Inquilab Logo Happiest Places to Work

ایک خط اپنے استاد کے نام

Updated: October 02, 2023, 1:11 PM IST | Mohammad Rafi Ansari | Bhiwandi

صابر سر، آداب،یہ خط آپ کے حکم کی تعمیل میں لکھ رہا ہوں۔ ہر چند کہ اب خط کے بجائے اشارے سے مطلب براری ہوتی ہے لیکن آپ مجھے ہمیشہ خط لکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ میرا خط جسے دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

صابر سر، آداب،یہ خط آپ کے حکم کی تعمیل میں لکھ رہا ہوں۔ہر چند کہ اب خط کے بجائے اشارے سے مطلب براری ہوتی ہے لیکن آپ مجھے ہمیشہ خط لکھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ یہ میرا خط جسے دیکھ کر آپ خوش ہوتے ہیں۔ یہ آپ کی عطا ہے۔ آنجناب کی خوش خطی کی مشق کی نشانی ہے۔ اب حالات دوسرے ہیں ان دنوں مدرسوں میں خوش خطی کی مشق کو مشقِ ستم سے تعبیر کیا جاتا ہے۔جب سے آدمی جلد باز اور عجلت پسند ہوا ہے وہ بد خط بھی ہوا ہے۔ اسی لئے ارباب ِمدرسہ اس مشق کو بند کرکے اپنی گلو خلاصی کرتے ہیں۔آپ کو ہمیشہ ’خط ‘ سے ایک والہانہ لگاؤ رہا ہے۔ اس ضمن میں غالبؔ کے خطوط بھی آتے ہیں۔آپ سال میں ایک بار غالبؔ کے خطوط کا مطالعہ کرنا باعثِ خیر و برکت خیال کرتے ہیں۔غالبؔ کے خطوط آج بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔کہتے ہیں کہ غالبؔ اپنے عہد سے پہلے پیدا ہو گئے تھے۔غالبؔ نے جہاں اور بھی بہت کچھ کیا وہیں مراسلہ کو مکالمہ بھی بنادیا۔ غالبؔ کے طرفداروں نے اب مکالمہ کو گرافکس میں تبدیل کردیا ہے۔کم لفظوں میں زیادہ باتیں کہنا اور تصویروں کے ذریعے ان باتوں کو آسانی سے سمجھاناغالبؔ شناسوں کا شیوہ ہے۔ غالبؔ نے مصوری اسی لئے سیکھی تھی۔ اس کا ثبوت ان کا یہ شعر ہے:   
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئے ہم مصوری=تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے
 آپ ہمیشہ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ میں ان دنوں کون سی کتاب پڑھ رہا ہوں۔ سر گستاخی معاف ہو تو عرض کروں ۔معاملہ یہ ہے کہ کتاب لکھنے والے دوسروں کی کتابیں کم ہی پڑھتے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ اب لوگوں نے ان کی کتابیں بھی رفتہ رفتہ پڑھنی چھوڑ دی ہیں۔ اس میں کچھ بالغ نظروں کا نقصان بھی ہوا ہے مگر اس کو کیا کیا جائے کہ گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسا جاتا ہے۔ہمارے ایک کرم فرما تھے جنھیں مطالعہ راس نہیں آتا تھا۔ جب بھی مطالعہ کا آغاز کرتے بیمار پڑ جاتے۔ لوگوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا جب بھی کچھ اچھا پڑھنے کے ارادے سے کوئی نئی کتاب اٹھاتا ہوں۔ چند ہی سطروں کے بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تو میرا پڑھا ہوا ہے۔ اس لئے تنگ آکر میں نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا۔ویسے سَر یقین کریں ان دنوں میں افلاطون کی کتاب ’ جمہوریت ‘ پڑھ رہا ہوں۔ آپ پوچھیں گے کیوں ؟ تو عرض ہے کہ جب سے مجھے اپنے ملک کی جمہوریت کو خطرہ محسوس ہوا ہے مجھے جمہوریت سے ہمدردی ہوگئی ہے۔ افسوس!حکمرانوں میں اساتذہ کی تعداد دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے۔جب تک ایسا نہ تھا حالات خراب نہ تھے۔استاد اگر حاکم ہو جائے تو اس کا فائدہ رعیت کو ملتا ہےکیونکہ استاد کی زندگی کی جڑیں محبت کے سرچشمے سے سیراب ہوتی ہیں۔بقولِ شخصے’ یہ وہاں امید رکھتا ہے جہاں دوسرے امید چھوڑ دیتے ہیں۔وہاں تازہ دم رہتا ہے جہاں دوسرے تھک جاتے ہیں۔اسے وہاں روشنی دکھائی دیتی ہے جہاں دوسرے اندھیرے کی شکایت کرتے ہیں۔یہ زندگی کی پستیوں کو بھی دیکھتا ہے لیکن ان کی وجہ سے اس کی بلندیوں کو بھول نہیں جاتا۔بڑے کی قدر کے ساتھ ساتھ چھوٹے کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرتا‘۔اب دور دور تک کوئی ڈاکٹر رادھا کرشنن جیسا ذی علم اور ذی استعداد نظر نہیں آتا۔ڈاکٹر موصوف کی علمی صلاحیتوں کا اعتراف پورے عالم میں کیا گیاتھا۔ مختلف ممالک کی سترہ یونیورسٹیوںنے انہیں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری تفویض کی تھی۔جنابِ عالی! افلاطون کی یہ بات میں نے گرہ میں باندھ لی ہے کہ’ ’استاد پہلے خود کچھ سیکھتا ہے اس کے بعد دوسروں کی رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ 
 جناب!آپ کو یہ جان کر خوشی ہوگی کہ ڈاکٹر کرشنن کی یاد میں ہمارے یہاں ’یومِ اساتذہ‘ جوش و خروش کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اس میں اوروں کے مقابلے میں اساتذۂ کرام بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں۔ممبئی سے قریب اہلِ دل کی ایک بستی ’ممبرا ‘ نام سے آباد ہے۔ ممبرا میں یومِ اساتذہ کی تقریب کا اہتمام علم دوستوں نے کیا ہے۔ممبرا اپنی نوعیت کی ایک الگ بستی ہے۔بعض باتوں میں ممبرا ،امروہہ سے قریب معلوم ہوتا ہے۔ امروہہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ امروہہ شہرتخت ہے۔ گزران یاں کی سخت ہے، جو چھوڑے وہ کم بخت ہے۔ممبرا کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہاں آنے والا پستی سے بلندی کی طرف آتا ہے۔یہاں آکر اسے اونچائیاں راس آجاتی ہیں اور پھر وہ پستی کی طرف لوٹنے کو آمادہ نہیں ہوتا۔
 یہاں ایک بزرگ گزرے ہیں نام ان کا وصی احمد تھا مگر دنیا انھیں آوارہؔ سلطانپوری کے نام سے جانتی ہے۔ ۱۹۵۶ ءمیںجب یہاں گرام پنچایت قائم ہوئی تو انہوں نے اس جلسہ میں جو نظم پڑھی تھی اسے ممبرا کے اساتذہ کو زبانی یاد کرنا چاہئے۔سَر آپ کو جان کر خوشی ہوگی کہ یہاں کسی چیز کا قحط نہیں اورقحط الرجال تو قطعی نہیں ہے۔ریت کے بدلے اس دریا سے موتی نکل رہے ہیں اور اس پہاڑی پر ہیرے جواہرجیسے لوگ بستے ہیں۔یہاں اردو کا بول بالا اور رات میں بھی اُجالاہوتا ہے۔ان بزرگوں سے جو عابد ِشب زندہ دار کہلاتے ہیں۔
 جناب! یہ خبر تو آپ نے سنی ہوگی کہ چندریان۳؍ نے ہماری خلائی تاریخ میں چار چاند لگادئے ہیں  ۔اس کی سب سے زیادہ خوشی زمین کے چاند تاروں یعنی اسکولی بچوںکو ہوئی ہے۔ایک استاد کے ناطے مجھے انھیں دیکھ کرہمیشہ خوشی ہوتی ہے۔ جب یہ اپنے وزن سے بھاری بستہ لے کر نکلتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ میں بڑھ کر اس بارِ گراں کو اُٹھا لوں لیکن پھر اپنی ناتوانی دیکھ کر رُک جاتا ہوں۔
 سَر ! آپ اکثر ڈاکٹر ذاکر حسین کا یہ قول دہراتے ہیں ’’استاد کی کتابِ زندگی کے سرورق پر علم نہیں لکھا ہوتا ،محبت کا عنوان ہوتا ہے۔اسے انسانوں سے محبت ہوتی ہے۔بچوں سے محبت ہوتی ہے۔اچھے استاد کی سب سے پہلی اور سب سے بڑی پہچان یہی ہے کہ اس کی طبیعت کامیلان آپ ہی آپ بچوں اور نوجوانوں کی ہنستی ہوئی شخصیتوں کی طرف ہوتا ہے۔لیکن یہ دیکھو!مظفر نگر اسکول کی ہیڈ مسٹریس نے استاد کی عظمت پر بدنما داغ لگادیا۔میں اس لرزہ براندام کرنے والے واقعہ کو دہرا کر اپنی اور آنجناب کی طبیعت کو مکدر کرنا نہیں چاہتا۔
 عظمتِ چندریان ایک طرف اور محترمہ کا خلافِ انسانیت گیان دوسری طرف۔گویا’ ’ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا‘‘، اس سے زیادہ اور کیا لکھوں، خدا حافظ۔ آپ کا شاگرد

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK