Inquilab Logo

وطن کی آزادی میں اُردو صحافت نے غیر معمولی کردار ادا کیا تھا

Updated: August 12, 2022, 11:13 AM IST | Imam Ali Falahi | Hyderabad

آزادی کے ’’امرت مہوتسو‘‘ پر ضروری ہے کہ ہم اپنے اسلاف کی جدوجہد کو یاد کریں جس میں صحافت کو بطور ہتھیار استعمال کیا گیا۔ اس مضمون میں ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کا جائزہ لیا گیا ہے۔

 Urdu journalism played a very important role in the freedom of the country .Picture:INN
وطن کی آزادی میں اردو صحافت نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بڑا کارنا مہ انجام دیا۔ تصویر:آئی این این

جب برطانوی حکومت نے ہندوستان میں اپنا پرچم لہرا دیا اور یہاں کے لوگوں پر حکومت کرنے لگی تو ہندوستانی باشندے پریشان ہوگئے، یہاں کے لوگوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، جس کی وجہ سے لوگ اپنے غصے کا اظہار مختلف انداز میں کر رہے تھے اور حکومت سے باغی ہو چکےتھے۔ یہ باغیانہ جنون دن بہ دن بڑھتا جا رہا تھا۔ برطانوی حکومت کے ظلم و ستم بڑھنے کے باعث ملک کے دانشوروں، عالموں، شاعروں، مفکروں اور وطن پرستوں نے یہ محسوس کیا کہ اب صبر کا دامن لبریز ہو چکا ہے، اب زیادہ برداشت نہیں ہوگا چنانچہ اب ہم سب کو آگے آنا ہوگا اور ظالم حکومت کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر بات کرنا ہوگا اور اس ملک کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنا ہوگا۔ جس کے لئے ہم سب کو مل کر وسیع پیمانے پر لڑائی لڑنی ہوگی، عوام کو یکجا کر کے ہم فکر لوگوں کی جماعت بنانی ہوگی۔ لیکن اس وقت لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کوئی مؤثر ذریعہ نہیں تھا، نہ اس وقت کوئی موبائل فون تھا، نہ ہی انٹرنیٹ نام کی کوئی شے تھی۔ رہی بات خط و کتابت کی تو اس کے ذریعے ایک پیغام پہنچتے پہنچتے ہفتے اور مہینے نکل جاتے تھے، اسی لئے اس وقت کے دانشوروں نے یہ خیال کیا کہ لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بہتر ذریعہ اخبار ہو سکتا ہے اور اسی کے ذریعے بہتر طریقے سے لوگوں کو متحد کیا جاسکتا ہے چنانچہ چند وطن پرستوں نے اپنے احساس کو قلم کی طاقت بخشی جس کی وجہ سے اردو صحافت نے ایک تحریک کی شکل اختیار کرلی، جس سے عوام کو بیدار کرنے میں آسانی پیدا ہوگئی، پھر اردو اخبار ہی کے ذریعے عوام کو متحد کیا گیا اور انہیں متشدد برطانوی حکومت کے خلاف جدوجہد کیلئے تیار کیا گیا۔ تبھی اکبر الہ آبادی نے کہا تھا: 
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
 پتہ یہ چلا کہ صحافت کا معاشرے سے چولی دامن کا ساتھ رہا ہے جو کہ سماج پر پوری طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک کے ان چند اخبارات و رسائل کو یہاں پر ذکر کرنا مناسب سمجھتاہوں جو خالص سیاسی تھے او رجن  کے ذریعے قومی شعور کو بیدار کیا گیا اور جدوجہد ِ آزادی کے لیے زمین ہموار کی گئی۔(۱)سحر سامری ۱۸۵۶ء (۲) تاریخ بغاوت آگرہ ۱۸۵۹ء  (۳) اتالیق ہند ۱۸۷۴ء (۴) شمس الاخبار ۱۸۵۹ء (۵) خیر خواہ خلق ۱۸۶۰ء  (۶) اخبار عالم ۱۸۷۱ء (۷) کشف الاخبار ۱۸۶۱ء (۸) قاسم الاخبار ۱۸۶۶ء (۹) صادق الاخبار ۱۸۶۵ء (۱۰) زمیندار ۱۹۰۹ء (۱۱) الہلال ۱۹۱۲ء (۱۲) دہلی اُردو اخبار ۱۹۳۶ء  مذکورہ بالا اخبار کا طرز تحریر‌زبان و بیان اور لب و لہجہ براہ راست انگریزوں کے خلاف ہی نہیں بلکہ تلخ بھی ہوتا تھا، ۱۸۵۷ء کی قیامت صغریٰ کے فرو ہونے کے بعد اخباروں کے مدیروں پر مظالم ڈھائے گئے اور ان کے اخبار و مطابع ضبط کر لیے گئے لیکن انہوں نے ہنستے ہنستے ان تمام مظالم کو برداشت کیا اور ملک کے لئے جان کی بازی لگادی۔’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے بارے میں امداد صابری ’’روح صحافت‘‘ میں لکھتے ہیں کہ دہلی میں جب تک جنگ آزادی جاری رہی اس وقت تک دہلی اردو اخبار نے نہ صرف اپنے صفحات کو آزادی کے لیے وقف کیا تھا بلکہ ا س کے بانی مولوی محمد باقر نے قلم کے میدان کے علاوہ باقاعدہ میدان میں اُتر کر بھی انگریزوں سے جنگ کی تھی اور جس وقت جنگ ناکام ہوئی اور انگریز دہلی پر قابض ہوگئے تو اخبار بند ہونے کے ساتھ ساتھ مولوی محمد باقر کو جام شہادت نوش کرنے جیسے انتہائی ظلم کا بھی نشانہ بننا پڑا۔ ’’صادق الاخبار‘‘ کے بارے میں عتیق احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ دہلی کا سب سے زیادہ قابلِ ذکر اخبار صادق الاخبار تھا جس نے بغاوت کے جذبات کی تخم‌ریزی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا اور جس نے بغاوت کے دوران باغیوں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی تھی۔صادق الاخبار جنگ آزادی میں پیش پیش رہا ۔ اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام و خواص دونوں میں ازحد مقبول تھا۔ لکھنؤ سے ایک اخبار ’’سحر سامری‘‘ نکلتا تھا جو اس دور کے حالات اور حکمرانوں کی بد انتظامیوں کا انکشاف کرتا تھا۔’’تاریخ بغاوت ہند‘‘ بھی اسی دور کا اخبار تھا جو آگرہ سے نکلتا تھا۔ اس اخبار میں ہندوستان کے مختلف علاقوں اور شہروں میں رونما ہونے والے جنگ آزادی کے واقعات سلسلہ وار شائع ہوتے تھے۔ ’’اخبار عالم‘‘  جو کہ لاہور سے نکلتا تھا، حکومت کی بد انتظامیوں پر نکتہ چینی کرتا تھا اور حاکموں کی جانبدارانہ رویوں کی نقاب کشائی کرتا تھا۔’’اتالیق ہند‘‘ بھی لاہور سے شائع ہوتا تھا۔ یہ اخبار حکومت کو مشورے دیتا تھا اور ہندو مسلم اتحاد کی باتیں کرتا تھا۔ ’’زمیندار‘‘ عوام میں بہت مقبول تھا۔ اس کے انداز و اسلوب کے بارے میں خورشید عبد السلام نے لکھا ہے کہ اس دور کے سیاسی اداریے بلند آہنگ اور خطیبانہ انداز اور بیباکی و طوفانی سیاست کے غماز ہیں، اس اخبار نے عوام کے دلوں میں  غیر ملکی حکومت کا خوف دور کیا اور صداقت پر رہ کر اپنی بات کہنے کا درس دیا۔ ’’الہلال‘‘ کے بارے میں امداد صابری نے ’’تاریخ صحافت اردو‘‘ میں لکھا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد کی ادارت میں الہلال نے ہندوستان کے عوام کو انگریزوں کے خلاف جدو جہد کی ہی دعوت نہیں دی بلکہ انہیں یہ بھی بتایا تھا کہ انگریز سامراج کے خلاف ان کی جدوجہد تمام آزاد پسند اقوام کی جدوجہد کا ایک جزو ہے۔ اس طرح الہلال نے ہندوستان کے مجاہدین آزادی کے ذہنی افق کو وسعت بخشی اور ان کے عزائم اور ارادوں کو پختگی دی۔ بہر حال! یہ اور ایسی کئی مثالوں سے پتہ چلتا ہے کہ وطن کی آزادی میں اردو صحافت نے نہایت اہم کردار ادا کیا اور ہندوستانیوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا بڑا کارنا مہ انجام دیا۔ اردو صحافت ہی کے ذریعے ہندوستانیوں میں آزادیٔ وطن کا تصور پیدا ہوا جس کے نتیجے میں وطن عزیز کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرایا جاسکا۔
(مضمون نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد ، جرنلزم اینڈ ماس کمیونی کیشن کے معلم ہیں)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK