جمعرات کو دو اہم فیصلے سپریم کورٹ نے سنائے ہیں۔ دونوں ہی کی سماعت عدالت کی آئینی بینچ کررہی تھی۔
EPAPER
Updated: May 13, 2023, 10:23 AM IST | Mumbai
جمعرات کو دو اہم فیصلے سپریم کورٹ نے سنائے ہیں۔ دونوں ہی کی سماعت عدالت کی آئینی بینچ کررہی تھی۔
جمعرات کو دو اہم فیصلے سپریم کورٹ نے سنائے ہیں۔ دونوں ہی کی سماعت عدالت کی آئینی بینچ کررہی تھی۔ ایک کا تعلق مہاراشٹر کے سیاسی تنازع یعنی اُدھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے گروپ کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی سے متعلق تھا جبکہ دوسرا فیصلہ دہلی حکومت بمقابلہ لیفٹننٹ گورنر (ایل جی) کے اختیارات کے تعین کے سلسلے میں تھا۔ اتفاق سے دونوں ہی فیصلوں کی وجہ سے مرکز کی حکمراں جماعت یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
مہاراشٹر تنازع کے تعلق سے سپریم کورٹ نے بڑے دوٹوک انداز میں کہا کہ ’’شندے گروپ کا بغاوت کرنا، پارٹی سے الگ ہونے کے بعد بی جے پی کی مدد سے اپنی حکومت قائم کرنا، الگ گروپ کا گورنر کے ذریعہ تسلیم کیا جانا، علاحدہ ہوجانے والے گروپ کا وہپ مقرر کرنا اور وہپ کا بھی تسلیم کیا جانا وغیرہ یہ سب آئین اور قانون کی روح کے منافی تھا۔‘‘ اس پس منظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ عدالتی فیصلہ اُدھو ٹھاکرے کی اخلاقی فتح اور شندے گروپ نیز اس کی پشت پناہ بی جے پی کی اخلاقی و قانونی شکست ہے۔ اس میں شک نہیں کہ سپریم کورٹ نے شندے حکومت کے مستقبل کے تعلق سے کچھ نہیں کہا ہے مگر یہ تو کہہ ہی دیا ہے کہ حکومت کی تشکیل پر منتج ہونے والے واقعات غیر قانونی تھے چنانچہ معرض وجود میں آنے والی حکومت کیسے قانونی ہوسکتی ہے؟ عدالت کا یہ کہنا بذاتِ خود موجودہ حکومت کے قانونی ہونے نہ ہونے پر سوالیہ نشان لگاتا ہے کہ اگر اُدھو ٹھاکرے نے اکثریت ثابت کرنے (فلور ٹیسٹ) سے پہلے استعفیٰ نہ دیا ہوتا تو اُسے ہم (عدالت) بحال کردیتے۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ نے فیصلہ آنے کے بعد منعقد کردہ پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا ، مثلاً یہ کہ عدالت نے ہمارے دلائل اور حکومت سازی کیلئے گورنر کی جانب سے شندے گروپ کے مدعو کئے جانے کو قبول کیا ہے اس لئے جیت ہماری ہوئی ہے، اپنی خفت مٹانے کی کوشش کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ اِس حکومت کو کم از کم اخلاقی بنیادوں پر استعفیٰ دے دینا چاہئے مگر دورِ حاضر میں اقتدار غیر معمولی مقناطیسی صلاحیت اور طاقت رکھتا ہے۔ لوگ اس سے دور رہنا کسی قیمت پر گوارا نہیں کرتے، مگر، اس حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ جتنے دن اقتدار میں رہے گی، اس کی سیاسی ساکھ گرتی چلی جائیگی۔ عوام میں بھی اسے قبولیت حاصل نہیں، عدالت میں بھی اس کے دعوے بے بنیاد قرار پائے۔ مہاراشٹر میں اس وقت شندے گروپ او راس کی پشت پناہ بی جے پی سے زیادہ نقصان میں کوئی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کا دوسرا فیصلہ دہلی سے تعلق رکھتا ہے جس میں عدالت نے واضح کیا کہ سروسیز (افسر شاہی) پر ۲۰۱۹ء کا جسٹس اشوک بھوشن کا یہفیصلہ نادرست ہے کہ اس پر دہلی حکومت کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ دہلی حکومت قانون سازی کی بھی مجاز ہے اور انتظامی اُمور کی بھی۔ اس فیصلے سے اروند کیجریوال حکومت کو بڑی جیت حاصل ہوئی ہے جسے ہمیشہ یہ شکایت رہتی تھی کہ دہلی کے ایل جی کچھ کرنے نہیں دیتے۔ ویسے یہ محض شکایت نہیں تھی جو سیاسی وجوہات کی بناء پر کی جاتی ہے۔ ملک کے عوام دیکھ چکے ہیں کہ کئی معاملات میںایل جی نے دہلی حکومت کو پریشانی میں ڈالا۔ ہماری نظر میں یہ عدالتی فیصلہ عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کو عوام کے حق میں زیادہ نافع بنا نے کی جانب اہم قدم ہے