Inquilab Logo

عارضی اور ابدی زندگی کے فرق کو سمجھنے کی کوشش کیجئے

Updated: September 15, 2023, 1:36 PM IST | Mujahid Nadvi | Mumbai

دل کے شیطانی حربے انسان کو آخرت کے معاملے میں غفلت میں ڈال دیتے ہیں ۔ایک ا ہم شیطانی حربہ جو انسان کو آخرت کی تیاری سے محروم کردیتا ہے یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ وہ اپنا آج دنیاکیلئے لگالے اور اپنا کل آخرت کیلئے وقف کردے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ جس کل کی بات کررہا ہے وہ کبھی آئے گا ہی نہیں !

Worrying about improving tomorrow through today makes one forget about the hereafter. Photo: INN
آج کے ذریعے کل کو بہتر بنانے کی فکر انسان کو آخرت سےغافل کردیتی ہے۔ تصویر:آئی این این

اگر کسی انسان کو ایک خطیر رقم دے کر یہ کہا جائے کہ اس کو جیسا چاہے خرچ کرو، لیکن تمہارے پاس صرف آج کا دن ہے کل صبح تمہیں قتل کردیا جائےگا، تو کون سا انسان ہوگا جس کو آج وہ دولت چاہے وہ کروڑوں روپے ہو، اس میں کوئی لطف اور مزا آئے گا؟ اس لئے کہ وہ انسان اگر کچھ کھائے گا تو بے مزا لگے گا، وہ کوئی اچھا لباس نہیں خریدے گا کہ مجھے یہ پہننا نصیب ہی نہیں ہوگا، وہ کوئی گھر نہیں بنائے گا او رکہے گا میں اس میں رہنے والا تو ہوں نہیں ۔ اس طرح وہ مال ودولت سب بے فائدہ ہوجائے گی۔ اور اگر توفیق خداوندی شامل حال رہی تو وہ انسان بجائے اس کے کہ اس مال و دولت پر نگاہ ڈالے وہ اپنی زندگی کا آخری دن اللہ کی عبادت اور اللہ کی یاد اور اپنے گناہوں کی معافی مانگنے میں گزاردے گا۔ 
یہ مثال ہر انسان کیلئے بالکل عین مناسب ہے اور ہر انسانی زندگی پر صادق آتی ہے۔ ہمارے خالق ومالک نے یہ اعلان فرما دیا ہے کہ :’’ بیشک ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہے۔‘‘ (آل عمران: ۱۸۵) بس فرق اتنا ہے کہ مذکورہ مثال میں انسان کو کل موت کا عندیہ دیا گیا تھا اور اللہ عزوجل نے ایک عام انسان کی موت کو مبہم رکھ دیا ہے، وہ یا تو سو سال بعد آسکتی ہے یا ایک لمحے بعد۔ دنیا کی زندگی کے متعلق اسی نکتے کو کسی عربی شاعر نے کیا ہی خوبصورت انداز میں اجاگر کیا ہے: 
(ترجمہ) :جب تک انسان کی روح موت اور بڑھاپے کے خیالوں میں مبتلا ہے زندہ رہنے میں کوئی لطف نہیں ہے۔ 
قرآن مجید اور سنت رسول کریمﷺ کی مکمل تعلیمات کا نچوڑ اگر دیکھا جائے تو یہی ہے کہ انسان اس دنیا کو اپنا ابدی گھر نہ سمجھے ، اس کو سنوارنے اور نکھارنے میں وقت برباد نہ کرے بلکہ اس دنیا میں ملنے والی زندگی کو آخرت کی زندگی کامیاب بنانے کے لئے صرف کردے۔ یہی حقیقت ہے اور یہی عقلمندی کا تقاضہ بھی ہے جس کی جانب نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ نے اس حدیث میں اشارہ کیاہے:’’ عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اور موت کے بعد کے لئے عمل کرے۔‘‘ (ترمذی) 
حضرت میمون بن مہرانؒ جو ایک مشہور تابعی ہیں ، انسانی دل کو آخرت کی زندگی کے لئے تیاری کرنے کی جانب راغب کرنے کی ایک نہایت ہی اہم ترکیب بتاتے ہوئے کہتے ہیں : ’’ایک بندہ اس وقت تک تقویٰ شعار نہیں بن سکتا جب تک کہ وہ اپنے نفس کا اس سے بھی زیادہ سخت محاسبہ نہ کرے جتنا کہ دنیاوی معاملات میں شریک (پارٹنر) ایک دوسرے کا محاسبہ کرتے ہیں ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے، انسان کادل دھوکے باز شریک (پارٹنر)کی مانند ہے کہ اگر اس سے حساب و کتاب نہ کرو تو تمہارا مال ہضم کرجائے گا۔‘‘
اس دل کے شیطانی حربے انسان کو آخرت کے معاملے میں غفلت میں ڈال دیتے ہیں اور اس کو لمبی لمبی آرزوؤں میں مبتلا کردیتے ہیں ۔ایک سب سے ا ہم شیطانی حربہ جو انسان کو آخرت کی تیاری سے محروم کردیتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ وہ اپنا آج دنیا کے لئے لگائے گا اور اپنا کل آخرت کے لئے وقف کردے گا۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا کہ جس کل کی بات کررہا ہے وہ کبھی آئے گا ہی نہیں ۔ ہمارے قبرستان ان نوجوانوں اور ادھیڑ عمر کے مردوخواتین سے بھرے ہیں جو سوچا کرتے تھے کہ بڑھاپے میں اللہ کی خوب عبادت کرکے پھر سفر آخرت کی راہ لے لیں گے، ایسا سوچنے والے بھول جاتے ہیں کہ اگر عمر طویل ہوئی بھی تو آج کی سستی کوئی ضروری نہیں کہ کل ختم ہوجائے۔ 
دراصل اللہ عزوجل نے دنیا اور آخرت کی زندگی کا فرق نہایت واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے اور ہر کوئی اس کو سمجھتا بھی ہے لیکن یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ پھر وہ اس سفر آخرت کی تیاری کےلئے خود کو وقف کیوں نہیں کردیتاجبکہ یہی بات عقلمندی سے اقرب ترین ہے۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے بے شمار لوگوں کو سب کچھ چھوڑ کر اس سفر پر روانہ ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ وہ عالیشان مکان چھوڑ گئے، اپنا مال ودولت چھوڑ گئے، اپنی سواریاں چھوڑ گئے، یہاں تک کہ اپنے قریبی لوگوں کو بھی روتا بلکتا چھوڑ گئے اور پھر کبھی لوٹ کے نہیں آئے۔ 
کسی بزرگ کے متعلق بڑی ہی پیاری بات مطالعے میں آئی۔ وہ ایک جنازے میں گئے۔ تدفین کے بعد قبر پر کھڑے تھے، سامنے ایک اور شخص کھڑا تھا، اس سے انہوں نے پوچھا: تمہار ا کیا خیال ہے اگر اس انسان کو اللہ عزوجل کچھ دنوں کی زندگی اور مہلت عمل دے دے تو یہ ان دنوں میں کیا کرے گا؟ تو اس شخص نے جواب دیا: یقیناً یہ شخص ان دنوں کو دنیا سے کنارہ کشی اختیارکرکے اللہ کی یاد میں اور گناہوں کی معافی چاہنے میں گزار دے گا۔ یہ سن کر وہ بزرگ بولے: اس کو تو اب دوبارہ یہ مہلت عمل ملنے سے رہی، البتہ تم کو ضرور ملی ہے، تو ہوسکے تو تم ضرور اپنی بچی ہوئی زندگی ان عظیم کاموں میں گزاردینا۔ 
لیکن اس سیدھی سی منطق کو سمجھے کون؟ حضرت انسان کا حال تو یہ ہے کہ وہ تو اس عارضی مکان کو ابدی سمجھ بیٹھے ہیں ، اس سفر کو قیام تصورکرنے لگے ہیں اور انہوں نے اس دنیا کو اپنا دل دے دیا ہے۔ اور جیسے جیسے ان کی عمر آگے بڑھتی ہے اس دنیا سے ان کا دل زیادہ مانوس ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کی یاد آتی بھی ہے تو انسان خود کو یہی سمجھا دیتا ہے کہ ’’ہنوز دلی دور است۔‘‘ پہلے تو ہم اپنے اطراف کے لوگوں اور عزیز و اقارب کے بارے میں سنتے تھے کہ فلاں کا انتقال ہوگیا ہے ، دنیا کے دیگر افراد اس سے فوراً باخبر نہیں ہوتے تھے لیکن اب سوشل میڈیا پر دیگر خبروں کی طرح مرنے والوں کے بارے میں بھی پوسٹ آتی رہتی ہیں ، کچھ کم عمر ہوتے ہیں اور کچھ ایسے اچانک جارہے ہیں کہ چند لمحوں میں زندگی کے کھیل کا اختتام عمل میں آگیا… لیکن ہم ہیں کہ پھر بھی عبرت حاصل نہیں کرتے ۔ 
سچ پوچھا جائے تو ہمارے سارے دنیاوی مسائل کی بھی وجہ یہی ہے کہ ہم دنیاداری میں الجھے ہوئے ہیں اور لمبی لمبی امیدوں نےاپنےخونیں پنجے ہمارے ذہنوں میں کچھ اس طرح پیوست کردئیے ہیں کہ ہمارے ہوش وحواس، ہماری سمجھ، ہماری فکر، ہماری فہم وفراست سب اس دل کی خواہشات کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ ہم نے اپنے آج کے لئے اپنا آنے والا کل (ایسا کل جو کبھی ختم نہ ہوگا) داؤ پر لگادیا ہے۔ 
 منثورات نامی کتاب میں حضرت ابوبکرؓ کے ایک خطبہ میں پڑھے ہوئے عربی زبان کے صرف تین الفاظ یاد آتے ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے کہ ’’ اپنے آپ کو مردوں میں شمار کرو۔‘‘ یعنی انسانی دل کا سب سے بہترین علاج یہ ہے کہ اس کو سمجھا دیا جائے کہ یہ دنیاجو نظر آتی ہے وہ ہے نہیں اور جوحقیقتاً ہے وہ نظر نہیں آتی۔ اس لئے خود کو اس دنیامیں زندہ نہیں بلکہ مردہ سمجھنے میں ہی عافیت ہے۔لیکن افسوس کہ 
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنالیتی ہے تصویریں 
یہی وہ ہوس ہے اور خواہش ہے جو مصیبتوں کے اس گھر (دنیا) کو انسان کی نظروں میں نہایت حسین وجمیل بنا کرپیش کرتی ہے اور جس کو دیکھ کر انسان مبہوت ہوکر آخرت کی تیاری سے غافل ہوجاتا ہے۔ 
لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ’’ذرانم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔‘‘ روزمرہ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات بے شمار انسانوں کی زندگی بدلنے میں کارگر ثابت ہوئے ہیں ۔ ہر انسان کو عام نظر آنے والے واقعات ،اللہ کے ان بندوں کے لئے جن پر اس نے رحمت کی نظر کردی، زندگی میں ایک انقلاب برپا کرنے والے ثابت ہوئے ہیں ۔کئی انسان اپنی عمر کا ایک حصہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں گزارنے کے بعد ’’جہاں جاگے وہیں سویرا‘‘ کے مصداق گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کرکے آخرت کے سفر کے راہی ہوگئے ہیں ۔اور ان کو اللہ عزوجل کی یہ نصیحت بہت اچھے سے سمجھ میں آگئی: ’’اے ایمان والو! تم اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھتے رہنا چاہئے کہ اس نے کل (قیامت) کیلئے آگے کیا بھیجا ہے، اور تم اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ اُن کاموں سے باخبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘ ( سو رہ الحشر:۱۸)
اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اس نصیحت کو سمجھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا بنادے۔ آمین

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK