دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے۔
EPAPER
Updated: March 16, 2024, 12:23 PM IST | Professor Dr. Najeebul Haq | Mumbai
دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے۔
آنکھ کا روزہ: ’’اے نبیؐ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جوکچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔ ‘‘(النور:۳۰)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ نظر، شیطان کے تیروں میں سے ایک زہر میں بجھا ہوا تیر ہے، پس جس نے اللہ تعالیٰ کے خوف سے نظرِ بد کو ترک کر دیا، اللہ تعالیٰ اس کو ایسا ایمان نصیب فرمائیں گے کہ اس کی حلاوت کو اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ (رواہ الحاکم )
کان کا روزہ: حرام اور مکروہ چیزوں کے سننے سے پرہیز رکھے، کیونکہ جو بات زبان سے کہنا حرام ہے اس کا سننا بھی حرام ہے۔
زبان کا روزہ: زبان کی حفاظت کرے اور اس کو بے ہودہ باتوں، جھوٹ، غیبت، چغلی، جھوٹی قسم اور لڑائی جھگڑے سے محفوظ رکھے۔ اسے خاموشی کا پابند بنائے اور ذکر و تلاوت میں مشغول رکھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’روزہ ڈھال ہے، پس جب تم میں کسی کا روزہ ہو تو نہ کوئی بے ہودہ بات کرے، نہ جہالت کا کوئی کا م کرے، اور اگر اس سے کوئی شخص لڑے جھگڑے یا اسے گالی دے تو کہہ دے کہ میر ا روزہ ہے۔ ‘‘( بخاری)
کس قدر عجیب بات ہے کہ اللہ کے حکم پر ہم روزے میں سحری سے لے کر افطاری تک حلال کھانے سے تو پرہیز کرتے ہیں لیکن اسی اللہ نے قرآن مجید میں جس چیز (یعنی غیبت ) کو مُردہ بھائی کا گوشت کھانا قرار دیا ہے، اس حرام کو ہم رغبت سے کھاتے ہیں، نعوذ بک من ذٰلک!
’’اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو، بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ تجسّس نہ کرو۔ اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھِن کھاتے ہو۔ اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔ ‘‘(الحجرات ۴۹:۱۲)
منہ اور پیٹ کا روزہ: افطارکے وقت حلال کھانے میں بھی بسیار خوری نہ کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ’’پیٹ سے بدتر کوئی برتن نہیں، جس کو آدمی بھرے۔ ‘‘ (احمد والترمذی وابن ماجہ والحاکم)۔ اگر شام کو دن بھر کی ساری کسر پوری کرلی تو روزہ سے شیطان کو مغلوب کرنے اور نفس کی شہوانی قوت توڑنے کا مقصد حاصل کرنا مشکل ہو گا۔ افطار کے وقت پیٹ میں کوئی مشتبہ چیز نہ ڈالے، کیونکہ اس کے کوئی معنی نہیں کہ دن بھر تو حلال سے روزہ رکھا اور شام کو حرام چیز سے روزہ کھولا یا روزہ کھولتے ہی حرام پینےیا کھانے میں مشغول ہو جائے۔
افطار کے وقت روزہ دار حالت ِ خوف اور امید کے درمیان مضطرب رہے کہ نہ معلوم اس کا روزہ اللہ تعالیٰ کے یہاں مقبول ہوا یا مردُود ؟ بلکہ یہی کیفیت ہر عبادت کے بعد ہونی چاہیے۔ اور مقدور بھر کوشش کے بعد اللہ پر اچھا گمان رکھا جائے۔
دل کا روزہ: دل کا حقیقی اور اعلیٰ روزہ یہ ہے کہ دُنیوی افکار سے قلب کار وزہ ہو، اور ماسوااللہ سے اس کو بالکل ہی روک دیا جائے۔ البتہ وہ دُنیا جو دین کے لئے مقصود ہو، وہ تو دُنیا نہیں بلکہ توشہ ٔ آخرت ہے۔ چار چیزوں کی کثرت سے پرہیز کیا جائے: طعام، کلام، نیند اور اختلاط اور ان راستوں کی نگہبانی کی جائے جہاں سے دل کی بیمار ی لاحق ہونے کا خدشہ ہوتا ہے یعنی آنکھ، کان، زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی جائے۔
بقیہ اعضاء کا روزہ: ہاتھ پاؤں اور دیگر اعضاء کو حرام اور مکروہ کاموں سے محفوظ رکھنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو۔ یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پُرس ہونی ہے۔ ‘‘
(بنی اسرائیل: ۳۶)
رمضان کی آخری شب مغفرت کا پروانہ ہـے: ہمیں لیلۃ القدر کی فضیلت تو یاد رہتی ہے اور ہونی بھی چاہئے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جس میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’بخشش کی جاتی ہے میر ی اُمّت کی رمضان کی آخری رات میں۔ عر ض کیا گیا: یا رسول ؐاللہ! کیا یہ لیلۃ القدر ہوتی ہے؟ فرمایا:نہیں۔ بلکہ کا م کرنے والے کی مزدوری اس کا کا م پورا ہونے پر ادا کر دی جاتی ہے۔ ‘‘(مسنداحمد) ہمیں یہ رات فضولیات اور خرافات میں نہیں بلکہ عبادات اور دوسرے نیک اعمال میں گزارنی چاہئے کہ معلوم نہیں پھر یہ رات ہمیں نصیب ہو یا نہ ہو۔
اللہ ہمیں روزے کی حقیقت اور اس کے مقصد کو سمجھنے کا فہم عطا فرمائےا ور ایسا روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے جس سے ہم تقویٰ حاصل کر سکیں۔ اللہ ہمارے روزے قبول فرمائےاور ہمیں ان لوگوں میں شامل کرے جن کو روزے رکھنے پر بخشش کی بشارت دی گئی ہے۔ آمین یا ربّ العالمین!