Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’بلاشبہ رسول اللہﷺ ایسا نور ہیں جس سے حق کی روشنی حاصل کی جاتی ہے‘‘

Updated: September 28, 2023, 10:30 AM IST | Maulana Nadeem al Wajidi | Mumbai

سیرتِ رسول پاکؐ کی اس خصوصی سیریز میں غزوۂ طائف اور حنین کا تذکرہ جاری ہے۔ ان دونوں غزوات میں آپؐ کو فتح ہوئی اور اس کے نتیجے میں عرب مکہ اور اطراف کے قبائل بھی مسلمان ہوئے۔ آج کی قسط میں اس تفصیل کے ساتھ کعب بن زہیرکے قبول اسلام اور مشہور’’قصیدہ بانت سعاد‘‘ کی تفصیل بھی پڑھئے جس کے مذکورہ شعر سے خوش ہوکر آپؐ نے کعب بن زہیر کے کاندھوں پر اپنی چادر مبارک ڈال دی تھی۔

In the courtyard of Masjid Nabawi, pilgrims are engaged in meditation, contemplation, worship and austerity. Photo. INN
مسجد نبوی کے صحن میں زائرین حرم ذکر و فکر اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہیں۔ تصویر:آئی این این

مدینہ روانگی
جمعرات کے دن شام کے وقت رسول اللہ ﷺنے جعرانہ سے مدینہ منورہ واپسی کا قصد فرمایا، پہلے آپؐ مقام سَرَفْ پہنچے، وہاں سے مرّ الظہران؛ جس راستے سے آپ تشریف لائے تھے اسی راستے سے سفر کرکے چھبیس تاریخ جمعہ کے دن آپؐ مدینہ منورہ پہنچ گئے۔ حافظ ابن اسحاقؒ نے لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد بھی بہت سا مال غنیمت بچ گیا تھا، آپؐ نے حکم دیا کہ یہ مال مقام مجنۃ میں محفوظ رکھاجائے۔ (سیرت ابن ہشام: ۴/ )
غزوۂ حنین وطائف کے اثرات
تاریخ اسلام میں حنین وطائف کے غزوات کو بڑی اہمیت حاصل ہے، ایک تو اس لئے کہ ان غزوات کے ساتھ ہی مشرکین مکہ کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کا خاتمہ ہوگیا، گویا یہ آخری جنگیں تھیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین مکہ کے ساتھ لڑیں اور ان میں کامیابی حاصل کی، دوسرے یہ کہ ان دونوں غزوؤں میں مسلمانوں کی کامیابی نے مشرکین کے حوصلے پست کردیئے، ان کے سامنے اس کے سوا کوئی راستہ باقی نہ بچا کہ یا تو وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت قبول کرلیں اور مسلمان ہوجائیں یا پھر مکہ چھوڑ کر کہیں اور جابسیں۔ 
دوسری طرف رسولؐ اللہ نے مشرکین سے کوئی انتقام نہیں لیابلکہ ان کے ساتھ حسن سلوک فرمایا۔ قبیلہ ٔ ہوازن سے جو مال غنیمت حاصل ہوا وہ بعض مشرکین کو اور بہت سے نو مسلموں کو محض ان کی تالیف قلب کیلئے دیا گیا اور زیادہ سے زیادہ دیا گیا، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے مشرکین کے دل اسلام اور مسلمانوں کیلئے نرم پڑ گئے اور انہوں نے از خود حاضر خدمت ہوکر اسلام قبول کرلیا۔ مالک بن عوفؓ کا قصہ لکھا جاچکا ہے کہ آپؐ نے اس کے قیدی بھی واپس کردیئے، اس کا مال بھی لوٹا دیا اور اپنے پاس سے سو اونٹ بھی اسے دیئے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے قبیلۂ ثقیف سے خود جنگ لڑی، حالاں کہ اس قبیلے نے اسے اپنے قلعے میں پناہ دے رکھی تھی، مگر جب وہ دل سے مسلمان ہوا تو دشمنان اسلام کے خلاف اس کے دل میں وہی جذبہ پیدا ہوا جو دوسرے مسلمانوں کے دلوں میں موجود تھا۔
حنین وطائف میں فتح کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ مکہ مکرمہ کے اطراف میں جو بت کدے اور صنم خانے تھے وہ سب ان کے عبادت گزاروں اور معماروں نے خود ہی گرادیئے یا مسلمانوں نے جاکر ان کو تباہ کردیا۔ قبیلہ ہوازن نے اسلام قبول کرنے کے بعد اہل طائف کا اس قدر ناطقہ بند کیا کہ عاجز آکروہ لوگ بھی مسلمان ہوگئے۔ 
فتح مکہ صرف مکہ تک محدود تھی، حنین وطائف کے غزوات میں کامیابی سے اطرافِ مکہ بھی مسلمانوں کے زیر نگیں آگئے، اس طرح اسلامی مملکت کا دائرہ وسیع ہوگیا، اس سے قبل اسلام عملاً مدینہ منورہ تک محدود تھا، پھر مکہ مکرمہ فتح ہوا، اور اب آس پاس کے قبائل بھی اس مملکت کا حصہ بن گئے، آنے والے سال میں ان غزوات میں فتح و کامیابی کے نتائج اس طرح ظاہر ہوئے کہ جو قبائل ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کے وفود کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا، اور انہوں نے کسی دباؤ کے بغیر اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا۔
کعب بن زہیر کا واقعہ
مدینہ منورہ واپسی کے بعد پہلا اہم ترین واقعہ مشہور عرب شاعر زہیر بن ابی سلمی کے بیٹے کعب کی حاضری، توبہ اور قبول اسلام کا ہے۔ کعب کے بھائی بجير بن زهير بن ابی سلمی اسلام قبول کرچکے تھے، بھائی کے اسلام لانے سے وہ سخت طیش میں تھا، اس نے ناراضگی ظاہر کرنے کیلئے ایک قصیدہ کہا، جس میں اس نے اپنے بھائی کی کم عقلی کا ماتم کیا اور اسلام قبول کرنے پر اس کو برا بھلا کہا، کعب نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ آپؐ کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کا بھی مذاق اڑایا، آپ ؐ کو اس قصیدہ کے بارے میں بتلایا گیا تو آپؐ نے اس کا خون حلال کردیا، یعنی یہ اعلان فرمادیا کہ زہیر جہاں بھی ملے اس کا کام تمام کردیا جائے۔
بجیر ؓنے اپنے بھائی کو لکھا کہ جو لوگ رسولؐ اللہ کی ہجو کرتے تھے اور آپؐ کو تکلیف پہنچاتے تھے ان میں سے کچھ مکہ میں اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں اور ابن الزَّبْعَری اور ہُبَیر بن وہب وغیرہ دو چار شاعر بچ گئے ہیں وہ اپنی جان بچانے کیلئے اِدھر اُدھر بھاگے پھر رہے ہیں ، تم بھی اپنے لئے کوئی ٹھکانہ تلاش کرلو، ورنہ بچ نہ پاؤگے۔ بُجیر نے اس کے بعد اپنے بھائی کو ایک اور خط لکھا کہ اگر کوئی شخص تائب ہوکر رسولؐ اللہ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا ہے تو آپؐ اسے معاف فرما دیتے ہیں ، تم بھی فوراً مدینے پہنچو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر معافی مانگ لو۔
بھائی کے خطوط سے متاثر ہوکر پہلے تو کعب نے ایک مدحیہ قصیدہ کہا، پھر مدینہ آگیا، ایک صبح جب کہ آپؐ فجر کی نماز پڑھا کر مسجد میں تشریف فرما تھے، کعب چپکے سے آپؐ کے قریب آکر بیٹھ گیا، اور آپ کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ کر کہنے لگا یارسول اللہ! میں کعب بن زہیر بن ابی سلمی ہوں ، اور تائب ہوکر حاضر ہوا ہوں ، کیا آپؐ مجھے معاف فرمائیں گے، کعب کا نام سن کر ایک انصاری صحابی کھڑے ہوئے، انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہ شخص خدا کا دشمن ہے، مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا: نہیں ، یہ شخص تائب ہوکر یہاں آیا ہے۔
قصیدہ بانت سعاد (جسے قصیدہ بردہ بھی کہا جاتا ہے)
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ کعب نے یہ قصیدہ جو تاریخ میں قصیدہ بانت سعاد کے نام سے مشہور ہے مدینہ پہنچ کر کہا، بعض کتابوں میں ہے کہ انہوں نے مدینہ آنے سے پہلے یہ قصیدہ کہا، بہ ہر حال یہ طے ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ قصیدہ پڑھا۔ کعب دور جاہلیت کے مشہور شاعر زہیر بن ابی سلمی کے بیٹے تھے، ان کی شاعری میں باپ کا رنگ صاف جھلکتا ہے، اگرچہ انہوں نے دو ر جاہلیت میں بھی شعر کہے مگر بہ حیثیت شاعر ان کو شہرت اس وقت ملی جب وہ حلقہ بگوش اسلام ہوئے اور حضرت حسان بن ثابتؓ کی طرح نعتیہ قصائد کہے۔ سب سے زیادہ شہرت ان کو قصیدہ بانت سعاد سے ملی، ساٹھ پینسٹھ اشعار پر مشتمل یہ ایک طویل نعتیہ قصیدہ ہے، شاعر نے اپنے قصیدے کا آغاز زمانۂ جاہلیت کے مطابق کیا ہے۔ یعنی پہلے اس نے اپنی تصوراتی محبوبہ سعاد کا ذکر کیا ہے جو اسے چھوڑ کر چلی گئی۔ اس موضوع پر شاعر نے تقریباً پندرہ شعر کہے ہیں ، پھر اس نے اپنی اونٹنی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے، یہ بھی جاہلی شعراء کی روایت رہی ہے کہ وہ اپنی اونٹنی کا ذکر اس طرح کرتے ہیں کہ محبوبہ بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے، اس کے بعد کعب اپنی حالت بیان کرتے ہیں کہ کس طرح اس پر عرب کی زمین تنگ ہوگئی اور کوئی بھی اسے اپنے یہاں پناہ دینے پر تیار نہ ہوا، اس کے بعد وہ عذر خواہی کی طرف آتے ہیں اور اپنی پرانی روش پر شرمندگی کا اظہار کرتے ہیں ۔ یہاں سے ان کے نعتیہ اشعار شروع ہوتے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعب کے اس معذرت خواہانہ انداز پر بے حد خوش ہوئے، بعض اشعار پر آپ نے سامعین کو متوجہ بھی کیا، کعب نے یہ شعر پڑھا: 
إنَّ الرَّسُوْلَ لَنُوْرٌ یُسْتَضَائُ بِہ مُہَنَّدٌ مِنْ سُیُوْفِ اللّٰہِ مَسَلُولُ
(بلاشبہ رسول اللہ ﷺ ایسا نور ہیں جس سے حق کی روشنی حاصل کی جاتی ہے، وہ اللہ کی تلوار وں میں سے ایک چمکدار، برہنہ ہندی تلوار ہیں )۔
یہ شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا پسند آیا کہ آپؐ نے اپنی چادر مبارک اتار کر ان کے کاندھوں پر ڈال دی۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو رسولؐ اللہ نے انہیں عطا فرمایا۔عربی میں چادر کو ’’بردہ‘‘ کہتے ہیں ، اسی لئے یہ قصیدہ ’’قصیدہ بردہ‘‘ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ کعبؓ زندگی بھر اس پر فخر کرتے رہے، انہوں نے اس مبارک چادر کو سنبھال کر رکھا، عیدین وغیرہ کے خاص موقعوں پر وہ اسے زیب تن کیا کرتے تھے۔ حضرت معاویہؓ نے اپنے عہد خلافت میں چاہا کہ ان سے یہ چادر دس ہزار دینار کے عوض خرید لیں ، مگر کعبؓ نے انکار کردیا۔کعبؓ کی وفات کے بعد حضرت معاویہؓ نے ان کے خاندان والوں سے یہ چادر بیس ہزار دینار میں خریدی، یہ مبار ک چادر بنی امیہ کے دوسرے سلاطین کے پاس یکے بعد دیگرے منتقل ہوتی رہی۔ (دلائل البیہقی: ۵/۲۰۷، ۲۰۹، زاد المعاد: ۳/۳۷۷، البدایہ والنہایہ: ۴/۳۶۹) 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK