عازمین کے قافلے بیت اللہ کی جانب رواں دواں ہیں اور کہیں کہیں تیاریاں جاری ہیں۔ اس مبارک سفر پر روانہ ہونے سے قبل ضروری ہے کہ اپنی نیتوں کا جائزہ لے لیا جائے، برائیوں سے بچنے کا عہد کرلیا جائے اور ان امور سے اجتناب کیا جائے جنہیں کرنےسے منع کیا گیا ہے … زیرنظر مضمون میں انہی نکات پر مختصراً روشنی ڈالی گئی ہے
حج اور عمرہ کے مواقع پر سب سے اہم اور بڑی برائی جو دیکھنے میں آتی ہے وہ کثرت سے اپنی تصاویر لینا اور موبائل پر سیلفیاں اپلوڈ کرنا ہے
اسلام کے تمام احکام بندوں کے دنیاوی واخروی فوائد پر مبنی ہیں کیونکہ ان کا مقرر کرنے والا عظیم حکمت والا رب کائنات ہے۔ مناسک حج امور تعبدیہ میں سے ہیں لہٰذا ان کے تمام مصالح اور حکمتیں اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہیں، یا جس کو اللہ تعالیٰ نے یہ علم عطا فرمایا ہے مگر چند باتیں افادات کے پیشِ نظر اقتباس کر کے ہدیۂ قارئین کی جاتی ہیں، ملاحظہ فرمائیں۔
اللہ عز وجل کی وحدانیت کا اظہار
حاجیوں کا شعار تلبیہ ہے : لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ…الخ (ترجمہ) حاضر ہوں اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں ، میں حاضر ہوں ، بے شک تمام تعریفیں تیرے لئے، ہر قسم كی نعمتیں اور بادشاهی تیرے لئے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں ۔
گویا لبیک کا ترانہ توحید الٰہی کی شہادت اور عظمت الٰہی کا اعتراف ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک سے اپنے آپ کو بری کر رہے ہیں کہ الٰہی! تیرے سوا نہ کوئی اس قابل ہے کہ ہم اس کی بندگی کریں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہم اپنی مصیبتوں میں اس کی طرف نظر اٹھائیں اور نہ ہی کوئی اس قابل ہے کہ ہماری کسی مصیبت کو دور کردے۔ تلبیہ کو بلند آواز سے پڑھنے میں یہی حکمت ہے کہ اس توحید کو نہ صرف قبول کریں بلکہ اس کا اعلان کریں۔ چنانچہ ایك صحابی نبیﷺ کے حج کا احوال بیان كرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’رسول اللہ ﷺ ہمارے درمیان موجود تھے ۔ آپ ﷺ پرقرآن نازل ہوتا تھا اور آپ ﷺ ہی اس کی تفسیر جانتے تھے۔ جو عمل آپ ﷺ کرتے تھے ہم بھی وہ سیکھتے اور اس پر عمل کرتے تھے۔ پھر آپ ﷺ نے تلبیہ پڑھی، اور ہم نے بھی آپؐ کی اتباع کی۔‘‘
حصولِ تقویٰ
حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد تقویٰ کا حصول ہے، تقویٰ عبادت كا سب سے بڑا مقصد هے اور حج تقویٰ كے حصول کا سب سے بڑا موقع ہے۔ اسلام کی بنیاد جن پانچ ارکان پر رکھی گئی ہے ان کی ادائیگی کے وقت اﷲ تعالیٰ نے ہر عمل کے ساتھ تقویٰ کو لازم قرار دیا ہے۔ چنانچہ روزے کی فرضیت کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے اللہ نے فرمایا: ’’ تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ اسی طرح جب حج بیت الله كا تذكره آیا تو فرمایا:’’بیشک سب سے بہترزادِ راہ تقویٰ ہے، اور اے عقل والو! میرا تقویٰ اختیار کرو۔‘‘ (البقرہ:۱۹۷)
یعنی حقیقی زادِ راہ تقویٰ ہے جس کا انسان کو دنیا و آخرت میں فائدہ ہوتا ہے۔ تقویٰ سے محروم ہونا ہر برائی کا نشانہ بن جانا ہے۔ ایک شخص حج کی ادائیگی کے لئے تمام ضروریات زندگی ساتھ لے کر نکلتا ہے لیکن اگر دل میں تقویٰ ہی نہیں ہوگا تو یہ سفر سیاحت تو ہوگا اور اس سے شاید کچھ آگہی تو حاصل ہوجائے مگر ثواب و رضائے الٰہی حاصل نہیں ہوگی۔ دوسری جگه سوره حج میں ارشاد فرمایا: ’’اور جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر کا احترام کرے تو یہ دلوں کے تقویٰ سے ہے ۔‘‘ (الحج:۳۲)
اسی سورہ میں دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’نہ اُن (قربانی) کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ ( سورۃ الحج:۳۷)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہاری شکلوں اور مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس آیت اور حدیث سے دل کے تقویٰ اور نیت کے اخلاص کی اہمیت ظاہر ہے، اس لئے قربانی خالص اللہ کی رضا کے لئے ہونی چاہئے، نہ دکھاوا مقصود ہو اور نہ شہرت، نہ فخر اور نہ یہ خیال کہ لوگ قربانی کرتے ہیں تو ہم بھی کریں۔
حج اور سیلفی
حج کے موقع پر سب سے اہم اور بڑی برائی جو دیکھنے میں آتی ہے وہ کثرت سے اپنی تصاویر لینا اور موبائل پر سیلفیاں اپلوڈ کرنا ہے۔ یہ کام ایسا غیر ضروری اور لایعنی ہے کہ اس سے وقت کا ضیاع تو ہوتا ہی ہے، ساتھ میں ریاکاری بھی شامل ہوجاتی ہے جو کہ نیکیوں کو ایسے مٹا دیتی ہے جیسے آگ لکڑی کو ختم کردیتی ہے۔
سیلفی لینے والا پوری دنیا کو بتا رہا ہوتا ہے کہ دیکھو میں اس وقت حج کے لئے بیت اﷲ کے پاس موجود ہوں۔ اس کے علاوہ اس سیلفی کا اور کیا مقصد ہوسکتا ہے؟ یہ بتانا کہ میں نے حج کرلیا، یا میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے نکلا ہوا ہوں اور دیکھنے والوں سے داد و تحسین وصول کرنا بغیر کسی اختلاف کے ریاکاری کے زمرے میں آتا ہے۔ موبائل کے غیر ضروری استعمال، سیلفیاں بنا کر اپ لوڈ کرنا اور ہر وقت موبائل اور سوشل میڈیا کی دنیامیں کھوئے رہنا سراسر تقوے کے خلاف ہے، حالانکہ تقوے کا حکم خود اللہ رب العالمین نے اگلوں اور پچھلوں کو دیا ہے اور اس کی نصیحت و وصیت اس نے بذات خود تمام قوموں کو کی ہے۔ فرمان باری تعالى ہے: ’’تم سے پہلے جن کو ہم نے کتاب دی تھی انہیں بھی یقیناً یہی ہدایت کی تھی اور اب تم کو بھی یہی نصیحت کرتے ہیں کہ اللہ سے ڈرو۔‘‘ (النساء:۱۳۱)
ایام حج بہت مختصر ہوتے ہیں۔ ان دنوں میں بہت زیادہ محنت اور لگن سے عبادت کرنے کی ضرورت ہے۔ اتنے دور سے اتنا سفر کرکے آنے کے بعد بھی کوئی حاجی موبائل، انٹرنیٹ یا سوشل میڈیا پر اپنے وقت کا ضیاع کرتا رہے تو گویا اس نے اپنے آنے کا مقصد ہی ضائع کردیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بندگی کا اظہار
حج کے مقاصد میں سے ایک مقصد اللہ تعالیٰ کے سامنے بندگی کا اظہار ہے، اللہ کا ارشاد ہے کہ :
’’اور اللہ کی رضا کے لئے بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر فرض ہے، جو وہاں پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں، اور جو انکار کرے گا، تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے ۔‘‘ (آل عمران:۹۷)
یہ آیت کریمہ اس شخص پر حج کو واجب کرتی ہے جس میں حج کی استطاعت کے ساتھ وجوب حج کے شرائط مکمل پائے جاتے ہوں اور بندگی کے تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بندہ اس حکم الٰہی کے سامنے فرمانبردار اور متواضع ہو، اس كے پاس سوائے یہ كہنے كے کوئی دوسری گنجائش نہ ہو كہ ’’اے میرے رب میں نے سن لیا اور مان لیا۔‘‘
حج اظہارِ بندگی کا بہترین انداز ہے۔ جب ایک حاجی رب کے حکم کی تعمیل کیلئے جسم پر دو سفید چادریں لپیٹ کر گھر سے نکلے تو وہ زبانِ حال اور زبانِ قال سے اس بات کا عنوان بنا ہوکہ اللہ ہی رب ہے، وہی حقیقی مالک و رازق ہے، وہی عبادت کے لائق ہے۔ یہ اظہاربندگی اور رب کے شکر کا ایک انداز ہی تو ہے کہ رب کے فرمان: ’’اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں‘‘کی تعمیل میں ایک مسلمان خشیت ِ الٰہی سے سرشار کبھی کعبہ کا طواف کررہا ہوتا ہے تو کبھی صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ رہا ہوتا ہے، کبھی وقوفِ عرفات کے دوران میں اپنے مالک سے استغفار و مناجات میں مصروف ہے، تو کبھی سنت ِ ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے اپنی قربانی اللہ کے حضور پیش کررہا ہوتا ہے اور زبان پر تلبیہ جاری رہتاہے۔
گناہوں سے نجات
حج گناہوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم، بڑا اور غیر معمولی ذریعہ ہے، کیونکہ حج ایک ایسی عظیم عبادت ہے جو مسلمان کے تمام گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ جس طرح جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس سے سابقہ گناہوں پر مواخذہ نہیں کیا جاتا، ایسے ہی خلوص نیت سے کیے ہوئے حج سے مسلمان کا نامۂ اعمال برائیوں اور گناہوں سے بالکل پاک ہوجاتا ہے۔
مصائب ومشکلات پرصبر
حج ایک درس گاہ ہے جہاں سے انسان آزمائش پر صبر کرنا سیکھتا ہے، نہ صرف آزمائش پر بلکہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اشیا کو دورانِ احرام میں استعمال نہ کرنے اور اپنی نفسانی خواہشات پر قابو پانے سے۔ درحقیقت حج سے ایک ایسا ماحول اور معاشرہ قائم کرنا مقصود ہے جس میں بسنے والے انسانوں کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ بہت زیادہ ہو۔ حج کا مقصد اللہ تعالیٰ کے لئے تذلل اور انکسار، عبادات کے ذریعے سے ممکن حد تک اس کے تقرب کا حصول اور برائیوں کے ارتکاب سے بچنا ہے، اس لئے کہ یہی وہ امور ہیں جن کی وجہ سے حج اللہ کے ہاں مقبول و مبرور ہوتا ہے ۔ مذکورہ برائیاں اگرچہ ہر جگہ اور ہر وقت ممنوع ہیں تاہم حج کے ایام میں ان کی ممانعت میں شدت اور زیادہ ہوجاتی ہے اور جان لیجئے کہ صرف ترکِ معاصی سے تقرب الٰہی کی کیفیت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک اللہ تعالیٰ کے تمام احکام نہ بجا لائیں اور ان احکام کی بجا آوری معمول نہ بن جائے۔
اگر حاجی کے اندر صبر و برداشت کا مادہ نہ ہو تو حج کا یہ سفر اس کے لئے انتہائی کٹھن ہوسکتا ہے، کیونکہ حج میں حاجی کو گھر جیسا آرام و سکون میسر نہیں ہوتا، اژدہام اور بھیڑ کی وجہ سے چلنے، بیٹھنے اور آرام کرنے کی جگہ نہیں ملتی، منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے، طواف و سعی کے دوران میں کندھے سے کندھا چھل رہا ہوتا ہے، اس لئے امکان ہے کہ حاجی اپنے ساتھی حاجیوں کے ساتھ الجھ پڑے، لیکن فرمانِ الٰهی کی روشنی میں اگر حاجی صبر و برداشت اور درگزر سے کام لے، نیز اپنی ساری توجہ عبادت اور مناسکِ حج کی ادائیگی میں رکھے تو یہ اس کے لئے حجِ مبرور ثابت ہوسکتا ہے جس کی جزا جنت ہے۔