں ، کارگزاریوں کے نام پر تو فائل بالکل خالی ہے۔غور سے دیکھئے تو راہل کی باتوں کا ایک ہی جواب نظر آتا ہے۔ جواب یہ ہے کہ راہل گاندھی نے عوام کے قریب جانا شروع کر دیا ہے،یہ ایک فطری عمل ہے جب کوئی لیڈر عوام کے قریب جاتا ہے تو اس میں ہوتا یہ ہے کہ عوام خود کو بھی اس لیڈر کے قریب سمجھنے لگتے ہیں ۔
راہل کسانوں کے پاس گئے، کام کاج کرنے والوں کے پاس گئے، ٹرک اور رکشہ چلانے والوں کے پاس گئے اور سب سے بڑی بات یہ کہ وہ نوجوانوں کے پاس گئے، ان سے پوچھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور ان کی باتیں سن کر اپنی پڑھائی اور مطالعہ کے مطابق جو بہت زیادہ ہے، انہیں مشورہ بھی دیتے رہے کہ انہیں آگے کیا کرنا چاہئے اور کیا نہ کرنا چاہئے۔ یہ تمام لوگ یہ سمجھنے لگے کہ یہ سیاسی لیڈر تو ضرور ہیں ، لیکن یہ عوام کے بارے میں جاننا چاہتا ہے اور ان کے درد اور دکھ کو بانٹنا چاہتا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ یہ سب تو سیاسی ڈراما بازی ہے، یقیناً ہم بھی یہی سمجھتے ہیں لیکن پچھلے چند دنوں سے ہم پر یہ بھی کھلا ہے کہ یہ سیاست تو ضرور ہے لیکن ڈراما ہر گز نہیں ہے، اگر یہ صرف ڈراما ہوتا تو اس ملک کے سیاسی اسٹیج پر راہل سے بھی زیادہ بڑے ڈراما کارموجود تھے، نام بتانے کی ضرورت نہیں ، لیکن عوام انہیں اچھی طرح پہچانتے ہیں ، کچھ ڈراما کار بلکہ ڈراما ساز تو ایسے بھی ہیں کہ وہ یہ نظر رکھتے ہیں کہ کیمرہ کہاں رکھا ہے۔
ایک اور بات یاد رکھئے ، راہل نے شروع شروع میں بہت دھرم کرم کی بات کی، ہم یہ نہیں کہتے کہ کسی سیاست داں کو دھرم کرم کی بات کرنا ہی نہیں چاہئے، اگر کسی کو دھرم کرم سے دلچسپی ہے تو اسے یقیناًاس کی بات کرنی چاہئے، ہم یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اصل مسائل بے روز گاری اور مہنگائی ہے، وہ جان چکے ہیں کہ دھرم کرم کی باتیں ان مسائل سے توجہ ہٹانے کے مترادف ہیں ، انہیں معلوم ہے کہ اصل مسئلہ ذات پات کی بناپر مردم کی نشاندہی ہے، کیونکہ او بی سی ہی ہندوؤں کی تعداد کا ۵۲ ؍فیصد ہے، راہل سے پہلے کوئی سیاست داں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ عوام سے یہ وعدہ کرے کہ ان کی پارٹی جہاں کہیں الیکشن جیتی وہاں بچوں کو انگریزی میڈیم دیں گے، اسے بھی جذباتی مسئلہ بنایا گیا تھا، وہ جانتے ہیں کہ غریب غربا ءاپنے بچوں کو انگریزی میڈیم سے پڑھا نا چاہتے ہیں کہ اچھی ملازمت انگریزی زبان والوں کو ہی ملتی ہے ۔راہل یہ بھی جانتے ہیں کہ جب وہ غریب جنتا سے یہ کہتے ہیں کہ لڑکوں کو ہندی پڑھانا بھی سیاسی ایجنڈہ ہے، جب وہ یہ کہتے ہیں کہ وہ تمام سیاست داں جوہندی پڑھانے کی ترغیب دیتے ہیں تو ان کے اپنے بچے انگلش میڈیم میں کیوں علم حاصل کرتے ہیں ۔ شاید راہل کی سیاست کاسب سے بڑا مقصد یہی ہے کہ انہوں نے صرف پچ کیلئے نہیں بلکہ حریف کیلئے بھی الیکشنوں کا ایجنڈہ بدل دیا ہے ، ہم اسے بہت بڑی بات سمجھتے ہیں ۔
ایک بات اور سمجھ لیجئے۔ہم جب اوبی سی کی بات کرتے ہیں تو ایسا نہیں ہے کہ یہ مسئلہ پہلے کسی نے نہ اٹھایا ہو جتنی علاقائی پارٹیاں وہ تمام کی تمام ذات پات کی بنیاد پر ہی بنیں ۔ہرپارٹی کا لیڈر یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اوبی سی کی ذات سے ہے جس ذات سے صرف اسی کا بھلا ہو۔ راہل گاندھی وہ پہلے سیاستداں ہیں جنہوں نے تمام کے تمام اوبی سی کی بات کی ہے۔ جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہندوستان کے ۹۰؍ سیکریٹریز میں سے صرف ۳؍ اوبی سی ہیں تو وہ تمام اوبی سی کو پیغام دیتے ہیں کہ آج کی کانگریس اوبی سی کے ساتھ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام علاقائی لیڈروں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس وقت عام عوام راہل گاندھی اور اُن کی کانگریس پارٹی کو اوبی سی کا صحیح نمائندہ سمجھتے ہیں ۔ اس وقت یہ سمجھاجارہا ہے کہ کانگریس پارٹی تمام اوبی سی تمام دلت پارٹی اور تمام اقلیتوں کی نمائندہ ہے۔ ہم یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ۱۹۵۲ءکے بعد سے آج تک کسی کانگریس لیڈر نے ایسی جرأت دکھانے کی کوشش نہیں کی۔