Inquilab Logo Happiest Places to Work

روایتی بمقابلہ غیر روایتی طریقۂ تدریس

Updated: November 05, 2023, 1:38 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

اُردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’دوڑو زمانہ قیامت کی چل گیا‘‘۔ جس دور میں یہ مصرعہ کہا گیا ہوگا تب اُس کی معنویت اتنی نہ رہی ہوگی جتنی کہ موجودہ دور میں ہے۔

Changing education and teaching and making it more non-traditional is the need of the hour. Photo: INN
تعلیم و تدریس کو بدلنا اور زیادہ سے زیادہ غیر روایتی بنانا وقت کا تقاضہ ہے ۔تصویر:آئی این این

 اُردو کا مشہور مصرعہ ہے ’’دوڑو زمانہ قیامت کی چل گیا‘‘۔ جس دور میں  یہ مصرعہ کہا گیا ہوگا تب اُس کی معنویت اتنی نہ رہی ہوگی جتنی کہ موجودہ دور میں  ہے۔ ٹیکنالوجی کی وجہ سے واقعی زمانہ ایسی چال چل گیا ہے کہ حیرت خود محو حیرت ہوگی اور سوچتی ہوگی کہ اس ترقی کو کیسے انگیز کیا جائے۔ 
 ایسے دور میں  تعلیم و تعلم کو بھی غیر معمولی حد تک بدل جانا چاہئے تھا۔کئی بیرونی ملکوں  میں  ایسا ہوا ہے مگر ہمارے ملک میں  نہیں ۔ ہمارے یہاں  آج بھی طرز تعلیم روایتی ہے۔اس میں  شک نہیں  کہ اب پڑھائی لکھائی کھلے میدان میں  پیڑ کے نیچے نہیں  ہوتی (اب بھی کہیں  کہیں  ایسا ہے) بلکہ اسکولوں  کی کئی منزلہ عمارتیں  تعمیر ہوچکی ہیں ، سائنسی تجربہ گاہیں  اور کمپیوٹر روم قائم ہوچکے ہیں  مگر تدریس کے طریقے میں  کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما نہیں  ہوئی ہے جبکہ حالات غیر معمولی طور پر بدل چکے ہیں ۔ ہماری روایتی تعلیم و تدریس کے مقابلے میں  بیرونی ملکوں ، بالخصوص اُن ملکوں  میں  جنہیں  مختلف کسوٹیوں  پر پرکھنے کے بعد قابل ستائش گردانا جاتا ہے، طرز تدریس زیادہ سے زیادہ عملی اور سمجھانے کے طریقے جدید تر ہیں ۔ ہماری تدریس کلاس روم تک محدود رہتی ہے جبکہ دیگر ملکوں  کی تدریس ’’نان کلاس روم ٹیچنگ‘‘ کے زمرے میں  آتی  ہے۔ ہمارے کلاس روم میں  طلبہ کو معلومات کے حصول کی ترغیب دلائی جاتی ہے جبکہ بیرونی ملکوں  کے کلاس روم میں  طلبہ کو بحث و مباحثہ میں  حصہ لینے اور ازخود معلومات کشید کرنے کی کی دعوت دی جاتی ہے۔ ہماری تدریس نالج بڑھانے پر اصرار کرتی ہے جبکہ بیرونی ملکوں  کی تدریس تجربہ کرنے پر اُکساتی ہے۔ ہماری اعلیٰ تعلیم گاہوں  میں  تحقیقی ذہن پیدا کرنے پر توجہ نہیں  دی جاتی جبکہ بیرونی تعلیم گاہوں  اور یونیورسٹیوں  میں  تحقیقی و تخلیقی ذہن تیار کرنے کا ہدف طے کیا جاتا ہے۔ اتنا ہی نہیں  اور بھی کئی معاملات میں  ہمارا طریق کار کافی حد تک روایتی ہے جبکہ جن ملکوں  کا شمار ٹاپ ٹین میں  کیا جاتا ہے، وہاں  کئی غیر روایتی طریقے رائج ہیں  جو طلبہ کی شخصیت کو نکھارنے، اُنہیں  جدید انداز میں  سنوارنے اور اُن میں  کئی طرح کی صلاحیتیں  پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
 کیا اسی لئے ہم بہت پیچھے ہیں  اور ایسے طلبہ پیدا کرنے میں  ناکام ہیں  جو دیگر ملکوں  کے طلبہ کے ساتھ بیٹھ کر سائنس وتکنالوجی پر یا بشریات پر بحث و مباحثہ کرسکیں ؟ بڑی حد تک تو یہی وجہ ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کیلئے ایک کام جو بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے وہ موبائل اور انٹرنیٹ کے باوجود نہیں  ہورہا ہے۔ وہ یہ کہ کالجوں  اور یونیورسٹیوں  کے ارباب اقتدار دیگر ملکوں  کے کالجوں  اور یونیورسٹیوں  سے کچھ اس طرح اشتراک کریں  کہ اُن کے اور ہمارے طلبہ کے درمیان مہینے میں  کم از کم ایک مرتبہ کسی موضوع پر تبادلۂ خیال ہو۔ ہم نہیں  سمجھتے کہ اس میں  کوئی دقت ہوسکتی ہے۔ اگر طلبہ کی سطح پر نہیں  تو تبادلۂ خیال کا یہ نظم  اساتذہ کی سطح پر تو ہونا ہی چاہئے۔ اگر یہ نہیں  تو اسی نوع کی کسی دوسری حکمت عملی کے ذریعہ ہم دیگر ملکوں  کی اعلیٰ یونیورسٹیوں  سے استفادہ کرسکتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ اس کیلئے نہ تو اُنہیں  کیمپس فراہم کرنا ہوگا نہ ہی اُن کی شاخیں  قائم کرنا ہونگی جبکہ یہ کام ہورہا ہے، وہ نہیں  ہوتا جس کی طرف بالائی سطور میں  اشارہ کیا گیا ہے۔ یاد رہنا چاہئے کہ طریقہ تعلیم و تدریس کو بدلنا اور زیادہ سے زیادہ غیر روایتی بنانا وقت کا تقاضہ ہے اور اس میں  مزید غفلت نقصاندہ ہی ثابت ہوگی، اس سے فائدہ تو ہرگز نہ ہوگا ۔ 

education Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK