Inquilab Logo

سفرنامۂ علی باغ؛ بلندی سے بحیرۂ عرب پرسکون، چمکتا ساحل اور درختوں کا لامتناہی سلسلہ نظر آتا ہے

Updated: June 01, 2023, 7:00 AM IST | Shahebaz Khan | Mumbai

سفید، خاکی اور سیاہ ریت پر چہل قدمی، لہروں کا شور، پرندوں کی چہچہاہٹ اور غروب آفتاب کے نظارے سے ملنے والا ذہنی سکون مجھے ساحلوں کی جانب کھینچنے کی اہم وجوہات ہیں۔ پاؤں تلے گیلی ریت کا لمس اعصاب کو سکون بخشتا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان کی ساحلی پٹی تقریباً ۵۵؍ سو کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے لیکن ملک میں ساحلوں کی درست تعداد کے متعلق اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ شہر کا شوروغل اور بڑھتی آلودگی لوگوں کو پرسکون جگہ کی تلاش پر اکساتی ہے۔

A floating ferry on the Arabian Sea. Photo: INN
بحیرۂ عرب پر تیرتی فیری۔ تصویر: آئی این این

سفید، خاکی اور سیاہ ریت پر چہل قدمی، لہروں کا شور، پرندوں کی چہچہاہٹ اور غروب آفتاب کے نظارے سے ملنے والا ذہنی سکون مجھے ساحلوں کی جانب کھینچنے کی اہم وجوہات ہیں۔ پاؤں تلے گیلی ریت کا لمس اعصاب کو سکون بخشتا ہے۔ خیال رہے کہ ہندوستان کی ساحلی پٹی تقریباً ۵۵؍ سو کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے لیکن ملک میں ساحلوں کی درست تعداد کے متعلق اعدادوشمار دستیاب نہیں ہیں۔ شہر کا شوروغل اور بڑھتی آلودگی لوگوں کو پرسکون جگہ کی تلاش پر اکساتی ہے۔ بعض افراد پہاڑی مقامات کا رُخ کرتے ہیں تو بعض ساحلوں کا۔ کچھ دن نیلے سمندر کے کنارے گزارنے اور ذہنی سکون کی تلاش میں مَیں نے ممبئی سے کم و بیش ۹۷؍ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع علی باغ جانے کا فیصلہ کیا۔ 
فیری کا سفر
 اب منصوبہ بنانا تھاکہ علی باغ تک پہنچا کیسے جائے! تمام متبادل پر غور کیا تو فیری سے سفر کرنا زیادہ مناسب لگا کیونکہ منزل تک پہنچے کا تیز ترین ذریعہ یہی ہے۔ انٹرنیٹ پر اس تعلق سے سرچ کرنے کے بعد مَیں نے ایم ٹو ایم کمپنی کی فیری خدمات حاصل کیں۔ آن لائن اے سی ڈیک بک کیا اور اپنی موٹر سائیکل سمیت وقت مقررہ (۸؍ بجکر ۱۰؍ منٹ) سے ۴۰؍ منٹ پہلے ہی بھاؤچا دھکا (مجگاؤں) پہنچ گیا۔ فیری کنارے لگی ہوئی تھی لیکن مسافروں کو سوار نہیں کروایا جارہا تھا۔
بھاؤچا دھکا،مجگاؤں
 واضح رہے کہ بھاؤچا دھکا سے بحیرۂ عرب کا نظارہ کرنے کیلئے بھی فیری ٹکٹ لیا جاسکتا ہے۔ یہاں چھوٹی کشتیاں اور اسٹیمر بھی چلتے ہیں۔ یہ مقامی ماہی گیروں کی ایک بندرگاہ ہے۔ چونکہ فیری پر ابھی مسافر سوار نہیں ہورہے تھے اس لئے مَیں نے ایک ماہی گیر سے یونہی پوچھ لیا کہ روزانہ کتنی مچھلیاں پکڑ لیتے ہو۔ یہ جان کر حیرت ہوئی کہ یہاں سے کم و بیش ڈھائی ہزار میٹرک ٹن مچھلیاں روزانہ نکالی جاتی ہیں۔ اسی دوران لاؤڈ اسپیکر پر فیری پر سوار ہونے کا اعلان ہونے لگا۔ موسم صاف تھا مگر سمندر کی جانب سے آنے والی گرم ہواؤں کے سبب گرمی محسوس ہورہی تھی۔ فیری کنارے لگ گئی۔ جو لوگ اپنی کار سمیت سفر کرنا چاہتے تھے وہ کار سمیت فیری میں داخل ہونے لگے۔ راقم بھی اپنی موٹر سائیکل کے ساتھ فیری میں سوار ہوگیا۔ اس دوران فیری کا اسٹاف رہنمائی کررہا تھا۔ 
فیری سے مانڈوا تک
 یہ تین منزلہ فیری کسی آنگن والے مکان کی طرح تھی۔ درمیان میں آنگن یعنی گاڑیوں کو پارک کرنے کی جگہ اور اطراف میں اے سی اورمین ڈیک کی نشستیں۔ فیری کی لمبائی میں دونوں جانب بالکنی بھی تھی جہاں سے مسافر سمندر کا نظارہ کرسکتے ہیں۔ موٹر سائیکل پارک کرنے کے بعد مَیں بالکنی سے ہوتا ہوا اپنی نشست پر پہنچا، اور وہاں سے کافی دیر تک سطح سمندر اور ابھرتے ہوئے سورج کو دیکھتا رہا۔ تمام مسافروں نے اپنی اپنی نشستیں سنبھال لیں، اور مقررہ وقت پر فیری سمندر کے نیم گرم پانی پر تیرنے لگی۔ فیری کی تمام نشستیں بھری نہیں تھیں۔ غالباً آف سیزن کے سبب زیادہ بھیڑ بھاڑ نہیں تھی۔ پارکنگ ڈیک بھی خالی خالی سا تھا۔ علی باغ پہنچنے کیلئے اتنا پرجوش تھا کہ تقریباً ۵۶؍ منٹ کے سفر میں مَیں بمشکل ۱۵؍ منٹ ہی اپنی نشست پر بیٹھا رہا، اس کے بعد سارا وقت فیری میں چکراتا رہا ۔ فیری میں کھانے پینے کا بھی بندوبست تھا۔ اگر آپ نے پریمیم ٹکٹ لیا ہے تو آپ کو کھانے پینے کی بعض اشیاء مفت ملیں گی۔ کم قیمت والا ٹکٹ لینے پر آپ کو انہیں خریدنا پڑے گا۔ 
 صبح کے وقت سمندر کی گرم ہوائیں، بائیں جانب ممبئی شہر جو کچھ دیر تک نظر آتا ہے،پھر پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے، دائیں جانب بحیرۂ عرب کا نیلا پانی، چہار سو خاموشی میں گاہے بگاہے سمندری بگلوں کے غول کے غول آواز لگاتے ہوئے ساتھ اُڑتے ہیں، پھر آگے نکل جاتے ہیں۔ اس خاموشی میں فیری کے ہارن کی بھاری آواز عجیب معلوم ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ سمندری طوفان یا خراب موسم میں گیٹ وے آف انڈیا سے علی باغ کی فیری خدمات بند کردی جاتی ہیں۔
مانڈوا سے علی باغ
 مانڈوا آتے ہی فیری ساحل سے لگ گئی اور جو لوگ اپنی گاڑیوں سمیت فیری میں سوار ہوئے تھے ایک کے بعد ایک نکلنے لگے۔ اس عمل میں تقریباً ۲۰؍ منٹ صرف ہوئے۔ مقامی رکشا اور ٹیکسی ڈرائیور ان مسافروں کی جانب لپکنے لگے جو اپنی گاڑیاں نہیں لائے تھے۔ مَیں نے گوگل میپ پر علی باغ سیٹ کیا، اور اپنی موٹر سائیکل لے کر نکل پڑا۔
 یہاں کے راستے زیادہ کشادہ نہیں ہیں۔ لیکن دونوں جانب سے درختوں سے ڈھکے ہوئے ہیں۔ راستے میں بعض موڑ ایسے بھی آئے جہاں درخت اتنے گھنے ہیں کہ آسمان نظر نہیں آتا۔ ان راستوں پر واقع بستیوں کے درمیان چند کلومیٹر ہی کا فاصلہ ہے۔ راستوں کے کنارے چھوٹے چھوٹے جنرل اسٹور ہیں۔ تاڑ گولا، ناریل، املی، کیلے، کیری اور بیر جیسی اشیاء فروخت کرنے کیلئے مقامی خواتین راستے کے کنارے ٹوکریاں لے کر بیٹھی ہوئی تھیں۔بعض خواتین جھینگے اور مچھلیاں بھی فروخت کرتی نظر آئیں۔ سمندر کی خوشبو مسلسل ساتھ تھی۔ درحقیقت، مجھے یہاں کے ساحلوں سے زیادہ موٹر سائیکل سے مانڈوا سے علی باغ تک کے سفر میں لطف آیا۔ 
ساحلوں کا نظارہ
 خیال رہے کہ مانڈوا سے علی باغ تک جانے والے راستے میں دائیں جانب چھوٹے چھوٹے موڑ آتے ہیں، ان پر بمشکل ۳؍ سے۶؍ کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے آپ ساحل پر پہنچ سکتے ہیں۔ اس دوران تقریباً ۱۰؍ ساحل آتے ہیں جن میں مانڈوا بیچ، علی باغ بیچ، کاشد بیچ، ناگاؤں بیچ، کاسم بیچ، ساسونے بیچ، آوس بیچ، کیہیم بیچ، تھال بیچ اور وارسولی بیچ کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ تمام ساحل بہت خوبصورت ہیں۔ ایک جانب نیلا سمندر، درمیان میں خاکی ریت اور پھر ناریل اور تاڑ کے سبزدرختوں کا جھنڈ۔ اگر کوئی فضا سے دیکھے تو زمین پر تین رنگوں کا امتزاج نظر آئے۔ بیشتر ساحلوں پر ترتیب سے لگی رنگ برنگی چھتریاں پورے منظر کو رنگین کردیتی ہیں۔ لوگ سمندر کے پانی سے کھیلتے ہیں، اور پھر ان چھتریوں کے سائے تلے آرام کرتے ہیں۔ ناریل کا پانی پیتے ہیں اور لہروں سے کھیلتے ہوئے ڈھیر ساری تصویریں نکالتے ہیں۔
واٹر اسپورٹس
 چونکہ مجھے ایڈونچر کا شوق ہے اس لئے مَیں نے ۳؍ دن کے اپنے ٹرپ پر ہر واٹر اسپورٹس کا لطف اٹھایا۔ بنانا رائیڈ ہو، زوربنگ ہو، پیراسیلنگ ہو یا اے ٹی وی رائیڈ، سبھی اسپورٹس اپنے آپ میں منفرد ہیں۔ پیراسیلنگ کا لطف یہ ہے کہ آپ بلندی سے نیلے سمندر کو دیکھ سکتے ہیں جبکہ دوسری جانب ناگاؤں قصبہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح بلندی سے ناریل اور تاڑ کے درختوں کا لامتناہی سلسلہ سیاح کو حیران کردیتا ہے کہ ان کی کوئی حد بھی ہے یا نہیں۔
 اگر آپ کو ساحلوں اور واٹر اسپورٹس سے رغبت ہے تو علی باغ کا سفر ضرور کیجئے، اور تمام واٹر اسپورٹس میں حصہ لیجئے۔ تاہم، اگر آپ ساحل پر یا تپتے سورج تلے کافی وقت گزارتے ہیں تو اپنے ساتھ سن اسکرین، ہیٹ اور سن گلاسیز لے جانا نہ بھولیں۔ 
ممبئی سے علی باغ کیلئے ٹرین اور فیری کی معلومات
۔ بعض الیکٹرک ٹرینیں روہا سے دیوا اور دیوا سے روہا تک چلتی ہیں جو پین اسٹیشن پر بھی رکتی ہیں۔ اسی طرح دادر سے رتنا گیری اور دیوا سے سندھو درگ جانے والی ٹرینیں بھی پین پر کچھ دیر کیلئے رکتی ہیں۔
۔ تاہم، پین اسٹیشن سے علی باغ جانے کیلئے بائے روڈ کم سے کم ۳۰؍ منٹ کا سفر ہے جو آپ کو اسٹیشن کے باہر مقامی ٹیکسی اور رکشا والے کم قیمت میں پہنچا سکتے ہیں۔
۔ ممبئی سے علی باغ کیلئے ۴؍ کمپنیاں (پی این پی، ملدھار، اجنتا، ایم ٹو ایم) فیری خدمات فراہم کرتی ہیں۔ فیری میں تین قسم کی نشستیں ہوتی ہیں؛ مین ڈیک، اے سی ڈیک اور اپر ڈیک۔
۔ صبح ۶؍ بجے سے ہر ۱۵ ؍ منٹ میں ایک فیری علی باغ کیلئے روانہ ہوتی ہے اور آخری سروس شام ۸؍ بج کر ۱۵؍ منٹ کی ہوتی ہے۔
۔ ایم ٹو ایم واحد ایسی کمپنی ہے جس کی فیری خدمات لینے کیلئے آپ کو آن لائن بکنگ کرنی ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، اس کمپنی کی فیری بھاؤچا دھکا سے روانہ ہوتی ہے البتہ باقی تین کمپنیوں کے ٹکٹ گیٹ وے آف انڈیا سے براہ راست حاصل کئے جاسکتے ہیں، اور یہیں سے سفر کا آغاز کرنا ہوتا ہے۔ 
۔ واضح رہے کہ ایم ٹو ایم کمپنی کی فیری علی باغ سے مانڈوا (علی باغ) تک جاتی ہے۔ مانڈوا علی باغ ہی کا حصہ ہے لیکن یہ قصبے سے ۳۰؍ منٹ دور ہے۔اگر آپ قصبہ تک جانے کی تمنا رکھتے ہیں تو مانڈوا سے آپ کو مقامی ٹیکسی یا رکشا سے جانا ہوگا۔
۔ فیری کا کرایہ ۱۳۵؍ روپے سے ۱۸۰۰؍ روپے تک ہوتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ فیری سے اپنی موٹر سائیکل اور کار وغیرہ بھی لے جاسکتے ہیں جس کیلئے آپ کو علاحدہ کرایہ دینا ہوگا۔ دو پہیہ گاڑی کیلئے ۲۱۰؍ روپے اور چار پہیہ گاڑیوں کیلئے ۸۰۰؍ سے ۱۲۰۰؍ روپے کے درمیان۔ 
۔ اگر آپ اپنی یا کرائے کی گاڑی سے جاتے ہیں تو علی باغ میں گھومنے پھرنے کیلئے آپ کو رکشا یا ٹیکسی وغیرہ لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK