Inquilab Logo

دو آئینی اور ایک انتخابی فیصلہ

Updated: May 22, 2023, 12:36 PM IST | P. Chidambaram | Mumbai

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ وہپ جاری کرنے والا وہ ہوتا ہے جو سیاسی جماعت کے ذریعے مقرر کیا گیا ہو۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہپ وہ تھا جواُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے مقرر کیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی محسوس کیا کہ گورنر کو اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اُدھو ٹھاکرے کو اعتماد کا ووٹ لینےکیلئے کہنا بھی غلط تھا۔

photo;INN
تصویر :آئی این این

کہا جاتا ہے کہ تکلیف یا پریشانی تنہا نہیں آتی۔ حال کے چند واقعات بی جے پی کیلئے نہایت پریشان کن ثابت ہوئے ہیں۔۱۱؍ مئی کو سپریم کورٹ نے دو فیصلے سنائے۔ دونوں ہی پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے سنائے ہوئے فیصلے ہیں جو آئین کی مختلف دفعات کی تشریح ہیں۔ یہ فیصلے، فیصلے تو ہیں ہی، حکومت کے منہ پر طمانچہ بھی ہیں۔ خیر، اگر ۱۱؍ مئی کا واقعہ ایک واقعہ تھا تو دوسرا ۱۳؍ مئی کا تھا۔ جی ہاں آپ نے‌درست پہچانا۔ اس دن کرناٹک اسمبلی الیکشن کا نتیجہ ظاہر ہوا۔
 پہلے واقعے (سپریم کورٹ کے دو فیصلوں) پر حکومت کا جواب خاموشی ہے۔اس پرنہ تو اپنے آپ پر غیرمعمولی اعتماد کرنے‌والے مرکزی وزیر داخلہ نے اپنا ردعمل ظاہر کیا نہ ہی غیرمعمولی ذہین سابق وزیر قانون (کرن رجیجو) نے کچھ کہا۔ کرناٹک الیکشن کے نتائج پر بھی ان حضرات نے‌خاموش رہنے‌کو ترجیح دی۔
 آئینی تجاوزات کا معاملہ: دہلی کیس بہت سادا اور آسان تھا۔ ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ پبلک آرڈر، پولیس اور اراضی کے معاملات کو چھوڑ کر دیگر تمام معاملات دہلی کی وزارتی کونسل کی عملداری میں ہونے چاہئیں۔ رہی بات دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر کی تو اس کی ذمہ داری ہے کہ دہلی حکومت کے تعاون اور احکام کے پیش نظر اپنی ذمہ داریاں نبھائے۔اس واضح فیصلے کے بعد جو معمولی شک وشبہ تھا وہ لفظ ’’ خدمات‘‘ پر تھا یعنی عوامی خدمات پر معمور اعلیٰ افسران یعنی سول سرونٹ ۔ لیکن ۱۱؍ مئی کے فیصلے سے یہ معمولی شک وشبہ بھی ختم ہوگیا اور یہ واضح ہوا کہ سول سرونٹ (خدمات ) پر ریاستی حکومت کے وزیروں ہی کا اختیار ہے۔اس وضاحت کے بعد ۲۰۱۴ء سے اب تک کے لیفٹیننٹ گورنروں کو مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے کہ انہوںنے جمہوریت کی روح کو سمجھا نہ ہی وفاقی نظام کے اصول کو عمل میں لایا ۔
 دوسرا کیس قدرے پیچیدہ تھا صرف اس لئے نہیں کہ سابقہ فیصلوں میں آئین کے دسویں شیڈول کی صحیح طریقہ سے تشریح نہیں کی گئی تھی۔ ۲۰۰۴ء میں اس شیڈول میں ترمیم کی گئی تھی جس کے بعد یہ واضح ہوا تھا کہ ریاستی قانون ساز پارٹی میں تقسیم کا کوئی تصور ہی نہیں ہوسکتا۔ دسویں شیڈول میں ایک استثنیٰ کی اجازت دی مگر ان دو شرطوں پر :
  (۱) اگرسرپرست سیاسی جماعت کسی دوسری پارٹی میں ضم ہوجائے تو اور اس کے ساتھ دوتہائی سے زیادہ اراکین ہو ۔
 (۲) اگر قانون سازوں نے اس انضمام کو قبول نہیں کیا بلکہ ایک الگ گروپ کے طورپر کام کرنے کو ترجیح دی۔
 ان دو شرائط کا پورا ہونا ضروری ہے اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک شرط بھی پوری نہ ہوتی ہو تو باغی اراکین کا تعلق سرپرست پارٹی ہی سے رہے گا اور انہیں اس کی وہپ پر عمل کرنا ہوگا۔ ( یہاں سرپرست جماعت اصل شیوسینا یعنی پرانی شیوسینا ہے ۔ )آپ جانتے ہیں کہ مہاراشٹر میں کیا ہوا۔ ایکناتھ شندے کے ساتھ شیوسینا کے ۱۶؍ اراکین سرپرست جماعت سے الگ ہوئے مگر کسی دوسری پارٹی میں ضم نہیں ہوئے۔ آج بھی نہیں ہوئے ہیں۔ دسویں شیڈول کے جو تقاضے ہیں وہ پورے نہیں ہوتے ۔ ایسی صورت میں۲۱؍ جون ۲۰۲۲ء کوباغی اراکین کوسرپرست جماعت کی وہپ پر عمل کرنا چاہئے تھا۔
 وہپ کی خلاف ورزی کرکے ایکناتھ شندے گروپ نے بی جے پی سے ہاتھ ملا لیا۔ گورنر نے کسی وجہ کے بغیر (جیسا کہ سپریم کورٹ نے کہا)اُدھوٹھاکرے سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے کہا۔ اُدھو ٹھاکرے نے ( ایک کمزور مشورے کی روشنی میں ) استعفیٰ دے دیا اور قانون ساز اسمبلی کا سامنا نہیں کیا ۔ ان واقعات کے پیش نظر اس وقت کے گورنر کوشیاری نے ایکناتھ شندے کو وزیراعلیٰ مقرر کردیا اور باغی اراکین نے بی جے پی کے اراکین کی اتحادی حکومت کو حلف دلادیا۔ شیوسینا کا اصرار تھا کہ اسپیکر ۱۶؍ اراکین کو نااہل قراردے۔ اسپیکر نے اس پر توجہ نہیں دی۔ 
 سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ وہپ جاری کرنے والا وہ ہوتا ہے جو سیاسی جماعت کے ذریعے مقرر کیا گیا ہو۔ یہاں اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہپ وہ تھا جواُدھو ٹھاکرے کی شیوسینا نے مقرر کیا تھا۔ عدالت نے یہ بھی محسوس کیا کہ گورنر کو اجلاس بلانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اُدھو ٹھاکرے کو اعتماد کا ووٹ لینےکیلئے کہنا بھی غلط تھا۔ 
 اس کالم میں مَیںلکھا چکا ہوںکہ ملک میں آئینی ووٹوں پر معمور ہونے والوں کا طرز عمل تشویش کا باعث بنتا جارہا ہے۔ اس کیس میں گورنر نے اپنے اختیار سے تجاوز کیا اور اسپیکر نے اپنے اختیار کا استعمال کیا ہی نہیں۔ دونوں نے غلطی کی اور شاید اس لئے کی کہ دونوں ہی ایک نئی حکومت کی تشکیل میں طے شد ہ پروگرام کے مطابق تعاون دے رہے تھے۔ 
 سپریم کورٹ کے مذکورہ دونوں فیصلے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اختیار سے باہر جاکرقدم اٹھانا یا اختیار کو جزوی یا کلّی طورپر استعمال ہی نہ کرنا جاری ہے۔ کرناٹک کے فیصلے نے ثابت کیا کہ ڈبل انجن سرکارڈبل فائدے کی ہویہ ضروری نہیں ہے۔ یہ بات وہاں کے عوام نے سمجھ لی تھی۔ اسی لئے وہ ڈبل انجن کے جھانسے میں نہیں آئے۔ جمہوریت میںیہ لازم ہونا چاہئے کہ سیاسی نظام تکثیر پر مبنی ہویعنی ایک سے زائد پارٹیوں کا ہونا۔ اس سے عوام کو اپنے لئے بہتر پارٹی کے انتخاب کا موقع ملتا ہے ۔کرناٹک میں اس سے پہلے یہ ہوا ہے کہ ایک الیکشن میں ایک پارٹی برسراقتدار آئی اور دوسرے الیکشن میں دوسری پارٹی ۔ یہ اختیار بھی کئی پارٹیوں کے میدان میں ہونے سے ملتا ہے ۔ ہمارا ملک کئی پارٹیوں کا ایک ایسا نظام ہے جس میں پارٹیاں مقبول بھی ہوتی ہیں اور مسترد بھی۔ اس کا انحصار پارٹیوں کی کارکردگی پر ہے۔ اگر وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں تو ممکن ہے دوبارہ چن لئے جائیں اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو یہ طے ہے کہ الیکشن میں انہیں سبق سکھایا جائے گا اور کوئی دوسری پارٹی برسراقتدار ہوگی۔ یہ ہمارے نظام کی خوبصورتی ہے اور اس میں وسیع تر معنویت کا پہلو بھی چھپا ہوا ہے ۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK