Inquilab Logo Happiest Places to Work

سورۂ قدر کی روشنی میں شب ِ قدر کی اہمیت کو سمجھئے

Updated: April 14, 2023, 11:57 AM IST | Maulana Syed Abul Ala Maududi | Mumbai

رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ایک ایسی رات ہے جسے ہزار راتوں سے بہتر کہا گیا ہے اور قرآن مجید میں پوری ایک سورہ اس پر نازل ہوئی ہے۔ زیرنظر مضمون میں شب ِ قدر کی تعیین پر چند جید علمائے کرام کی تحاریر ملاحظہ فرمائیں۔

Remembrance of Shab-e-Qadr and worshiping Allah with faith and accountability in it is a part of this successful and excellent Islamic training system.
شبِ قدر کی یاد اور اس میں ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت اِس کامیاب اور بہترین اسلامی تربیتی نظام کا ایک جزو ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا‘‘
سورہ  قدر میں فرمایا گیا ہے کہ’’ ہم نے قرآن کو شب ِقدر میں نازل کیا ہے‘ ‘اور سورئہ بقرہ میں ارشاد ہوا ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔‘‘(البقرہ ۲:۱۸۵) 
 اس سے معلوم ہواکہ وہ رات جس میں پہلی مرتبہ خدا کا فرشتہ غارِحرا میں نبی صلی اللہ علیہ وسلّم کے پاس وحی لے کر آیا تھا وہ ماہِ رمضان کی ایک رات تھی۔ اِس رات کو یہاں شب ِقدر کہا گیاہے اور سورئہ دُخان میں اِسی کو مبارک رات فرمایا گیا ہے: ’’ہم نے اسے ایک برکت والی رات میں نازل کیا ہے۔‘‘(۴۴:۳)
اس رات میں قرآن نازل کرنے کے دو مطلب ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اِس رات پورا قرآن حاملِ وحی فرشتوں کے حوالہ کر دیا گیا اور پھر واقعات اور حالات کے مطابق وقتاً فوقتاً ۲۳؍ سال کے دوران میں جبرئیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی آیات اور سورتیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر نازل کرتے رہے۔ یہ مطلب ابن عباسؓ نے بیان کیا ہے (ابن جریر، ابن المنذر، ابن ابی حاتم، حاکم، ابن مردُویہ، بیہقی)۔ 
دوسرا مطلب یہ ہے کہ قرآن کے نزول کی ابتدا اِس رات سے ہوئی۔ یہ امام شعبی کا قول ہے اگرچہ اُن سے بھی دوسرا قول وہی منقول ہے جو ابن عباس کا اُوپر گزرا ہے (ابن جریر)۔
 بہرحال دونوں صورتوں میں بات ایک ہی رہتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم پر قرآن کے نزول کا سلسلہ اسی رات کو شروع ہوا اور یہی رات تھی جس میں سورئہ العلق کی ابتدائی پانچ آیات نازل کی گئیں۔ تاہم یہ بات اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کی آیات اور سورتیں اللہ تعالیٰ اُسی وقت تصنیف نہیں فرماتا تھا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم اور آپ کی دعوتِ اسلامی کو کسی واقعہ یا معاملہ میں ہدایت کی ضرورت پیش آتی تھی بلکہ کائنات کی تخلیق سے بھی پہلے ازل میں اللہ تعالیٰ کے ہاں زمین پر نوعِ انسانی کی پیدائش، اس میں انبیاء کی بعثت، انبیاء پر نازل کی جانے والی کتابوں اور تمام ءانبیا کے بعد آخر میں محمد صلی اللہ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمانے اور آپؐ پر قرآن نازل کرنے کا پورا منصوبہ موجود تھا۔ شب ِقدر میں صرف یہ کام ہوا کہ اس منصوبے کے آخری حصے پر عمل درآمد شروع ہو گیا۔ اُس وقت اگر پورا قرآن حاملین ِ وحی کے حوالے کر دیا گیا ہو تو کوئی قابلِ تعجب امر نہیں ہے۔
قدر کے معنی بعض مفسرین نے تقدیر کے لئے ہیں، یعنی یہ وہ رات ہے جس میں اللہ تعالیٰ تقدیر کے فیصلے نافذ کرنے کے لئے فرشتوں کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کی تائید سورئہ دُخان کی یہ آیت کرتی ہے: ’’اُس رات میں ہرمعاملے کا حکیمانہ فیصلہ صادر کر دیا جاتا ہے۔‘‘ (الدخان ۴۴:۴) بخلاف اِس کے امام زُہری کہتے ہیں کہ قدر کے معنی عظمت و شرف کے ہیں یعنی وہ بڑی عظمت والی رات ہے۔ اِس معنی کی تائید اِسی سورہ کے اِن الفاظ سے ہوتی ہے کہ ’’شب ِ قدر ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے۔‘‘
اب رہا یہ سوال کہ یہ کون سی رات تھی، تو تقریباً ۴۰؍مختلف اقوال اِس کے بارے میں ملتے ہیں۔ لیکن علماے اُمت کی بڑی اکثریت یہ رائے رکھتی ہے کہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں سے کوئی ایک طاق رات شب ِ قدر ہے، اور ان میں بھی زیادہ تر لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ ستائیسویں رات ہے…غالباً کسی رات کا تعین اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اس لئے نہیں کیا گیا ہے کہ شب ِ قدر کی فضیلت سے فیض اُٹھانے کے شوق میں لوگ زیادہ سے زیادہ راتیں عبادت میں گزاریں اور کسی ایک رات پر اکتفا نہ کریں۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس وقت مکہ معظمہ میں رات ہوتی ہے اُس وقت دنیا کے ایک بہت بڑے حصے میں دن ہوتا ہے، اس لئے اُن علاقوں کے لوگ تو کبھی شب ِ قدر کو پا ہی نہیں سکتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ عربی زبان میں اکثر رات کا لفظ دن اور رات کے مجموعے کے لئے بولا جاتا ہے۔ اس لئے رمضان کی اِن تاریخوں میں سے جو تاریخ بھی دنیا کے کسی حصہ میں ہو اُس کے دن سے پہلے والی رات وہاں کے لئے شب ِ قدر ہوسکتی ہے۔ (تفہیم القرآن، ج ۶، ص ۴۰۴-۴۰۶)
’’بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک ہی رات میں خدا کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کر سکتا‘‘
مولانا امین احسن اصلاحیؒ
یہ ایک رات ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے۔ یہ بہتری، ظاہر ہے کہ حصولِ مقصد کے اعتبار سے ہے۔ جس طرح اس مادی دنیا میں فصلوں، موسموں اور اوقات کا اعتبار ہے، اسی طرح روحانی عالم میں بھی ان کا اعتبار ہے۔ جس طرح خاص خاص چیزوں کے بونے کے لئے خاص خاص موسم اور مہینے ہیں، ان میں آپ بوتے ہیں تو وہ پروان چڑھتی اور مثمرہوتی ہیں، اور اگر ان موسموں اور مہینوں کو آپ نظرانداز کر دیتے ہیں تو دوسرے مہینوں کی طویل سے طویل مدت ان کا بدل نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح روحانی عالم میں بھی خاص خاص کاموں کے لئے خاص موسم اور خاص اوقات و ایام مقرر ہیں۔ اگر ان اوقات و ایام میں وہ کام کئے جاتے ہیں تووہ مطلوبہ نتائج پیدا کرتے ہیں اور اگر وہ ایام و اوقات نظرانداز ہوجاتے ہیں تو دوسرے ایام و اوقات کی زیادہ سے زیادہ مقدار بھی ان کی صحیح قائم مقامی نہیں کر سکتی۔ اس کو مثال سے یوں سمجھئے کہ جمعہ کے لئے ایک خاص دن ہے۔ روزوں کے لئے ایک خاص مہینہ ہے، حج کے لئے خاص مہینہ اور خاص ایام ہیں۔ وقوفِ عرفہ کے لئے معینہ دن ہے۔ ان تمام ایام و اوقات کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بڑی بڑی عبادتیں مقرر کر رکھی ہیں جن کے اجروثواب کی کوئی حدّونہایت نہیں ہے لیکن ان کی ساری برکتیں اپنی اصلی صورت میں تبھی ظاہر ہوتی ہیں جب یہ ٹھیک ٹھیک ان ایام و اوقات کی پابندی کے ساتھ عمل میں لائی جائیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو وہ برکت فوت ہوجاتی ہے جو ان کے اندر مضمر ہوتی ہے۔
یہی حال لیلۃ القدر کا ہے۔ یہ بڑی برکتوں اور رحمتوں کی رات ہے۔ بندہ اگر اس کی جستجو میں کامیاب ہوجائے تو اس ایک ہی رات میں خدا کے قرب کی وہ اتنی منزلیں طے کر سکتا ہے جتنی ہزار راتوں میں نہیں کر سکتا۔ ’ہزار راتوں، کی تعبیر بیانِ کثرت کے لئے بھی ہوسکتی ہے اور بیان نسبت کے لئے بھی لیکن مدعا کے اعتبار سے دونوں میں کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا۔ مقصود یہی بتانا ہے کہ اس رات کے پردوں میں روح و دل کی زندگی کے بڑے خزانے چھپے ہوئے ہیں۔ خوش قسمت ہیں وہ جو اس کی جستجو میں سرگرم رہ سکیں اور اس کو پانے میں کامیاب ہوجائیں۔ (تدبر قرآن، ج ۸، ص ۴۶۷-۴۶۸)
’’رسول اللہ ﷺ نے شب ِ قدر کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’احتساب‘ کی حالت میں ہو‘‘
سید قطب شہیدؒ
اس رات کی عظمت کی حقیقت انسانی فہم و ادراک سے ماورا ہے۔ ’’اور تم کیا جانو! شب ِ قدر کیا ہے!‘‘یہ اس لئے عظیم ہے کہ اسے قرآن کے… جس میں عقیدہ، فکر، قانون اور زندگی کے وہ تمام اصول و آداب ہیں جن سے زمین اور انسانی ضمیر کی سلامتی وابستہ ہے… نزول کے آغاز کے لئے منتخب کیا گیا۔ یہ اس لئے بھی عظیم ہے کہ اس میں ملائکہ، بالخصوص جبرئیل علیہ السلام اپنے رب کے اذن کے ساتھ قرآن لے کر زمین پر نازل ہوئے، اور پھر یہ فرشتے کائنات کے اس جشنِ نوروز کے موقع پر زمین و آسمان کے مابین پھیل گئے۔ یہ سورہ اِن امور کی عجیب و غریب انداز میں تصویرکشی کرتی ہے۔
نوع انسانی اپنی جہالت و بدبختی سے اِس شب کی قدروقیمت، اس واقعہ، وحی، کی حقیقت اور اس معاملے کی عظمت سے غافل ہے، اور اس جہالت و غفلت کے نتیجے میں وہ اللہ کی بہترین نعمتوں سے محروم ہے۔ وہ سعادت اور حقیقی سلامتی، دل کی سلامتی، گھر کی سلامتی اور سماج کی سلامتی کو، جو اسلام نے اسے بخشی تھی، کھوچکی ہے۔ مادی ارتقا اور تہذیب و تمدن کے جو دروازے آج نوعِ انسانی پر کھلے ہیں، اُس سے اِس محرومی کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ آج انسانیت شقاوت و بدبختی کا شکار ہے حالانکہ پیداوار کی افراط ہے اور وسائل ِ معاش کی بہتات۔ حسین و جمیل نور، جو انسانیت کی روح میں ایک بار چمکا تھا، بجھ چکا ہے۔ ملاء اعلیٰ سے ربط و تعلق کی فرحت و انبساط کا خاتمہ ہوچکا ہے اور ارواح و قلوب پر سلامتی کا جو فیضان تھا وہ مفقود ہوچکا ہے۔ روح کی اِس مسرت، آسمان کے اِس نور اور ملاء اعلیٰ سے ربط و تعلق کی مسرت کا کوئی بدل اسے نہیں مل سکا ہے۔ہم اہلِ ایمان مامور ہیں کہ اِس یادگار واقعہ کو فراموش نہ کریں، نہ اُس سے غافل ہوں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری ارواح میں اس یاد کو تازہ رکھنے کا بہت آسان طریقہ مقرر فرما دیا تاکہ ہماری ارواح اُس رات سے اور جو کائناتی واقعہ، وحی آسمانی، اس میں رونما ہوا، اس سے ہمیشہ وابستہ رہیں۔ آپؐ نے ہمیں اس بات پر ابھارا کہ شب ِ قدر کو ہم ہر سال رمضان کے آخری عشرے کی راتوں میں ڈھونڈیں اور اس رات میں جاگ کر اللہ کی عبادت کریں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ’’شب ِ قدر کو رمضان کی آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔‘‘ 
اسلام ظاہری شکلوں اور رسموں کا نام نہیں ہے۔ اسی واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’شب ِ قدر، کے بارے میں فرمایا کہ وہ ’ایمان‘ اور ’اِحتساب‘ کی حالت میں ہو!ایمان کا مطلب یہ ہے کہ شبِ قدر جن عظیم مطالب و معانی سے وابستہ ہے (دین، وحی، رسالت اور قرآن) انہیں ہم ذہن میں تازہ کریں، اور’’احتساب‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی رضا کے لئے اور اخلاص کے ساتھ ہو۔ اِسی صورت میں قلب کے اندر اُس عبادت کی متعینہ حقیقت زندہ و بیدار ہوسکتی ہے اور قرآن جس تعلیم کو لے کر آیا ہے، اس سے ربط و تعلق قائم ہوسکتا ہے۔ تربیت کا اسلامی نظام، عبادت اور قلبی عقائد کے درمیان ربط قائم کرتا ہے اور اُن ایمانی حقائق کو زندہ رکھنے، انہیں واضح کرنے اور انہیں زندہ صورت میں مستحکم بنانے کے لئے عبادات کو بطور ذریعہ کے استعمال کرتا ہے تاکہ یہ ایمانی حقائق غوروفکر کے دائرے سے آگے بڑھ کر انسان کے احساسات اور اس کے قلب و دماغ میں اچھی طرح پیوست ہوجائیں۔
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تربیت کا یہی نظام اِن حقائق کو زندہ و تازہ رکھنے اور دل کی دنیا اور عمل کی دنیا میں انہیں حرکت بخشنے کے لئے موزوں ترین نظام ہے۔ یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ اِن حقائق کا صرف نظری علم، عبادت کی معاونت کے بغیر اِن حقائق کو زندہ و برقرار نہیں رکھ سکتا اور نہ یہ کسی طریقے سے ممکن ہے اور نہ اِس نظام کے بغیر ان حقائق کو فرد اور معاشرے کی زندگی میں قوتِ محرکہ کی حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔
شب ِ قدر کی یاد اور اس میں ایمان و احتساب کے ساتھ اللہ کی عبادت اِس کامیاب اور بہترین اسلامی تربیتی نظام کا ایک جزو ہے۔ (ترجمہ: سید حامد علی، فی ظلال القرآن، تفسیر۳۰واں پارہ، ص ۳۷۷-۳۳۹)۔ (انتخاب و ترتیب: امجد عباسی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK