کبھی کبھی ٹھہر کر سوچنا چاہئے کہ تبدیلیاں اپنے اندر کتنے امکانات رکھتی ہیں اور خوشگوار تبدیلیوں کے امکانات کتنے خوشگوار ہوتے ہیں۔ انسان چاہے تو سابقہ کوتاہیوں کاازالہ بھی کرسکتا ہے اور تلافی ٔ مافات کی کوشش بھی۔ مگر مشکل یہ ہے کہ دُنیا میں کم ہی لوگ ایسا چاہتے ہیں۔
زندہ رہنے کیلئے زیست کا مفہوم سمجھ۔ تصویر: آئی این این
عنقریب عید ہوگی، عید الفطر۔ ہرچند کہ عید کا معنی لوٹ کے آنے یا بار بار آنے کا ہے مگر عید سے خوشی اس طرح بغلگیر ہوگئی ہے کہ بار بار آنے کا لفظی معنی پیچھے چھوٹ گیا ہے اور خوشی عید کا ہم معنی لفظ بن گیا ہے۔ اس کی وجہ ہے۔ انسان رمضان کو رمضان کی طرح نہ گزار پایا ہو تب بھی عید کے دن وہ اتنا ہی خوش ہوتا ہے جتنا کہ رمضان کو رمضان کی طرح گزارنے والا۔ معلوم ہوا کہ عید میں خوشی پنہاں ہے جیسے دن میں اجالا اور موسم بہار میں شگفت گل۔ یہ الگ بات کہ رمضان کو رمضان کے تقاضوں کے مطابق گزارنے والے خوش بختوں کی خوشی کا معیار الگ ہوتا ہے اور کسی خاص تبدیلیٔ معمولات کے بغیر رمضان گزارنے والوں کی خوشی کا معیار الگ۔ عید اور خوشی کے مذہبی سیاق و سباق سے ہٹ کر، کہ اس پر اظہار خیال کا زیادہ حق علماء کاہے، آئیے سماجی و معاشرتی نقطہ نظر سے عید کا جائزہ لیں۔ عید وہ تہوار ہے جس کی اہمیت قومی بھی ہے اور معاشرتی بھی۔ وطن عزیز میں سیکولر اقدار اس لئے یرغمال بن گئی ہیں کہ اہل وطن نے اپنے اپنے تہواروں کو قومی تہوار کا مزاج و معیار عطا کرنے کی فکر نہیں کی۔ مذہبی اُمور سے قطع نظر ہر تہوار سب کے تہوار میں تبدیل ہوسکتا تھا۔ عید بھی سب کی، دیوالی بھی سب کی اور کرسمس بھی سب کا۔ چھٹی تو سب کو ملتی ہے مگر مناتا کوئی ایک فرقہ ہے۔ عید میں غیرمسلموں کی شرکت کا عمومی مزاج نہیں بنا۔ دیوالی میں غیر ہندوؤں کی شرکت کا رجحان عام نہیں ہوا۔ کرسمس میں غیر عیسائیوں کی شرکت قومی مزاج میں نہیں ڈھل سکی جبکہ ہر تہوار پر عمومی اور عوامی تعطیل کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس روایت کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہ رہا ہوگا کہ جس کا تہوار ہے صرف اُس تک محدود نہ رہے بلکہ اس میں سب شریک ہوں۔ اگر اِس کی ترغیب دلائی جاتی اور اس طرح مختلف فرقوں کے درمیان ربط ضبط اور تعلق خاطر کو مضبوط بنانے کی مخلصانہ فکر کی جاتی تو آج سدبھاؤنا یاتراؤں کو بطور ٹانک استعمال کرنے کی ضرورت نہ پیش آتی۔ سیکولرازم کو وطن عزیز میں کچھ اس طرح برتا گیا کہ اس کے جلو میں فرقہ پرستی کی آبیاری ہوتی رہی، اس کا مکروہ چہرا بار بار دکھائی دیتا رہا۔ یہ ایک انتباہ تھا مگر اسے سیکولرازم کے خوشنما پردے سے ڈھانپنے کی کوشش کی جاتی رہی۔ اب وہ مکروہ چہرا پردے میں نہیں رہنا چاہتا، اس لئے پردے کو چاک کرنے کے درپے ہے۔ اس کے باوجود بھائی چارہ ہے کہ فرقہ پرستوں کا منہ چڑا رہا ہے۔ سیکولرازم اور بھائی چارہ میں فرق یہ ہے کہ ایک ازم ہے، فلسفہ ہے، دوسرا فطرت ہے، میلان ہے۔ ازم ناکام ہوسکتے ہیں فطرت ناکام نہیں ہوتی۔ ازم ناکام ہوا تو کوئی دوسرا ازم اس کی جگہ لے لے گا، فطرت ناکام ہوئی تو انسان ناکام ہوگا، اس کے بنائے ہوئے ترقی و کامیابی کے نقشے ناکام ہوں گے۔ بھائی چارہ اس ملک کی فطرت ہے اسی لئے فرقہ پرستوں کی کوشش ہے کہ بھائی چارہ کو بے چارہ بنا دیا جائے۔
مگر یہ ہوگا نہیں۔ کبھی کبھی مایوس کن حالات ضرور پیدا ہو جاتے ہیں، حال سے خوف آتا ہے اور مستقبل کی فکر لاحق ہوجاتی ہے مگر پھر جلد ہی حالات بدل بھی جاتے ہیں۔ یہ اِس ملک کا مزاج ہے۔ پانی میں لاٹھی مارنے سے پانی الگ نہیں ہوتا۔ البتہ پانی کو جُدا کرنے کی حماقت کو روکنے کیلئے بھائی چارہ کے فروغ کی منظم کوشش لازماً ہونی چاہئے کیونکہ کل تک کے حالات مختلف تھے، آج کے مختلف ہیں۔ آج پانی پر لاٹھی نہیں ماری جارہی ہے، پانی کو باقاعدہ الگ کرنے کی مہم چل رہی ہے، ایسی مہم جو کسی سے پوشیدہ تو نہیں تھی مگر اب اس کا عنوان بھی طے کردیا گیا ہے۔ ’’اَسّی بیس ‘‘۔ اس لئے اب بھائی چارہ کے فروغ کی ہر تدبیر کو عمل میں لانا ہوگا اور نئی حکمتیں وضع کرنی ہوں گی۔ اس میں تہوار مل جل کر منانے سے بہت فائدہ ہوگا۔ بات ہورہی تھی عید اور خوشی کی۔ دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ ماضی کے لوگ بھی عید پر خوش ہوتے تھے، حال میں جو موجود ہیں وہ بھی خوش ہوتے ہیں مگر ماضی اور حال کی خوشی میں فرق دکھائی دیتا ہے۔ کل تک خوشی اندر سے پھوٹتی تھی، اس کا وفور چہرے سے جھلکتا تھا۔ معاشرتی اسلوب اور روایات بھی خوشی کا معیار بلند کرتی تھیں۔ لوگ ایک دوسرے سے ملتے تھے، ایک دوسرے کے گھر جاتے تھے۔ اس میں فائدہ یہ ہوتا تھا کہ ایک سے ملاقات کیلئے پہنچئے تو بیک وقت کئی لوگوں سے ملاقات ہوجاتی تھی۔ ہر طرف ملاقاتوں کے دور چلتے تھے۔ کوئی مانے نہ مانے، ویسی اپنائیت، خلوص اور بچھ جانے کا انداز، جس میں دیدہ و دل فرش راہ ہوتے تھے، اگر عنقا نہیں ہوا ہے تب بھی کم کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ زیادہ تر لوگ موبائل پر اکتفا کرنے لگے ہیں۔ یا تو فون کرکے عید کی مبارکباد دے دیتے ہیں یا مسیج بھیج کر۔اللہ اللہ خیر سلا ّ۔ موبائل سے پہلے کی عید اور موبائل کے بعد کی عید میں نمایاں فرق ہے۔ نئے عہد نے دُنیا کو سمیٹ کر گاؤں بنادیا اور جذبوں کو سمیٹ کر مصلحتوں میں تبدیل کردیا۔اب ملاقاتوں کے بغیر عید ہوجاتی ہے، اگلے وقتوں میں ’’دید‘‘ کو بھی ’’عید‘‘ کا درجہ دیا جاتا تھا، ساحر نے فلم کیلئے گیت لکھا تو دید کو عید سمجھنے کی یہ کیفیت اس طرح بیان کی: ’’مجھے مل گیا بہانہ تیری دید کا=کیسی خوشی لے کے آیا چاند عید کا۔‘‘ جب دید عید ہوتی تھی تو سوچئے عید کیسی ہوتی ہوگی! صرف عید پر نہیں، عام دنوں میں بھی خوش ہونے اور خوش رہنے کے پیمانے بدل گئے ہیں۔ لوگ خوش ہونے کیلئے خوش ہوتے ہیں، خوشی کیلئے اسباب تلاش کرتے ہیں، اسباب میسر نہ آنے پر ناخوش ہوجاتے ہیں اور ناخوشی کبھی کبھی شدید ہوجاتی ہے۔ یہ اس لئے ہوتا ہے کہ خوشی کو اسباب کا مرہون منت بنادیا گیا۔ جب یہ نہیں تھا تب افق پر کھلا ہوا چاند بھی مسرور کرتا تھا اور خوشبو بکھیرنے والے خوش رنگ پھول بھی شادمانی بخشتے تھے۔ سلام کلام اور مصافحہ و معانقہ کی روایت تھی۔ آج کے مہمان کل کے میزبان اور کل کے میزبان آج کے مہمان ہوتے تھے۔رابطے جذبوں میں، جذبے رشتوں میں اور رشتے نسل در نسل جاری رہنے والے محبت کے سلسلوں میں اس طرح تبدیل ہوجاتے تھے جیسے گل سے گلستاں بنتا ہے۔ ایسے گلستانوں میں خوشیاں تلاش نہیں کرنی پڑتی تھیں، خود ہی آدھمکتی تھیں اور جب جب ایسا ہوتا تب تب عید ہوتی تھی اور سال میں ایک بار جب عید ہوتی تھی تب واقعی عید ہوتی تھی ۔