Inquilab Logo Happiest Places to Work
Ramzan 2025 Ramzan 2025

زبانیں اسی وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک ان کے سمجھنے والے موجود ہوں

Updated: March 02, 2025, 12:26 PM IST | Ahmad Nadeem Qasmi | Mumbai

زبانوں کے بارے میں وقتاً فوقتاً بحثیں چلتی رہتی ہیں۔ ان کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی ایک تحریر ملاحظہ کیجئے جس میں اردو سے متعلق جن خیالات کا اظہار کیا گیا ہے وہ آج بھی درست ہیں اور توجہ کے مستحق ہیں۔

Every new invention, every new idea brings with it a storehouse of special words that languages ​​adapt to suit their own tastes. Photo: INN.
ہر نئی ایجاد، ہر نیا نظریہ خاص الفاظ کا ایک ذخیرہ اپنے ساتھ لاتا ہے جسے زبانیں اپنے اپنے مزاج کے مطابق اپناتی چلی جاتی ہیں۔ تصویر: آئی این این۔

نئے الفاظ اور نئے مفاہیم
جس زبان میں نئے الفاظ یا مروجہ الفاظ کے نئے مفاہیم کا داخلہ رک جائے وہ نیم مردہ ہوجاتی ہے۔ اور اگر وہ اس طرز عمل پر بضد رہے تو مر جاتی ہے۔ مگر زبان میں نئے الفاظ کسی شعوری اہتمام سے داخل نہیں کئے جاتے۔ ہر زبان کا ایک مزاج ہوتا ہے اور نئے سے نئے الفاظ اسی مزاج کی مناسبت سے زبان میں داخل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ داخلہ اتنا غیرشعوری اور بے آواز ہوتا ہے کہ لسانیات کے ماہرین کو بھی زبان کے بڑھتے ہوئے ذخیرۂ الفاظ کا احساس بروقت نہیں ہوپاتا۔ پھر یہ الفاظ گھڑے نہیں جاتے بلکہ علم و فن اور تہذیب و تمدن کی غیر مرئی چھلنیوں میں سے چھن چھن کر آتے رہتے ہیں۔ 
اسی طرح مروجہ الفاظ جب سلیقے کے ساتھ کسی نئے حوالے سے اور کسی مختلف کانٹیسٹ میں استعمال ہوتے ہیں تو ان کے مروجہ مفاہیم میں ایک نئے مفہوم کا اضافہ ہوتا ہے چنانچہ وہی زبانیں امیر نہیں ہوتیں جن میں الفاظ کا ذخیرہ بہت بڑا ہو، وہ زبانیں بھی اس امارت کا دعویٰ کر کرسکتی ہیں جن کا ایک ایک لفظ متعدد مفاہیم ادا کررہا ہو، اور یہ مفاہیم اس لفظ کے مزاج اور فضا سے ہم آہنگ ہوں۔ اس ضمن میں بھی زبان کے ماہرین کو کسی قسم کی کاوش کی ضرورت نہیں پڑتی کیونکہ جو زبان بالیدگی کی صفت سے محروم نہیں ہوتی اس کے الفاظ اپنے بدلتے ہوئے مفاہیم کے خود ذمہ دار ہوتے ہیں اور الفاظ کو خودفریبی نہیں آتی۔ 
زبانوں کے معمار…شعراء
عموماً کہا جاتا ہے کہ علوم، خاص طور سے سائنٹیفک علوم میں ترقی کے ساتھ ساتھ زبان کے ذخیرۂ الفاظ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بالکل درست ہے۔ ہر نئی ایجاد، ہر نیا نظریہ خاص الفاظ کا ایک ذخیرہ اپنے ساتھ لاتا ہے جسے زبانیں اپنے اپنے مزاج کے مطابق اپناتی چلی جاتی ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ زبانوں کو مالا مال کرنے میں جو کردار شعراء نے ادا کیا ہے وہ قطعی بے نظیر ہے۔ دراصل جب کوئی زبان کسی شاعر کا ذریعۂ اظہار بنتی ہے تو سیال صورت اختیار کرلیتی ہے۔ تب اس کے الفاظ اتنے حساس ہوجاتے ہیں کہ شاعر کے فکر کے ذرا سے مس سے بھی ان میں ارتعاش کی سی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب الفاظ کےخول پگھل جاتے ہیں اور نئے سے نئے مفاہیم قبول کرنے کے لئے ان کی آغوش وا ہوجاتی ہے۔ اگر بڑے بڑے شعراء کا مطالعہ اس نقطۂ نظر سے کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہر اہم شاعر زبان کو الفاظ اور ان کے نئے مفاہیم کے سلسلے میں بہت کچھ دے گیا ہے اور دے رہا ہے۔ 
اب تو یہ ظاہر ہے کہ شعراء شعر کہنے سے پہلے نئی فرہنگیں مرتب نہیں کرتے اور نہ اپنے چار طرف منتخب اور پسندیدہ الفاظ کا انبار لگا کر بیٹھتے ہیں کہ شعر کہتے ہوئے مناسب الفاظ کی جستجو انہیں پریشان نہ کرے۔ اس حقیقت کو ایک شاعر ہی جانتا ہے کہ شعر کا موضوع اپنے الفاظ اپنے ساتھ لاتا ہے۔ پھر جب یہ الفاظ شاعر کے فکر اور جذبے اور احساس کے اظہار میں استعمال ہوتے ہیں تو بالکل ضروری نہیں ہے کہ یہ استعمال ان کے مروجہ مفاہیم کے مطابق ہی ہو۔ البتہ نئے مفاہیم کا مروجہ مفاہیم سے رشتہ ضرور قائم رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو تو زبانیں نراج کا شکار ہوجایں کیونکہ زبانیں تو اسی وقت تک زندہ رہتی ہیں جب تک ان کے سمجھنے والے موجود ہوں۔ اگر کوئی زبان مفہوم کے ابلاغ اور معنی کی ترسیل سے قاصر ہے یا یہ ذمہ داری کماحقہ ادا نہیں کرتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ زبان بوڑھی ہوگئی ہے اور اس نے قبر میں پاؤں لٹکا دیئے ہیں۔ 
نئے مسائل، نئی زبان
علمی اصطلاحوں کی اہمیت مسلم، مگر کوئی زبان اس وقت تک زندہ اور توانا زبان نہیں بن سکتی جب تک وہ انسانوں کے نازک سے نازک جذبے کے اظہار پر بھی قادر نہ ہو۔ ادھر ترقی پزیر زبان اظہار کی شکل میں شاعر کا ہاتھ بٹاتی ہے، اُدھر شاعر اس زبان کے الفاظ کے فنکارانہ استعمال سے اسے نئے مفاہیم سے مالامال کرتا چلا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ متذکرہ زبان کسی مرحلے پر جامد نہیں ہوپاتی۔ اردو اسی لئے ایک ترقی پزیر زبان ہے۔ صرف آج کی مثال لے لیجئے کہ شاعری کہ موضوعات بدل رہے ہیں، انفرادی جذبوں نے اجتماعی نوعیت اختیار کرلی ہے، انسان کو نئی کامرانیوں اور نئی رسائیوں کے ساتھ ساتھ نئے خطروں اور نئے المیوں کا بھی سامنا ہے۔ انسان جتنا ترقی یافتہ ہورہا ہے اتنا ہی غیرمحفوظ بھی ہورہا ہے۔ وہ خوش ہے کہ چاند کو چھورہا ہے مگر ڈر رہا ہے کہ آئندہ جنگ میں چاند بھی ایک محاذ بن سکتا ہے جہاں سے موت کی شعاعیں کرۂ ارض پرڈالی جاسکتی ہیں۔ وہ حیران ہے کہ سائنس اور صنعت کی اتنی اندھادھند ترقی کے باوجود اس کرّے کے کروڑوں انسان نان شبینہ کے محتاج ہیں اور اسی دور میں ایسے انسان بھی موجود ہیں جو اپنے کروڑوں بھائیوں کی اس احتیاج کو برقرار رکھنے پر بضد ہیں۔ انسان اداس ہے کہ وہ سچائی اور نیکی کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب عملی زندگی میں پہلا قدم دھرتا ہے تو اسے جھوٹ اور منافقت سے سابقہ پڑتا ہے۔ اس تضاد نے اس کے ذہن کو مجروح کررکھا ہے۔ ماضی میں بھی برائی کا وجود یقیناً تھا مگر تب تک برائی اس انتہا کو نہیں پہنچی تھی کہ انسانی زندگی کا کوئی بھی ادارہ اس سے محفوظ نہ ہو۔ اردو زبان کے جدید شعراء کو ان جدید مسائل کا سامنا ہے مگر میرے اس دعوے سے شاید ہی کسی کو اختلاف ہو کہ اظہار، ابلاغ اور ترسیل کے معاملے میں اردو زبان نے اپنے نئے شاعروں کے ساتھ بے وفائی نہیں کی۔ غزل ہو یا نظم، انہوں نے ایسے ایسے جذبوں کو فن کا جامہ پہنایا ہے جن سے میرؔ، غالبؔ بلکہ اقبالؔ تک کا دور ناآشنا تھا۔ ساتھ ہی ان نئے شاعروں نے بھی اردو زبان کو گزشتہ چند ہی برس کے عرصے میں نئے الفاظ اور مروجہ الفاظ کے نئے مفاہیم کے سلسلے میں اتنا باثروت بنادیا ہے کہ صرف بیس پچیس برس پہلے فرہنگیں بھی پرانی معلوم ہونے لگی ہیں۔ جو لوگ جدید شاعروں کو محض اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ جدید یعنی کچے ہیں، وہ ایک بہت بڑی نعمت سے محروم ہیں۔ 
زبان سے دشمنی
اردو زبان (اور شاید ہر پھولتی پھلتی زبان) کا ایک المیہ بھی ہے کہ جب اس زبان میں کوئی نیا لفظ داخل ہو یا پرانا لفظ نئے مفہوم کے ساتھ استعمال ہو تو ایسے عناصر موجود ہوتے ہیں جو احتجاج کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔ انہوں نے ہر لفظ کا ایک خول بنا رکھا ہے۔ یہ لفظ اگر اس خول سے باہر جھانک لے تو اس کا ناموس خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ دراصل یہ لوگ زبان کی نامیابی خصوصیت سے بے خبر ہیں۔ وہ یہ تک سوچنے کے اہل نہیں ہیں کہ اگر اردو زبان ان اضافوں سے محروم رہ جاتی تو بہادر شاہ ظفر کے دور تک پہنچتے پہنچتے مر جاتی۔ غالبؔ کی غزلوں کی زبان پر لے دے کرنے والے اگر غالبؔ کو خاموش کرنے میں کامیاب ہوجاتے تو اردو شاعری مرزا داغ دہلوی کے رنگ ِ تغزل سے آگے نہ بڑھتی۔ اگر نظیر اکبرآبادی کے ساتھ ہم وہی سلوک کرتے جو نواب مصطفیٰ خاں شیفتہؔ اور مولانا محمد حسین آزادؔ نے کیا تو اردو نظم قدیم مثنویوں کی ڈکشن میں اسیر ہوتی۔ اگر اقبالؔ سیکڑوں نامانوس الفاظ کو اپنے کمالِ فن سے اس حد تک مانوس نہ بنادیتے کہ آج وہ ہمیں اردو زبان کا ناگزیر حصہ معلوم ہوتے ہیں تو آج کے شاعر کو اظہار میں بے شمار دشواریاں پیش آتیں۔ یہ لوگ ہمارے فنی ذخائر کے علاوہ ہماری زبان کے ذخا’ر میں بھی اضافے کرتے رہے اور اضافوں کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ان اضافوں کو زبان کے ساتھ بدسلوکی قرار دینے والے اپنی بے خبری اور سادہ لوحی کے باعث اردو زبان کے ساتھ دشمنی کررہے ہیں۔ اگر وہ اپنی زبان سے اتنی محبت کرتے ہیں تو انہیں ترقی پزیر زبانوں کے سلسلۂ عمل سےبھی تو باخبر ہونا چاہئے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK