• Sat, 13 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

حقیقی عید اور رسمی عیدکے فرق کو سمجھیں، حقیقی عید منائیں رسمی نہیں!

Updated: April 11, 2024, 1:20 PM IST | Muhammad Raza Markazi | Mumbai

کیا ہم جانتے ہیں کہ ہر سال ہم کون سی عید مناتے ہیں؟ کیا یہ وہی عید ہے جو اسلامی مقصد و فلسفہ کے عین مطابق ہے یا یہ محض دکھاوا ہے؟ آج کے دن اس پر ضرور غور کرنا چاہئے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

عید خوشیوں اور مسرتوں کا اسلامی تہوار ہے۔ عید مقدس ماہِ رمضان کے اختتام پر یوم انعام خداوندی ہے۔ لیلۃ الجائزہ میں دامن کو پھیلا نے کےبعد جب صبح ہو تو دوگانہ کی شکل میں سجدہ ٔشکر ادا کرنے کا نام ہے۔ فطرہ کی شکل میں غریبوں اور یتیموں کی مدد کرنے کا نام ہے۔ اپنی خوشیوں میں سب کو شامل کرنے کا نام ہے۔ غرور، گھمنڈ، تکبر، کدورت، نفرت، بغض وعناد اور دشمنی ختم کر کے ایک دوسرے کو گلے لگانے کا نام ہے۔ اسلامی وقار اور شان وشوکت کے ساتھ مہذب انداز میں بعد رمضان المبارک پہلا دن گزارنے کا نام ہے۔ 
 اگر یکم شوال ہی سے ہماری رمضانی و اسلامی زندگی میں شیطان داخل ہو گیا اور نیکیوں کا ماحول یکسر ختم ہو گیا اور ہم نمازوں کے وقت بھی میلے ٹھیلے، کھیل تماشے، ہوٹل بازی میں مبتلا رہے تو سمجھ لو ایک ہی دن میں راہ جنت کا مسافر اب کس راہ کا مسافر بن گیا ہے۔ اور اگر ایسا ہی ہو رہا ہے تو سمجھ لو یہ عید نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہم عید کو سمجھیں، عید کے مقصد کو سمجھیں، عید کے پیغام و فلسفہ کو سمجھیں۔ ہم یہ سمجھیں کہ عید کو عید کے حقیقی معنوں میں منایا جائے تب ہی یہ نجات وقبولیت ِرمضان کی علامت ہوگی، آخرت کی سرخروئی کا ذریعہ بنے گی ورنہ رسمی عید تو ہر کوئی منا رہا ہے۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی زندگیوں میں رسمی عید ہی باقی رہ گئی ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے کتنوں نے نہ روزہ رکھے نہ تراویح پڑھی نہ کلام پاک کی تلاوت کو معمول بنایا مگر عید سب سے الگ، مکمل ٹھاٹ باٹ کے ساتھ۔ جس طرح ہماری صفوں میں رمضانی مسلمان ہیں اسی طرح عیدی مسلمان بھی ہیں جو صرف عید کے دن اہتمام کرتے ہیں۔ ان تارکین ِ صوم وصلوۃ کو کیا پتہ کہ حقیقی عید کیا ہے۔ ہمارے اسلاف و بزرگانِ دین عید کیسے مناتے تھے؟ حقیقی عید تو انہی کی ہوتی تھی۔ وہ اپنی خوشیوں کو قربان کرکے دوسروں کو خوش کرتے تھے، یہ اللہ والوں کا اسوہ تھا۔ ہم اُنہیں بھی بھول چکے ہیں اور اُن کے اسوہ کو بھی۔ 
  کیا ہماری یہ صورت حال ایماندارانہ محاسبہ کا تقاضا نہیں کرتی؟ آپ جانتے ہیں پھر بھی اعادہ کے طور پر عرض ہے کہ حقیقی عید کیسے منائیں :
 مشہور بزرگ حضرت سِری سَقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا لیکن حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کی دُعا کی برکت سے مجھے چھٹکارا مل گیا۔ ہوا یوں کہ میں ایک بار نمازِ عید پڑھنے کے بعد واپس آرہا تھا کہ حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کو دیکھا۔ آپ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھےاوروہ ٹوٹے دل کے ساتھ رورہا تھا۔ میں نے عرض کی: یاسیدی! کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟
  آپ نے جواب دیا : میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھاجبکہ یہ بچہ غمگین حالت میں ایک طرف کھڑا تھا اوراُن بچوں کے ساتھ نہیں کھیل رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں یتیم ہوں، میرے ابوجان انتقال کر گئے ہیں، ان کے بعد میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ جس کے بدلے اَخروٹ خرید کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں چنانچہ میں اس بچےکو اپنے ساتھ لے آیا تاکہ اِس کے لئے گٹھلیاں جمع کروں جن سے اخروٹ خرید کر یہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ 
 میں نے عرض کی : آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اِس کی یہ خراب حالت بدل سکوں۔ آپؒ نے فرمایا : کیا تم واقعی ایسا کرو گے؟میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا: ٹھیک ہے، اسے لے لو، اللہ پاک تمہارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اور اپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرمائے۔ حضرت سِری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس بچے کو لےکر بازار گیا، اسے اچھے کپڑے پہنائے اوراخروٹ خرید کر دیے جن سے وہ دن بھر دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ بچوں نے اس سے پوچھا کہ تجھ پر یہ احسان کس نے کیا؟ اُس نے جواب دیا: حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ اور معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ نے۔ جب بچے کھیل کود کے بعد چلے گئے تو وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا: بتاؤ! تمہاراعید کا دن کیسا گزرا؟اس نے کہا : اے چچا ! آپ نے مجھے اچھے کپڑے پہنائے، مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا، میرے غمگین اور ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا، اللہ کریم! آپ کو اپنی بارگاہ سے اس کا بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے لئےاپنی بارگاہ کا راستہ کھول دے۔ حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد خوشی ہوئی اور اس سے میری عید کی خوشیاں مزید بڑھ گئیں۔ (الروض الفائق، ص ۱۸۵)۔ اللہ ُ رب العزت کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ 
  ایک یتیم بچے سے ہمدردی اور خیرخواہی کی ایمان اَفروز حکایت آپ نے پڑھی۔ عید الفطر کی خوشیاں ہیں، خُوب نعمتوں کی کثرت ہے، گھر میں کھانے کےلئےایک سے ایک لذیذ ڈِش تیار ہورہی ہے، بہترین عمدہ لباس پہنے ہوئےہیں، گھر میں مہمانوں کاآنا جانا اور عیدی لینے دینے کاسلسلہ جاری ہے، ایسےمیں کیا ہی اچھا ہوکہ پڑوسیوں، غریبوں، یتیموں اورسفید پوش عاشقانِ رسولؐ کے گھروں میں بھی خوشی و راحت پہنچانے کی کوئی صورت نکالی جائے تاکہ یہ ’’عید ‘‘ہمارے لئے ’’سعید‘‘ یعنی سعادت مندی کاسبب بن جائے۔ کاش! ایسا ہوجائے۔ اور ہم رسمی عید سے نکل کر حقیقی عید کی طرف آجائیں اور پھر بقیہ مہینوں اور دنوں میں بھی اسی اسوہ پر قائم رہیں کہ اسلام ہم سے یہی تقاضا کرتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK