Inquilab Logo

عالمی ادب سے ایک کہانی : بندر اور ارینہ

Updated: February 04, 2024, 1:17 PM IST | Qaiser Nazir Khawar | Mumbai

لُوکاز نے اس رات پھر ایک خواب دیکھا جس میں وہ جنگل میں تھا۔ وہ ایک درخت سے اچھلتا، دوسرے پر جاتا، کیلے کھاتا اور مادہ بندروں سے چھیڑخانیاں اور دوستیاں کرتا پھر رہا تھا۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

لُوکاز نے اس رات پھر ایک خواب دیکھا جس میں وہ جنگل میں تھا۔ وہ ایک درخت سے اچھلتا، دوسرے پر جاتا، کیلے کھاتا اور مادہ بندروں سے چھیڑخانیاں اور دوستیاں کرتا پھر رہا تھا۔ وہ دوسرے بندروں پر طنز کرتا، ”اوئے بزدلو، آؤ !“ اس کی شاندار بالوں والی کھال، سورج کی روشنی میں چمکتی۔ ” آؤ، چچا لُوکاز تمہیں ایک قاز پکا کر کھلائے گا۔ “ لیکن دوسرے سارے نر بندر پیچھے ہٹ جاتے اور دبک جاتے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ لُوکاز کے ساتھ جھگڑا مول لینا نقصان دہ تھا۔ اور جب لوکاز خواب دیکھنے کے بعد جاگا تو اسے سر میں شدید درد ہو رہا تھا۔ اس کے جسم کے زخموں میں ایسی جلن تھی جیسے وہ جہنم کی آگ بھگت رہا ہو۔ ان میں سے کچھ ایسے تھے کہ جن سے پیپ رِ س رہا تھا۔ اس نے یقیناً نیند میں انہیں پھر سے کُھرچا ہو گا، اس نے سوچا۔ وہ اپنے پنجرے سے باہر نکلا، اس کے دروازے کو تالا لگایا اور سیدھا ’ ٹیسٹ لیب نمبر۳ ( جلدکے کینسر کی ریسرچ لیب ) کی طرف بڑھا۔ اسے اس بات پر فخر تھا کہ وہ وہاں کام کرتا تھا۔ اس کے برعکس دوسرے جانوروں میں سے زیادہ تر معمولی تجربوں میں لگے ہوئے تھے، جیسے ایک لیب نمبر۲ ( کازمیٹکس کی لیب ) میں جبکہ دوسرا نمبر۴ ( مضمحل آنکھ نامی لیب ) میں کام کرتا تھا۔ لیکن لوکاز ایک ایسی ریسرچ کا حصہ تھا جو واقعتاً اہم تھی۔ وہ نو بجے والے انجکشن کے لئے بالکل صحیح وقت پر پہنچا تھا۔ ٹیکہ لگانے والی ارینہ تھی۔ ” اپنے زخموں کو مت چھیڑو۔ “ ارینہ نے کہا: ” اس سے چیزیں اور خراب ہوں گی۔ “ 
لوکاز نے زخموں سے چھیڑچھاڑ بند کر دی۔ ارینہ اس کی سب سے پسندیدہ لیب اسسٹنٹ تھی ” فرض کرو، اگر میں کہوں “ جب وہ اسے انجکشن لگا رہی تھی تو اس نے پوچھا ؛” جب یہ تجربہ مکمل ہو جائے گا اور ہم کینسر کی دوا دریافت کر لیں گے تو کیا وہ لوگ اس سے اتفاق کر لیں گے کہ مجھے کچھ وقت کیلئے چھٹی دے دیں ؟ مجھے جنگل اتنا یاد آتا ہے کہ تم اندازہ نہیں لگا سکتیں۔ “
ارینہ نے اس کے بازو سے سوئی کھینچی۔ وہ یہ دیکھ سکتا تھا کہ وہ اداس تھی۔ ” فکر نہ کرو، ارینہ۔ “ اس نے ارینہ کو خوش کرنے کے لئے کہا، ” میں زیادہ دیر کے لئے نہیں جاؤں گا۔ بس گیا اور آیا، تم مجھے جانتی ہو، میں تو کام کا شیدائی ہوں۔ مہینہ بھی نہیں گزرے گا کہ میں دیواریں پھلانگتا واپس آرہا ہوں گا۔ اور جیسے ہی میں واپس آؤں گا تو میں، الزائمر( یادداشت گم ہونے والی بیماری ) کے تجربات کے لئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کر دوں گا۔ یوں ہم ایک بار پھر ساتھ ساتھ ہوں گے۔ “
ارینہ نے اسے گلے لگایا اور رونے لگی۔ لوکاز بے حس و حرکت تھا، اُسے علم نہ تھا کہ ایسے میں کیا کرے۔ 
” سنو، سنو، مجھے ایک خیال سوجھا ہے“ اس نے ارینہ کی گردن تھپتھپاتے ہوئے سرگوشی کی ؛ ”کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم کچھ دنوں کی چھٹی لو اور پھر ہم دونوں ساتھ ساتھ جنگل میں جائیں ؟ اس طرح میں تمہیں وہ جگہ بھی دکھا سکوں گا جہاں میں نے پرورش پائی، میں تمہیں اپنے خاندان سے بھی ملاؤں گا اور تم وہاں کے حسین مناظر بھی دیکھ سکو گی۔ یقین جانو، تم وہاں اچھا وقت گزارو گی۔ وہاں ہر شے سرسبز ہے۔ “
ارینہ نے کوئی جواب نہ دیا، وہ بس روتی ہی رہی۔ یہ کیفیت کافی دیر تک طاری رہی لیکن اس کے بعد اُس کا رونا کم ہوتا گیا۔ جب اس کی سسکیاں بھی تھم گئیں تو اس نے لوکاز کو اپنے سے علاحدہ کیا، ایک قدم پیچھے ہٹی اور مسکراتی ہوئی بولی: ” یقیناً، میں تمہارے ساتھ چلوں گی۔ “ پھر خود ہی اُمید کے لہجے میں کہا: ” وہ اس سال مجھے کچھ دن کی چھٹی ضرور دیں گے۔ “ یہ سن کر لوکاز جھوم اُٹھا۔ اُس کی زبان سے نکلا: ” یہ تو بہت ہی زبردست بات ہے۔ “ لوکاز کی آنکھوں میں چمک تھی۔ اس نے ارینہ کی آنکھوں میں دیکھا، جن میں ابھی بھی نمی تھی۔ 
” یہ لاجواب رہے گا۔ “اس نے پورے عزم و یقین کے لہجے میں بڑے تپاک سے کہا، ”اور تم دیکھنا کہ یہ ایک نیا تجربہ ہو گا۔“

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK