مودی جی کے ’’ نمستے ٹرمپ‘‘ کے بعد امید کی جارہی ہے کہ نومبر میں ، امریکہ میں مقیم ہندوستانی برادری کا ووٹ ٹرمپ کو ملے گا۔ علاوہ ازیں تین ارب ڈالر کے امریکی جنگی ساز و سامان کی خریداری کا معاہدہ کرکے مودی نے ٹرمپ کی جھولی بھی بھردی۔
EPAPER
Updated: February 26, 2020, 2:56 PM IST
|
Parvez Hafiz
مودی جی کے ’’ نمستے ٹرمپ‘‘ کے بعد امید کی جارہی ہے کہ نومبر میں ، امریکہ میں مقیم ہندوستانی برادری کا ووٹ ٹرمپ کو ملے گا۔ علاوہ ازیں تین ارب ڈالر کے امریکی جنگی ساز و سامان کی خریداری کا معاہدہ کرکے مودی نے ٹرمپ کی جھولی بھی بھردی۔ عالم پناہ ڈونالڈ ٹرمپ، ملکہ ٔعالیہ ملانیا اور شہزادی ایوانکا کی نازک نگاہوں کو مفلسوں کی ان گندی بستیوں کے بدنما نظارے سے محفوظ رکھنے کی خاطر جو اس شاہراہ کے قریب واقع ہیں جن سے ہوکر امریکی مہمانوں کی کاروں کا قافلہ ایئر پورٹ سے پیر کے دن موٹیرا اسٹیڈیم پہنچا، احمدآباد کی بلدیاتی انتظامیہ نے پانچ فٹ اونچی اور نصف کلومیٹر طویل دیوار تعمیر کرادی۔
نریندر مودی وکاس کے جس ماڈل کا ڈھنڈورا پیٹ کر چھ برسوں سے ہندوستان پر راج کررہے ہیں وہ ’’گجرات ماڈل‘‘ دراصل یہی ہے۔ لوگوں کے روز مرہ کے مسائل حل نہ کرسکو تو انہیں لوگوں کی نظروں سے اوجھل کردو۔ ٹرمپ کا یہ دورہ بھی در اصل مودی جی کی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ دو ماہ سے بھی زیادہ عرصے سے ملک بھر میں متنازع شہریت قانون کے خلاف عوامی مظاہرے ہو رہے ہیں اور ان کی بازگشت بیرون ملک بھی سنائی دے رہی ہے۔ دریں اثناء بی جے پی کو دہلی میں ذلت آمیز شکست کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ اس پوری ناگوار صورتحال سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئےکسی ماہر سیاسی بازی گر کی مانند مودی جی نے امریکہ سے ٹرمپ کو برآمد کر لیا۔ گودی میڈیا کے بھرپور تعاون سے اب پورے ملک پر ٹرمپ کا خمار چھا گیا ہے۔ احمدآباد میں صرف تین گھنٹے کے تماشےکیلئے سو کروڑ روپے لٹا دیئے گئے۔ آخر ٹرمپ کے بقول ہمارے وزیر اعظم نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ان کے شاہانہ استقبال کیلئے ہندوستان کی اب تک کی سب سے زیادہ عظیم الشان تقریب منعقد کی جائے گی۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مودی نے انہیں یہ مژدہ ٔجانفزا سنایا ہے کہ ان کے سواگت کیلئے ایئر پورٹ سے اسٹیڈیم تک دس ملین (ایک کروڑ) لوگ روڈ کے دونوں جانب کھڑے رہیں گے۔ (بیچارے ٹرمپ کو کیا پتہ کہ احمدآباد کی کل آبادی ۶۰؍ لاکھ سے بھی کم ہے؟)
در اصل مودی جی کی حکومت شروع سے ہی اس قسم کے ’’تماشوں‘‘ کے سہارے چل رہی ہے۔ نوٹ بندی ہو یا سرجیکل اسٹرائیک، تین طلاق پر پابندی ہو یا کشمیر کی خود مختاری کا خاتمہ۔ ملک کو درپیش سلگتے مسائل کی جانب سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے،مودی سرکا ر ایک کے بعد ایک تماشے کرتی رہتی ہے۔ ملک کی معیشت زمیں بوس ہوچکی ہے، بے روزگاری نصف صدی کی بدترین سطح پر ہے، ضروری اشیاء کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اورعام ہندوستانی کی زندگی بے حد دشوار ہوگئی ہے۔ اپنی نااہلی کو چھپانے کے لئے مودی سرکار ایک طرف تو مسلسل تماشے دکھا کر عوام کو بہلا رہی ہے اور دوسری جانب، شہریت کے متعصبانہ قوانین کے ذریعہ شہریوں کے درمیان تفریق اور تعصب کی دیواریں اٹھارہی ہے۔
ٹرمپ نے اپنے دورے سے چند دن قبل یہ شکایت کی تھی کہ ہندوستان امریکہ کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا ہے اور اس کے فوراً بعد انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مودی کو بے حد پسند کرتے ہیں۔ ٹرمپ کی زبان سے ہندوستان کے متعلق اس طرح کے معاندانہ خیالات کا اظہار سفارتی آداب کی کھلی خلاف ورزی تو تھی لیکن اس سے ہمیں یہ بات سمجھ میں آگئی کہ امریکہ اور ہندوستان کے تعلقات خواہ جیسے بھی ہوں امریکی صدر اور ہندوستانی وزیر اعظم کے ذاتی مراسم بے حد مستحکم ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کے ایک تازہ مضمون میں تجزیہ نگار پنکج مشرا نے لکھا ہے کہ میڈیا میں اگلے کئی دنوں تک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریتوں کے’’مشترکہ اقدار‘‘کے چرچے ہوں گے۔لیکن آج امریکہ اور ہندوستان کے درمیان اہم ترین مشترکہ اقدار دراصل ٹرمپ اور مودی کے اقدار ہیں۔مشرا کے مطابق دونوں’’ ڈھونگی‘‘ ہیں جو ابتدائی طور پر کامیاب رہتے ہیں لیکن بعد میں جب وہ ہر محاذ پر ناکام ہوجاتے ہیں تو جھوٹ اور جارحیت کا سہارا لیتے ہیں۔
ستمبر میں ہیوسٹن کے فٹ بال اسٹیڈیم میں مودی کے لئے ’’ہاؤڈی مودی‘‘ ریلی منعقد کی گئی تھی جس میں ٹرمپ کی موجودگی میں مودی کی جے جے کار کی گئی تھی۔احمدآباد میں ’’نمستے ٹرمپ‘‘ کا اہتمام کرکے مودی جی نے ٹرمپ کا قرض اتارا ہے۔ نو تعمیر شدہ سردار پٹیل اسٹیڈیم کے اسپیکروں پر وہی انگریزی گانے گونج رہے تھے جو امریکہ میں ٹرمپ کے ریلیوں میں بجائے جاتے ہیں۔ مواخذے سے بچ نکلنے کے بعد وہائٹ ہاؤس میں دوسری اننگز کھیلنےکیلئے ٹرمپ نے پورا زور لگا رکھاہے۔ نومبر میں ہونے والے اگلے صدارتی الیکشن کیلئے وہ امریکہ میں گھوم گھوم کر انتخابی ریلیوں سے خطاب کررہے ہیں تاہم ٹرمپ کی سب سے بڑی انتخابی ریلی کسی امریکی شہر میں نہیں بلکہ۸۰۰۰؍ کلو میٹر دور احمد آباد کے سردار پٹیل کرکٹ اسٹیڈیم میں پیر کے دن منعقد کی گئی۔امریکہ میں چالیس لاکھ ہندوستانی باشندے رہتے ہیں جو روایتی طور پر ڈیموکریٹک پارٹی کے وفادار ووٹر ہیں۔ مودی جی کے ’’ نمستے ٹرمپ‘‘ کے بعد امید کی جارہی ہے کہ نومبر میں ان کے ووٹ کا ایک بڑا حصہ ٹرمپ کو ملے گا۔ علاوہ ازیں تین ارب ڈالر کے امریکی جنگی ساز و سامان کی خریداری کا معاہدہ کرکے مودی نے ٹرمپ کی جھولی بھی بھردی۔
پانچ ماہ قبل ٹکساس کی ریلی میں مودی نے اعلان کیا تھا کہ’’ہندوستان میں سب اچھا ہے۔ پیر کے دن احمدآباد کی ریلی سے بھی دراصل انہوں نے دنیا کو یہی پیغام دینا چاہا کہ وہ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہونے والے عوامی احتجاج پر دھیان نہ دے کیونکہ ہندوستان میں سب کچھ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ان کے اس دعوے پر صداقت کی مہر لگانے کیلئے ٹرمپ وہاں بہ نفس نفیس موجود تھے۔ لیکن مودی سرکار کی،دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی یہ کوشش قدرت کو شاید پسند نہیں آئی اسی لئے جس وقت مودی جی احمدآباد میں بڑی شان سے ہندوستان کی’’ تکثیریت میں وحدت‘‘ کی خوبی بیان کرکے یہ اعلان کررہے تھے کہ ہندوستانی ساری دنیا کو ایک پریوار مانتے ہیں، اسی وقت دہلی میں ان کے اندھے بھکت اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے۔
پس نوشت: ٹرمپ نے اپنی تقریرمیں متعدد بار ہندوستان کی مذہبی اور لسانی تنوع، قومی اتحاد اور آئین کے تحت شہریوں کو دی گئی آزادی اورحقوق کی کافی تعریف کی۔’’آپ کے ملک کو دنیا بھرمیں اس لئے احترام اور تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے کیونکہ یہاں لاکھوں ہندو،مسلم،سکھ،جین،بدھسٹ، عیسائی اور یہودی مکمل ہم آہنگی اور آزادی سے اپنے اپنے عقائد کے مطابق عبادت کرتے ہیں۔ آپ کا اتحاد دنیا بھرکیلئے ایک مثال ہے۔‘‘ ٹرمپ دراصل مودی جی کو یہ پیغام دے رہے تھے کہ وہ ہندوستان کے اس عظیم اور قابل رشک تہذیبی، سماجی اور ثقافتی اثاثے کو سنبھال کر رکھیں۔