Inquilab Logo

عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم (۲)

Updated: April 29, 2024, 12:01 PM IST | Shamim Tariq | Mumbai

لذت و کیفیت کی تفہیم دنیا کا سب سے مشکل کام ہے، اس مضمون میں تصوف کے رنگ میں ڈوبی مشہور غزل کا تجزیہ کیا گیا ہے۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

’عارفانہ اور متصوفانہ اشعار کی تفہیم ‘ کے عنوان سے گزشتہ دنوں (۱۵؍ اپریل) میرا جو مضمون شائع ہوا ہے اس پراردو حلقوں سے یہ آواز اٹھی کہ ایسے ہی دیگر اشعار کی بھی تفہیم کی جائے۔ ساتھ ہی بعض لوگوں نے یہ بھی پوچھا ہے کہ عارفانہ اور متصوفانہ میں کیا فرق ہے وہ واضح کیا جائے۔ انہی سوالات کی بنیاد پر اس ہفتے مزید وضاحتوں کے ساتھ مضمون کا دوسرا حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ یہ سوال اٹھا ہے کہ عارفانہ اور متصوفانہ میں کیا فرق ہے؟ فرق ہے۔ جس طرح شاعر اور متشاعر، علماء اور علماء سو ایک نہیں ہیں اسی طرح عارف، تزکیہ و احسان کے معنی میں لفظ صوفی کو قبول کرنے والے اور متصوف یعنی وضع قطع سے صوفی نظر آنے والے تصوف کو تزکیہ و احسان کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں قبول کرنے والے ایک نہیں ہیں۔ حضرت علی ہجویری کے مطابق اپنی طبیعت سے آزاد ہو کر حقیقت کی طرف متوجہ ہونے والے ’صاحب وصول‘، صوفی کے درجے کو ریاضت و مجاہدہ سے تلاش کرنے والے صاحب اُصول، اور حشمت و جاہ یا مال دنیا حاصل کرنے کے مقصد سے صوفی کی وضع قطع اختیار کرنے والے ’صاحب فضول ‘ ہیں۔ پہلی قسم کے لوگوں نے یعنی حقیقی صوفیوں نے ہر زمانے میں دوسری اور تیسری قسم کے لوگوں کی مخالفت کی ہے۔ صوفی نہ ہو کر بھی صوفی ہونے کا ڈھونگ رچانے والوں ، تصوف کا تزکیہ و احسان کے علاوہ کوئی اورمعنی مراد لینے والوں یا اصحاب فضول کو متصوف کہا گیا ہے۔ 
عارف سے مراد پہچاننے والا یا حق کی معرفت رکھنے والا اور عارفانہ سے مراد عارف کی مانند ہے۔ چونکہ ’’سچ کہوں گا، سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا‘‘، کی تکرار کرنے والوں میں بھی سچ یا حق کا معیار یا مفہوم الگ الگ ہے اس لئے عارف اور عارفانہ کا مفہوم وسیع تر معنی کا حامل ہونے کا امکان ہے مگر معرفت (خدا شناسی، قانون قدرت کی واقفیت وغیرہ)اسم معونہ ہے جو ایک معین شے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لئے اس کو اس مفہوم میں ہی استعمال کیا جاتا ہے جو دین فطرت سے مشروط ہے۔ دوسرے الفاظ کے مفاہیم میں بھی اس کا قسم کا فرق ہے، مثلاً عقل اور وجدان کی بنیاد پر خالق کائنات کو ایک ماننے والے موحد اور محسن انسانیت ؐ کی اتباع کرنے والے، اتباع میں خالق کائنات کو ایک اور فقط ایک تسلیم کرنے والے مومن ہیں۔ 
متصوفانہ کیفیات کے تعلق سے وضاحت مانگنے والوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ متصوفانہ کیفیات کو تو فراقؔ، فیض ؔ اور جاں نثار اختر ؔ نے بھی شعر کا جامہ عطا کیا ہے۔ کیا انہیں یا ان کے شعروں کو بھی عارفانہ اور متصوفانہ شاعری یا فکر کے دائر میں لایا جاسکتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ان کی شاعری میں ایسے خیالات یا کیفیات نظم ہوئی ہیں تو ان سے صرف ِنظر کیسے کیا جاسکتا ہے ؟ان تینوں کے مقابلے بنگلہ زبان کے باغی شاعر قاضی نذر الاسلام کو صاف لفظوں میں ملحد اور مارکسوادی کہا جاتا ہے مگر ان کا یہ شعر پڑھئے :
محمد نامہ جپے چھلو بلبل توئی آگے  
تائی کی رے تو کنٹھے سراتیوئی مدھر لاگے
(اے بلبل تونے غالباً کبھی محمد ؐ کے اسم پاک کا یا نام کا ورد کیا تھا اسی لئے تیری لَے میں اس درجہ مٹھاس ہے۔ )
قاضی نذر الاسلام نے ہی یہ منقبت بھی کہی ہے کہ 
آبو بکر، عثمان، عمر، آلی حائیدر (علی حیدر)  
دانڈی اے جے تئرلی   
نائی اورے نائی ڈر 
(ابوبکر ؓ، عثمان ؓ، عمرؓ اور علی حیدرؓ جس کشتی کے ناخدا یا کھیون ہار ہیں اس کشتی پر سوار لوگوں کیلئےکوئی ڈر نہیں )
کیا ان شعروں کو موزوں کرنے والے کو دائرۂ اسلام سے خارج کیا جاسکتا ہے ؟ اور کیا محض ان شعروں یا نعت و منقبت کے اشعار موزوں کرنے کے سبب قاضی نذر الاسلام کی انسان دوستی یا ان کے انقلابی خیالات کو مسترد کیا جاسکتا ہے جن کا اظہار وہ اپنی نظموں اور شعروں میں کرتے رہیں۔ ان کی ایک نظم کا عنوان ہے ’شامیہ بادی ‘، اس نظم میں انہوں نے اعلان کیا ہے کہ میں انسانی مساوات کے گیت گاتا ہوں ، انسان ہی سب سچائیوں سے بالاتر ہے۔ اس سے بالاتر کوئی نہیں۔ کیا اس اعلان سے خدا ترسی اور انسان کی عظمت کے علاوہ بھی کوئی مفہوم مراد لیا جاسکتا ہے۔ فیصلہ مفتیان کرام پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ مگر یہ کہنے میں کیا حرج ہے کہ قاضی نذر الاسلام نے رابندر ناتھ ٹیگور کے مخصوص شعری رویے سے انحراف بھی کیا اور بنگلہ زبان کی شاعری کو توانائی بھی بخشی ہے۔ ایسی توانائی جو کہیں چٹانوں کو پاش پاش کردینے کے لئے سر پٹکتی ہے اور کہیں مختلف پیچ و خم سے گزرتی ہوئی سبک رو ہو جاتی ہے۔ اقبال کے بارے میں بھی ضیاء ۱لحسن فاروقی نے لکھا ہے کہ معروف معنی میں اقبال صوفی یا ولی نہ تھے لیکن ان کے احساسات و افکار میں صوفیانہ رجحانات ایسے سرایت کرچکے تھے جو ’ولی ‘ بنانے کےلئے کافی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی غیر نبی کے بارے میں جس طرح سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ وہ گناہوں سے بالکل پاک ہو گا اسی طرح مادیت کے علمبردار کے بارے میں بھی یہ سوچنا کہ اس کی شاعری یا فکر ماورائیت کے احساس سے بالکل پاک ہے، درست نہیں ہے۔ اس لئے ڈھونڈنے والوں نے کارل مارکس میں بھی روحانی آدمی تلاش کرلیا ہے۔ فراقؔ کے ’پچھلی رات ‘ کے دیباچے میں بھی یہ اعتراف موجود ہے کہ ’’زندگی ایک لامحدود حقیقت ہے۔ اس کے لمحے لمحے میں ازلیت اور ابدیت کی لامحدود وسعتیں ہیں بشرطیکہ ہم ان لمحات کا وجدانی شعور یا احساس حاصل کرسکیں۔ ‘‘
اسی طرح فیض ؔ کے اس شعر میں یا اس جیسے دوسرے اشعار میں :
پھر وہاں باب اثر جانئے کب بند ہوا   
پھر یہاں ختم مناجات نہ ہونے پائی 
’باب اثر‘ اور ’مناجات ‘ جیسی تراکیب اور لفظوں کا استعمال چیخ چیخ کر پوچھ رہا ہے کہ فیض کی فکری قلمرو اور نظام شاعری میں یہ روحانیت کی سمائی نہیں تو کیا ہے ؟یہ صحیح ہے کہ اس قسم کی ہر روحانی یا ماورائی لہر کو اسلامی نہیں کہا جاسکتا مگر فیض، جاں نثار، اور بڑی حد تک فراق کی شاعری میں تو یہ اسلامیت ہی کے زیر اثر شامل ہوئی ہے، اسے نظر انداز کیسے کیا جاسکتا ہے۔ عنوان میں عارفانہ کے ساتھ متصوفانہ کہنے کا مطلب بھی یہ ہے کہ وہ فکر جو اسلامی تو ہو مگر اس میں بہت کچھ دوسرے احساسات بھی شامل کردئیے گئے ہوں یا جس فکر کا سرچشمہ واردات قلبی اور فلسفیانہ مباحث ہوں مگر جن کو اسلامی رنگ میں پیش کیا گیا ہو۔ 
مختصر یہ کہ اسلام کے نام پر موزوں کئے گئے تمام افکار عقیدہ کی کسوٹی پر کھرے اترتے ہیں نہ مادیت کے علمبرداروں کے نظام فکر کو ماورائی یا اسلامی یا مذہبی احساس سے بالکل پاک قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان میں سب کچھ ہوتا ہے اس لئے اچھا شعر وہ ہے جو فن کے معیار پر بھی پورا اترتا ہو اور زندگی کے معیار پر بھی، زندگی جو بحر ناپیدا کنار ہے۔ فراق، فیض اور جاں نثار نے فن کے ساتھ بھی انصاف کیا ہے اور زندگی کی مختلف کیفیتوں اور صداقتوں کے ساتھ بھی مگر الفاظ و تراکیب کی حد تک ایک خاص رنگ کو برقرار رکھا ہے جو ماورائیت کے احساس سے خالی نہیں ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK