Inquilab Logo

اکیسویں صدی کے دو بڑے واقعات اور ان کے اثرات

Updated: February 16, 2021, 8:52 AM IST | Hasan Kamal

عرب دنیا کے سربراہوں نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے جال میں پھنس کر اپنی شبیہ بری طرح مجروح کر لی ہے ۔

Trump and MBS - Pic : INN
ٹرمپ اور ایم بی ایس ۔ تصویر : آئی این این

کورونا کا نزول اور ڈونالڈٹرمپ کا اخراج اکیسویں صدی کے دو سب سے بڑے واقعات مانے جائیں گے۔ پہلے واقعہ نے دنیا کی مغرور قوموں کی معیشتوں کی برتری خاک میں ملا دی تودوسرے واقعہ نے دنیا کے منہ زور لیڈروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ بڑ بولا پن اور انانیت کسی نہ کسی دن مٹی میں مل ہی جاتی ہے۔پہلے واقعہ پراب بات کرنا اس لئے غیر ضروری ہے کہ خدا خدا کرکے اس کا اثراوراس کی ہلاکت انگیزی رو بہ زوال ہے۔دوسرے واقعہ پر بات کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے اثرات اب نمایاں ہونا شروع ہوئے ہیں اور ان کا سلسلہ کم از کم کچھ عرصہ بدستور جاری رہے گا۔ ٹرمپ کے اقتدار کا خاتمہ یوں تو تمام دنیا کی سیاست پر کسی نہ کسی حد تک اثر انداز ہو گا، لیکن ایشیاء کی سیاست پر اس کا اثر بہت گہرا اور بہت دور رس ثابت ہوگا۔ ایشیاء کے جو ممالک سب سے زیادہ اس کی لپیٹ میں آئیںگے ، وہ اسرائیل، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہیں۔جو بائیڈن نے عہدہ سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے جن فیصلوں کو نظر ثانی کے لئے روکا ان میں سعودی اور امارت کو ۲۳؍ ارب ڈالر کی مالیت کے اِیف ۳۵ ؍جنگجو طیاروں کی فروخت کا فیصلہ تھا۔ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار کے بالکل آخری لمحات میں اس فروخت کو منظوری دی تھی۔ جو بائیڈن نے اسے منسوخ تو نہیں کیا ہے ، لیکن روک ضرور دیا ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ شاید وہ اتنا بڑا سودا ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اگر یہ طیارے ان دو ملکوں کو دیئے بھی گئے تووہ اپنی شرطوں پر دیں گے۔ یہ طیارے یوں بھی اسرائیل کے خلاف تو استعمال کئے ہی نہیں جا سکتے تھے۔ لیکن کیا عجب کہ جو بائیڈن یہ شرط لگادیں کہ انہیں ایران کے خلاف بھی نہیں استعمال کیا جا سکتا۔ اس کے بعد یہ طیارے دونوں ممالک کے لئے نمائشی سامان بن کر رہ جائیں گے۔ اسی کے ساتھ جوبائیڈن نے یہ بھی صاف کر دیا ہے کہ سعودی اور امارات کو یمن میں جنگ بند کرنی پڑے گی۔ 
 ٹرمپ کا جانا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے لئے تو ایک ذاتی حادثہ بنتا جا رہا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ محمد بن سلمان کا نام جو بائیڈن کے پسندیدہ ترین افرادکے ناموں کی فہرست میں شامل نہیں ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ، لیکن ایک وجہ ، جس کاان کالموں میں بار بار ذکر ہو چکاہے، یہ ہے کہ جو بائیڈن محمد بن سلمان کو جمال خشوگی کے انسانیت سوز قتل کی واردات میں ذاتی طور پر ملوّث سمجھتے ہیں۔ اس واردات کی تفتیش سی آئی اے نے بھی کی تھی اور مبینہ طور پر اس کی رپورٹ میں محمد بن سلمان کا نام بھی تھا۔ ٹرمپ نے اس رپورٹ کو سرد خانہ میں رکھ دیا تھا، لیکن نئے سیکریٹری خارجہ انتھونی بلنکن نے نامہ نگاروں کے ایک سوال کے جواب میں کہا ہے کہ سی آئی اے کی اس رپورٹ کو عام کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا کچھ ہو سکتا ہے اس پر ابھی قیاس آرائی کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ 
 معاملات کو پوری طرح سمجھنے کے لئے تھوڑا سا پیچھے جانا ہوگا۔ ۲۰۱۶ء میںصدر منتخب ہوتے ہی ٹرمپ نے پہلا غیرملکی دورہ اسرائیل کا کیا تھا۔ ان کے ذہن میں ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس کا نام ٹرمپ نے ’’ڈیل آف دی سنچری‘‘ یا صدی کا سب سے بڑا معاہدہ رکھا تھا۔ یہ منصوبہ فلسطین کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دینے کی بابت تھا۔ مسئلہ فلسطین کی بابت ان کی تمام تر معلومات ان کے چہیتے یہودی داماد جیرد کشنر کی فراہم کردہ معلومات تک محدود تھیں۔ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو بتایا کہ ان کے پاس فلسطین اور اس کے مسئلہ کو داستان پارینہ بنا دینے کی اسکیم ہے، لیکن اس کے لئے ایک شرط ہے۔وہ  یہ کہ اسرائیل کم از کم ان عرب ریاستوں سے سفارتی تعلقات قائم کرے ، جنہوں نے کبھی اسرائیل کے خلاف کسی فوجی کارروائی میں حصہ نہ لیاہو۔ ظاہر ہے کہ یہ عرب ریاستیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین، قطر، عمان اور کویت ہی تھیں۔ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو یہ بھی یقین دلایا کہ جیرڈ کشنر محمد بن سلمان کے بہت گہرے دوست ہیں اور انہوں نے محمد بن سلمان کو رضامند بھی کر لیا ہے۔ سعودی رضامندی کے بعد امارات اور بحرین بھی رضامند ہو جائیں گے، کیونکہ دونوں سعودی عرب کے پیروکار ہیں۔ اس کے بعد عرب دنیا میں اسرائیل سے پس پردہ گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا۔  پہلے امارات نے اسرائیل سے سفارتی رابطہ قائم کیا۔ پھر اسرائیلی طیاروں کو سعودی فضا کے استعمال کی اجازت دی گئی۔ پھر سعودی شہرنیون میں ایم بی ایس اور نیتن یاہو کے مابین وہ مبینہ ملاقات ہوئی، جس میں مائک پومپیو بھی شریک ہوئے۔ ان کالموں کے مستقل قارئین کو یاد ہوگا کہ اس لہر کیلئے وقت کے انتخاب کو غیر موزوں کہا گیا تھا۔ یہ سب اس وقت ہو رہا تھا جب امریکی انتخابات صرف چند ہفتے دور تھے۔ ہر چند کہ کشنرنے محمد بن سلمان کو یقین دلا دیا تھا اور انہوں نے یقین کر بھی لیا تھا کہ ٹرمپ کی فتح یقینی ہے، لیکن جب نتائج سامنے آئے تو عرب دنیا میں ایک سنسنی خیز سناٹا پھیل گیا۔ نیتن یاہو نے اس سناٹے کو دور کرنے کی کوشش کی ،  کیونکہ خود ان کا سیاسی مستقبل دائو پر لگا ہواتھا۔ انہوں نے یکم فروری کو پہلے دبئی پھر بحرین کے دورے کا اعلان کیا، لیکن اب عرب دنیا مکمل گو مگو کا شکار ہو چکی تھی۔ اس لئے نیتن یاہو کو منع کر دیا گیا۔تمام معاملہ کھٹائی میں پڑتا نظر آرہا ہے۔ عرب دنیا کے سربراہوں نے ٹرمپ اور نیتن یاہو کے جال میں پھنس کر اپنی شبیہ بری طرح مجروح کر لی ہے ۔ اسرائیل سے دوستی کی خاطر فلسطین کے مقصد سے اجتناب بھی دنیا کو پسند نہیں آیا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی دنیا میں اسلامو فوبیا کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے والوں میں بھی عرب سربراہوں کی آواز سب سے دھیمی اور نیچی رہی ہے۔ 
  سعودی عرب کی سب سے بڑی تشویش امریکہ اور ایران کے تعلقات میں ۱۸۰؍ ڈگری کی تبدیلی ہے۔ ٹرمپ نے ایران کو معاشی اور فوجی طور پر تباہ و برباد کرنے کے نام پرہی سعودی عرب اور امارات کو رام کیا تھا۔ اب یہ بساط الٹ چکی ہے۔ حالانکہ امریکہ اور ایران دونوں تعلقات بحال کرنے کی بابت اب بھی اپنی اپنی شرطیں رکھ رہے ہیں، لیکن معاہدہ کی بحالی بہر حال ناگزیر ہے۔ ایشیا میںروس، ترکی، چین ، پاکستان اور افغانستان پر مشتمل مجوزہ بلاک بھی عرب دنیا کی الجھنوں میں اضافہ کر رہا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ عرب دنیا کے سامنے کوئی راستہ ہی نہیں رہ گیا ہے۔ یمن میں ایک بیہودہ اور تباہ کن جنگ ختم کر کے اور ایران کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھا کر عرب دنیا نہ صرف اپنی حیثیت بحال کر سکتی ہے، بلکہ اپنی اہمیت میں بھی اضافہ کر سکتی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK