Inquilab Logo

ہماری غیر دُور اَندیشی،غفلت اور تساہلی کی بناء پر اُردو پچھڑ رہی ہے

Updated: February 07, 2023, 3:06 PM IST | Mubarak Kapdi | Mumbai

زبان کو زندہ رکھنے کیلئے ادب کے ساتھ ہی نفسیات، طب، سائنس اورٹیکنالوجی کو بھی اپنے دامن میں جگہ دینی ضروری ہے، اس خیال کے ساتھ جہاں انگریزی زبان کا عروج ہوا، وہیں اردو کے زوال کاآغاز ہو گیا۔ رہی سہی کسر اس تشہیر نے پوری کی کہ اُردو سے روزی روٹی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا،اس کیلئے انگریزی ضروری ہے

The Urdu people did not understand the changing mood of life and times, due to which they went backwards with each passing day.
زندگی اور زمانے کے بدلتے مزاج کو اُردو والوں نے نہیںسمجھا، جس کی وجہ سے ہرگزرتے دن کے ساتھ پیچھے ہوتے چلے گئے

ہمیں سب سے پہلے یہ یاد رکھنا ہے کہ وطن عزیز کے جن علاقوں میں اُردو اسکولوں اور کالجوں میں قائم ہے، بس وہیں وہ زندہ ہے۔ صرف مشاعروں میں زندہ رہ کر اُردو ہرگز قائم نہیں رہ سکتی۔ اب یہ سوچئے کہ اردو اسکولوں اور اردو زبان کے زوال کے اسباب کیا ہیں؟ اب اُردو زبان کے زوال کی جب بات کی جاتی ہے تو کچھ افراد بڑے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اُردو پر کبھی زوال نہیں آسکتا۔ یہ زبان دُنیا کی سب سے شیرین زبان ہے، یہ گنگا جمنی تہذیب کی علمبردار ہے۔ یہ اس ملک کی آن و بان ہے.... سارے جہاں میں دھوم..... ہم کو مٹا سکے یہ..... وغیرہ وغیرہ۔ 
 اُردو /فارسی کے مقابلے انگریزی کیسے جیتی
 ہم اس کے آغاز ہی میں کہہ چکے ہیں کہ۱۸۵۷ء میں برطانوی تخت نے مسلمانوں کی حکومت اور ان کی زبان و تہذیب کی جب اینٹ سے اینٹ بجادی تب اس قوم پر انگریزوں کی ایسی دہشت طاری ہو گئی کہ ان کی زبان و کلچر کو اپنانا بھی ایک شان بن گئی اور انگریزی زبان کو’ آقا‘ کی زبان کا درجہ حاصل ہو گیا۔ البتہ اب ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ معاملہ کچھ اس سے آگے کا ہے۔ انگریز صرف اپنی تجارت، صنعت و حرفت اور اقتدار کے لئے برِّصغیر کی جانب نہیں آئے تھے بلکہ اپنی زبان، ثقافت اور کلچر کا بھی سکّہ جمانا تھا اور اُس کے لئے اُن کی تیاری بالکل منصوبہ بند تھی۔ در اصل ہم جب ’ظلِّ الٰہی اور’ مہابلی‘ کے نشے میں چور تھے اُسی دوران یعنی ۱۸۳۵ء تھامس میکالے نے برِّصغیر سے فارسی زبان کے سرکاری زبان کے خاتمے اور اُس کی جگہ پر انگریزی کو سرکاری زبان کے درجے کا اعلان کیا۔
  اس کا مطلب اور اس کے نتائج کیا ہوں گے یہ سمجھنے کی بصیرت ہمارے یہاں بچی نہیں تھی کیونکہ ہمارے شہزادے اور نواب زادے اس وقت ان شغل میں مصروف ہو گئے تھے: تیتر بازی، بٹیر بازی، مرغ بازی اور پتنگ بازی۔ انگریزوں کے ایک فیصلے سے فردوسی، عمر خیام ، سعدی اور حافظ و جامی کے شاہکاروں کے صفحات ہوا میں اُڑنے لگے جس کا افسوس تو در کنار احساس بھی بہت کم لوگوں کو ہوا۔ اپنی زبان کو مستحکم اور رائج کرنے کے لئے انگریزوں نے ہوا میں قلعے نہیں بنائے بلکہ ایک منظم منصوبہ تیار کیاتھا۔ جس میں انہوں نے اوّلیت دی تمام جدید علوم کو۔ حالانکہ اس سے صرف ایک صدی پہلے وہ اس بات کے منتظر رہتے تھے کہ مسلم ماہرین کی جدید علوم سے کب ، کون سی نئی تحقیق یا تصنیف منظر عام پر آئی ہے، اس کا فوراً انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے۔ زبان کو زندہ رکھنے کے لئے ادب کے ساتھ ساتھ نفسیات، طب، سائنس اورٹیکنالوجی کو بھی اپنے دامن میں جگہ دینی ضروری ہے۔ بس اس خیال کے ساتھ ہی انگریزی زبان کا عروج اور اردو کے زوال کا آغاز ہوا۔ بیسویں صدی کا نصف فکشن پر محیط تھا، تب تک فارسی اس ملک سے رخصت ہو چکی تھی اور اُردو زبان اپنے ادب و شاعری کے دم خم پر زندگی کے بیشتر شعبوں پر چھائی بھی رہی۔ اُس کے بعد سائنس کا دَور شروع ہوا اور گزشتہ صدی کی آخری دو دہائیوں سے ٹیکنالوجی کے دَور کا آغاز ہوا جو آج  اپنے عروج پر ہے۔ 
 زمانے کے بدلتے مزاج کو اردو والوں نے نہیں سمجھا
 تقسیم ہند کااثر صرف انسانوں پر نہیں بلکہ زبانوں پر بھی پڑا... اور اردوپر قہر بن کر ٹوٹا۔ اس پر لیبل بھی لگا کہ یہ مسلمانوں کی زبان ہے اور پھر ہوا بھی یہ کہ آزادی کے بعد غیر مسلموں نے اردو کے مشاعرے تو لُوٹے البتہ شاید ہی کہیں اپنے بچّے کو اردو اسکول میں داخل کرایا ہو۔ اس طرح اردو صرف مسلمانوں کی زبان ہے ، اس قول کو تقویت ملنے لگی۔ البتہ اردو صرف مسلمانوں کی زبان قرار دیئے جانے کے بناء پر تنزلی کا شکار نہیں ہوئی۔ ہو ا صرف یہ کہ زندگی و زمانے کے بدلتے ہوئے مزاج کو اردو دانوں نے نہیںسمجھا۔ اردو کے بچّے :لو دلّی سے ابّاآئے، جادو کا ایک ڈبہّ لائے، گنگنا رہے تھے اور تب تک انگریزی زبان ریڈیوسے نکل کر سیٹیلائٹ ٹیکنا لوجی میں پہنچ چکی تھی۔ ملک کی سرحدیں سمٹنے لگیں ،خلیجی ممالک سمیت دیگر ممالک میں ملازمتوں کے دروازے کھلتے گئے اور پھر ہر ذہن و دل میں یہ بات بستی چلی گئی کہ زبان وہ اچھی جو روزگار سے جوڑ دے۔ یہ خام خیالی کس قدر نقصان دہ ہے کسی بھی قوم کے لئے اس پر تفصیلی بحث پھر کبھی البتہ اردو روزی روٹی والی زبان نہیں ہے، یہ بات عام ہوتی گئی۔ زبان اور روزی روٹی کا چولی دامن کا ساتھ بنتا گیا اور اس سے اس ملک کی کوئی زبان متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔
کاش !ہم نے جدید علوم کو اُردو کے دامن میں سمیٹا ہوتا
  انگریزی کی اس سونامی کو روکنے کے لئے اس ملک کی حکومت نے ایک بڑی ہی بچکانہ پالیسی اپنائی۔۱۹۷۶ء میں حکومتِ ہند نے ایک پالیسی کا اعلان کر دیا کہ اس ملک کی ساری علاقائی زبان اور قومی زبان ہندی کے کسی بھی تعلیمی ادارے کو حکومت مالی امداد فراہم کرے گی البتہ انگریزی زبان کے کسی بھی اسکول کو حکومت پھوٹی کوڑی بھی نہیں دے گی۔ ’’پھر دیکھتے ہیں یہ زبان کیسے پھلتی پھولتی ہے؟ ‘‘یہ اقدام بالکل ایسا ہی تھا جیسے کسی سیلاب کو روکنے کے لئے صرف پتوار لے کربیچ دریا میں کھڑا ہوا جائے۔ جو بات اس ملک کے ’ذمہ داران‘ کو سمجھ میں نہیں آئی وہ یہ کہ میکالے اینڈ کمپنی نے اس ملک پر انگریزی لادنے سے پہلے اپنا ہوم ورک پورا کر لیا تھا۔ لوگ دیوانہ وار ایک ہی لے ،سُر اور تال میں گانے لگے کہ جو زبان عالمی مارکیٹ میں ہمیں روزی روٹی دے ، وہی میری زبان، اور پھر فارسی و اردو کی شیرینی بھی اکثر لوگوں کو تیکھی لگنے لگی۔ میر، داغ، غالب، اقبال، ولی اور ذوق کے ہم پلّہ شاعر انگریزی میں بھی نہیں (انگریزی کے چند اساتذہ شاید اس سے اتفاق نہ کریں) البتہ گلوبلائزیشن نے انسان کو مادّہ پرستی کی ریس کا گھوڑا بنا دیا ہے جو سر پٹ دوڑے جارہا ہے۔ بینک بیلنس ترقی کا پیمانہ ہو گیا ہے۔ خوشحالی کی تعریف پوش علاقے میں دو بیڈ روم کا گھر اور سکونِ قلب یعنی بیٹوں کی پیدائش اور ان کے لئے ان کے ہم پلّہ تنخواہ حاصل کرنے والی بہو ئیں۔ اس طرح لوگوں نے اپنے بچّوں کے بہتر مستقبل کے لئے انگریزی زبان کو ’جدید مسیحا‘ مان لیا۔ یہ سارا طلسم دھرا کے دھرا رہ سکتا تھا اگر علاقائی زبانوں نے انگریزی زبان سے مقابلہ کرنے کے لئے جدید ہتھیاروں سے اپنے آپ کو لیس کر لیا ہوتا۔ اس ملک میں پھر بھی ریاستی زبانیں انگریزی کے یلغار سے اردو کے مقابلے کم گھاٹے میں رہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اردو ویسے تو کشمیر سے کنیا کماری کی زبان کہی جاتی ہے مگر اس کے پاس اپنا گھر کہیں نہیں۔ دیگر ریاستی زبانوں کے پاس اپنا اپنا ٹھکانہ ہے، اس لئے انٹر نیشنل مارکیٹ میں نہ سہی ، علاقائی منڈی میں ان زبان والوں نے ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔
  اردو اس میں ناکام رہی یعنی اردو والے اس محاذ پر ناکام رہے۔ اس محاذ پر کامیابی صرف اس طرح ممکن ہوتی اگر ہم اردو والے کھلے دل سے اعتراف کرتے کہ ہماری زبان دیگر زبانوں سے پچھڑ چکی ہے البتہ زندگی و زمانے کے ریس میں یہ دوبارہ واپس آسکتی ہے اگر ہم اس کے لئے صحیح سمت میں محنت کریں اور صحیح سمت میں محنت کا مطلب یہ ہے کہ انگریزی زبان میں حاصل سارے جدید علوم کو ہم اپنے دامن میں بھی سمیٹیں البتہ اس معاملے میں ہماری تساہلی کا یہ عالم رہا کہ انگریزی سے اردو زبان میں اصطلاحات کو طے کرنے کے لئے پہلی کمیٹی ۱۹۲۷ء میں حیدرآباد میں تشکیل پائی اور اس کی پہلی رپورٹ ۱۹۴۲ء میں آئی اور اس میں بھی کئی اصطلاحات پر اتفاق بھی نہیں ہو سکا کہ انگریزی کے کسی لفظ کے لئے اردو لفظ کی تجویز حیدرآباد میں ایک تھی، دہلی میں دوسری اور لاہور میں تیسری لہٰذاکمیٹی ہی برخاست ہوگئی۔n(جاری)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK