پہلا مسئلہ ادارہ جاتی سطح پر اردو کو یرقانی جکڑ بندی میں محصور کرنے کی کوشش ہے جبکہ دوسرامسئلہ اہم عہدوں پر فائز افراد کی بیجا اقربا پروری ہے۔
ہندوستانی زبانوں کے مابین اردو کا امتیاز یہ ہے کہ اس زبان کا عوام سے رابطہ اس قدر محکم ہے کہ مابعد آزادی اس ملک کی تبدیل شدہ سیاسی صورتحال اور اس تبدیلی کے پروردہ لسانی تعصب کی زد پر رہنے کے باوصف اس کی مقبولیت میں اس حد تک کمی نہیں آئی جو فسطائی عناصر کا منشا ہے۔اس زبان نے صدیوں کو محیط اپنے لسانی،علمی اور ادبی سفر کے دوران زمانے کے سرد و گرم کا مقابلہ کرتے ہوئے جس طرح عوام کو اپنا گرویدہ بنائے رکھا وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نفرت اورتعصب کی کمیں گاہوں سے چھوڑے گئے تیر اسے عارضی طور پر زخمی تو کر سکتے ہیں لیکن اس کے وجود کو ختم نہیں کر سکتے۔محبت کے مقابلے نفرت کی عمر بہت قلیل ہوتی ہے اور جس زبان نے اس ملک میں محبت کی روایت کو فروغ دیا ہو وہ یرقانی منافرت کے آگے سپر انداز کیوں کر ہو سکتی ہے۔ کور چشم متعصب سیاست دانوں نے یہ سمجھا تھا کہ اردو کو مسلمانوں سے منسوب کر دینے سے یہ زبان ایک مخصوص مذہبی دائرے میں محدود ہو جائے گی جس سے اس کی عوامی مقبولیت بتدریج کم ہوتی جائے گی ،لیکن اس ملک کے عوام نے یہ ثابت کر دیا کہ اس طرز کی لسانی سازش کے فریب میں صرف وہی لوگ آ تے ہیں جن کا وجود نفرت کے خمیر سے تیار ہو تاہے ۔ایسی نفرت سے آلودہ اذبان ملک کی تہذیبی و ثقافتی بوقلمونی کا درک رکھتے ہیں اور نہ ہی مصدقہ سیاسی تاریخ اور لسانی تنوع سے واقف ہوتے ہیں۔چونکہ اس وقت فسطائی عناصر کو سیاسی منظرنامہ پر مرکزی حیثیت حاصل ہو گئی ہے لہٰذا اردو سے بغض وعناد کا اظہار مختلف صورتوں میں ہور ہا ہے۔
اردو کے ساتھ تعصب کے اظہارکی پہلی صورت یہ ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اردو کو یرقانی جکڑ بندی میں محصور کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ یہ کوشش کسی براہ راست اقدام کے طور پر نہیں بلکہ بالواسطہ طور پر ایسی ماحول سازی کی جاتی ہے کہ زبان و ادب کے فروغ کیلئے قائم کئے گئے اداروں میں بر سر کار افراد خود ہی ان افکار و نظریات کی نشر و اشاعت میں منہمک ہو جاتےہیں جو افکار اردو کے سیکولر کردار سے قطعی میل نہیں کھاتے۔ اردو زبان و ادب کے فروغ کی خاطر قائم کئے گئے اداروں میںاب ان شخصیات کی پذیرائی کا بھی اہتمام ہو نے لگا ہے جن کا جدوجہد آزادی میں مشکوک کردار جگ ظاہر ہے اور جن کی پوری زندگی اس ملک میں مذہبی فرقہ واریت کی تشہیر اور تبلیغ میں بسر ہوئی۔جس زبان کا سیکولر کردار اسے ملک کی دیگر زبانوں کے مابین امتیازی حیثیت عطا کرتا ہو اس زبان سے منسوب اداروں میں فرقہ پرستی اور مذہبی منافرت کی نمائندگی کرنے والوں کیلئے کسی تقریب کا انعقاد یہ ظاہر کرتا ہے کہ ان اداروں پر سیاسی جبر اس حد تک غالب آ چکا ہے جس نے ادارے کے ذمہ داران کی قوت گویائی کو سلب کر دیا ہے۔دراصل یہ معاملہ فقط جرأت اظہار کے مسلوب ہونے کا ہی نہیں بلکہ اب ان اداروں میں اہم عہدوں پر تقرری یرقانی ارباب اقتدار کی نظر کرم کا عطیہ ہوگئی ہے لہٰذا ایسی تقرری کے ساتھ یہ مخفی شرط بھی عائد ہوتی ہے کہ یہ خادمان اردو ارباب اقتدار کی ہر خواہش کا احترام کریں گے خواہ اس کا تعلق اردو زبان و ادب سے ہو یا نہ ہو۔
اُردو کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کرنے والے سیاستدانوں نے زبان و ادب کے اداروں کو اپنی سیاسی اور بعض صورتوں میں ذاتی خواہشات کی تکمیل کا وسیلہ بنا دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ اب ان اداروں میں علمی اور ادبی سرگرمیاں برائے نام ہوتی ہیں اور ان کی جگہ کبھی فیشن شو، کبھی مہندی کے مقابلے اور بہت ہوا تو شعر و ادب کے نام پر قوالی اور سطحی شاعری والے مشاعروں کا انعقاد انتہائی پر شکوہ ماحول میں کیا جاتا ہے۔
اردو اداروں کے ساتھ ایک طرف سیاسی افراد کی یہ دھینگا مشتی ہے تو دوسری جانب ان اداروں میں اہم عہدوں پر فائز افراد کی بیجا اقربا پروری ہے۔اردو کے فروغ کے عنوان سے کئے جانے والے کاموں کا بیشتر فائدہ ان عہدے داروں کے قرابت داروں اور ان حواریوں کو ہی ملتا ہے جو دن رات ان کا گن گان کیا کرتے ہیں۔اقتدار کے متعصبانہ رویہ کے سبب مالی مسائل سے دوچار ان اداروں میں اقرباپروری کے رجحان نے نہ صرف اردو کی ترویج و اشاعت کو متاثر کیا ہے بلکہ ان نا اہل افراد کو بھی نمایاں ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے جو تفہیم ادب تو بڑی بات ہے ڈھنگ سے اردو بول اور لکھ بھی نہیں پاتے۔ان اداروں کی مختلف اسکیموں سے بیشتر وہی لوگ مستفید ہوتے ہیں جو ادارے کی قد آور شخصیات کے منظور نظر ہوتے ہیں اوراردو کی خدمت کیلئے ان کی یہ حیثیت ہی انھیںاوروں کے مقابلے زیادہ اہل اورمستحق ٹھہراتی ہے۔ اس وقت اردو سیاسی حاکمیت اوران ادارہ جاتی کارستانیوں سے دوچار ہے جس کا مقصد اردو کی خدمت پر مامور افراد کے مرتبے اور شان و شکو ہ کا اظہارہوتا ہے۔ان مسائل سے دوچار اردو زبان و ادب کی لسانی و تہذیبی انفرادیت یہ بھروسہ عطا کرتی ہے کہ یہ کڑا وقت بھی گزر جائے گا اور اردو کی دلوں پر حکمرانی بھی برقرار رہے گی۔