احمد سعید ملیح آبادی ( رخصت: ۲؍اکتوبر ۲۰۲۲ء) کی پہلی برسی پر خراجِ عقیدت۔
EPAPER
Updated: October 01, 2023, 4:21 PM IST | Mohammad Tariq Khan | Mumbai
احمد سعید ملیح آبادی ( رخصت: ۲؍اکتوبر ۲۰۲۲ء) کی پہلی برسی پر خراجِ عقیدت۔
برصغیر کی سیاست میں چھ دہائی تک اپنی بے باک و غیر جانبدارانہ صحافت کا ڈنکا بجانے والے احمد سعید ملیح آبادی صرف صحافی نہیں، قوم کے ایک بے لوث خدمتگار اور رہنما تھے، جنہوں نے ملک کی تقسیم کے بعد شکستہ دل مسلم قوم کے دلوں پر نہ صرف مرہم رکھا، بلکہ ہر موقع پر ان کی صحیح رہنمائی کے فرائض انجام دیتے ہوئے ان کے اندر سے تقسیم کے احساس کو نکال کر ان کی کھوئی ہوئی خود اعتمادی واپس لانے اور ملک میں مضبوطی کے ساتھ اپنے پیر جمانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ملک و ملت کےمفاد میں انہوںنے کبھی کسی سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا۔ فرقہ پرست و مذہبی تنگ نظری کا انہوںنے خوب ڈٹ کر مقابلہ کیا ۔اس جنگ میں انہیں اپنے ہم مذہب اور ہم پیشہ لوگوں سے بھی مقابلہ کرنا پڑا ۔ اپنے انہی اصولوں کی پاسداری کے سبب کاروبار کے میدان میں تو بہت کامیاب نہیں ہو سکے، مگر قوم کے معتبر رفیق و رہنما کے طور پر ہمیشہ ملت کے دلوں میں بسے رہے ۔
احمد سعید ملیح آبادی معروف عالم دین ، مجاہد آزادی اور امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد کے رفیق کار مولانا عبد الرزاق ملیح آبادی کی سب سے بڑی اولاد تھے۔ زمیندار خاندان میں پیدا ہونے والے احمد سعید ملیح آبادی ابھی اپنی تعلیم کو مکمل بھی نہ کر پائے تھے کہ والد نے انہیں اپنی معاونت کے لئے کلکتہ بلوا لیا اور اخبار کی دنیا میں بغیر کسی تربیت کے مولانا آزاد کے مشورے پر یہ سوچ کر اتار دیا کہ بطخ کے بچے کو تیرنا سکھایا نہیں جاتا، پانی میں پہنچتے ہی وہ خود بخود تیرنے لگتا ہے۔ اور ہوا بھی ایسا ہی۔ کلکتہ میں احمد سعید ملیح آبادی نے اپنے والد کے دہلی منتقل ہو جانے کے بعد اکیلےدم پر آزاد ہند کی ادارت اور نظم و اشاعت کی ساری ذمہ داری سنبھال لی۔ جس وقت احمد سعید ملیح آبادی نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا بنگال تقسیم کا گہرا زخم اپنے سینے پر کھائے ہوئے تھا اور مذہبی منافرت عروج پر تھی۔ اک ذرا سی چنگاری بھڑکتی اور لاشوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگ جاتے، بستیاں اجڑ جاتیں اور آبادی کا تبادلہ مغربی بنگال سے مشرقی بنگال اور مشرقی بنگال سے مغربی بنگال ہونے لگتا۔ آزاد ہند نے اپنی تحریروں سے قتل وغارت گری کی ستائی مسلم قوم کے اندر پھر سے اپنے وطن میں پیر جمانے اور فرقہ پرست ذہنیت سے نجات دلا کر معتدل مزاجی ان کے دلوں میں پیدا کرنے کا مشن شروع کیا ۔ اس مشن میں احمد سعید ملیح آبادی کو ہر لمحہ سخت آزمائشوں اور کٹھن راستوںسے گزرنا پڑا ۔ دو بار جیل گئے، قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں،مگر ان کے دل سے قوم کی خدمت کا جذبہ کم نہیں ہوا بلکہ اور بڑھتا گیا۔ کلکتہ میں آزادی کے ۲۰؍ برس تک کانگریس پارٹی کی حکومت رہی ۔ فرقہ پرستوں کا خوب بول بالا رہا اور مسلمان پٹتا اورلٹتا رہا مگر احمد سعید ملیح آبادی کی رہنمائی کی قوت پر بنگال کے مسلمانوں کے پیراکھڑے نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمتے ہی چلے گئے۔
۱۹۶۷ء میں بنگال صوبے میں پہلی غیرکانگریسی حکومت بنگلہ کانگریس لیڈر اجئے مکھرجی کی قیادت میں قائم ہوئی ، جس میں بائیں بازو کی جماعتیں بھی شامل رہیں، جیوتی باسو وزیر داخلہ اور نائب وزیر اعلیٰ کے عہدہ پر فائز ہوئے۔ یہ حکومت صرف دو ڈھائی سال چلی مگر فرقہ پرستوں کی پسپائی کی بنیاد اسی حکومت میںپڑی جسے بعد میں بنگال کے مقبول ترین سیکولر کانگرسی لیڈر چترنجن داس کے نواسے بیرسٹر سدھارت شنکر رائےنے وزیر اعلیٰ کی کرسی پر بیٹھ کران کی مزید سرکوبی کرکے بنگال میں مذہبی ہم آہنگی کی فضا ایک بار پھر قائم کر دی۔ دونوں ہی سیاسی اکابرین کے دلوں میں مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے میں آزاد ہند کا اہم کردار رہا ۔ کوئی بھی مسلم مسئلہ ہو’ آزاد ہند‘ کا موقف حکمراں ضرور جاننے کی کوشش کرتے اور’ آزاد ہند‘ کی رہنمائی کی صفات ملک و ملت دونوں کے مفاد میں ہمیشہ کھری اتریں۔ اہل کلکتہ بھلا ۱۹۶۴ء کے فساد کو کیسے فراموش کر سکتے ہیں جب منظم سازش کے تحت کانگریسی وزیر اعلیٰ پی سی سین کی حکومت میں ایسی شدت کا فساد پھوٹ پڑا کہ بنگال کو فوج کے سپرد کرنا پڑا۔ فوج کے حوالے کرنے کا مشورہ احمد سعید ملیح آبادی کا تھا جو انہوںنے اندرا گاندھی کو اس وقت دیا تھا جب وزیر اعظم پنڈت نہرو کے انتقال کے بعد قائم مقام وزیر اعظم گلزاری لال نندا تھے۔ پورے واقعہ کا تفصیل کے ساتھ ذکر احمد سعید ملیح آبادی نے اپنی خود نوشت سوانح حیات میں کیا ہے جسے ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
بنگال کے مسلمانوں کو فساد کے عذاب سے نہ صرف نجات دلانے میں’ آزاد ہند‘ اور احمد سعید ملیح آبادی کی رہنمائی کا اہم کردار رہا ،بلکہ ان کے اندر ایسا سیاسی شعور پیدا کر دیا کہ کسی بھی انتخاب میں وہ پھر بھٹکے نہیں اور اپنے ووٹ کو انہوںنے تقسیم نہیں ہونے دیا۔ بنگال کے مسلم ووٹروں میں یہ سیاسی روش آج تک قائم ہے۔’آزاد ہند‘ کے اداریوں سے چھ دہائی تک احمد سعید ملیح آبادی نے بنگال کی نہ صرف مسلم آبادی کے ذہنوں پر اپنا کنٹرول برسہا برس تک قائم رکھا ،بلکہ غیر امن پسند غیر مسلموں کے دلوں میں بھی اپنی ایک مخصوص نیشنلسٹ و سیکولر مسلم کی امیج مرتے دم تک برقرار رکھی ۔ عوام کے ذہنوں میں پیدا کی جانے والی اسی معتبریت کے سبب’ آزاد ہند‘ کو ’’اردو اسٹیٹس مین‘‘ کہا جاتا تھا ۔
باوجود اتنی کامیابیوں کے احمد سعید ملیح آبادی اپنے ملی و قومی فرائض اور اصولوں سے کبھی ایک انچ بھی نہیں ہٹے۔ کانگریس کی حکومت میں انہیں دو بار جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا تھا مگر سدھارتھ شنکر رے کی کانگریسی حکومت کو انہوں نے اپنا پورا تعاون دیا اور ملت کیلئے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام ان سے لئے۔ اسی طرح بائیں مورچہ کی جب سرکار بنگال میں رہی تو باوجود جیوتی باسو سے اپنی قربت کے ملی مسائل میں کبھی ان سے کوئی سمجھوتا نہیں کیا، انہی کی کاوشوں کے نتیجہ میں اردو کو اس کا جائز مقام بنگال میں حاصل ہوا ۔مسلمانوں کو ملازمتوں میں ریزرویشن دلانے کیلئے وہ برابر بائیں بازو کے حکمرانوں سے مورچہ لیتے رہے اور انہیں اس کے لئے قائل کرنے میں مصروف رہے۔ باوجود اس کے ہر انتخاب میں ’آزاد ہند‘ نے مسلم رائے دہندگان کے سیاسی شعور کی آبیاری کی اور تیس سال تک بائیں محاذ کی حکومت کو کامیابی کے ساتھ چلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ قومی سیاست میں بھی مسلم ووٹروں کو انہوں نے ہمیشہ اپنے اداریوں سے صحیح سمت دکھائی اور مسلمانوں کو جب بھی سیاسی یا مذہبی مسلم اکابر نےاپنے ذاتی فائدہ یا کسی سیاسی جماعت کو سیاسی فائدہ دلانے کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی تو احمد سعید ملیح آبادی نے جم کر ایسے لوگوں کی سرزنش اپنے اداریوں کے ذریعہ کی۔
جنتا پارٹی کی قیادت میں ۱۹۷۷ء کے عام انتخابات میں بر سر اقتدار آنے والی مرار جی دیسائی کی سرکار جب آر ایس ایس سے جن سنگھ کے رشتوں کے سبب گر گئی تو ۱۹۷۹ء میںہونے والے پارلیمنٹ کے انتخاب میں مولانا ابو الحسن علی ندوی عرف علی میاں کی مسلمانوں سے جنتا پارٹی کے حق میں ووٹ کرنے کی اپیل کے خلاف’ آزاد ہند‘ میں احمد سعید ملیح آبادی نے گویا مورچہ کھول دیا اور اس کی سخت مخالفت کی، جبکہ علی میاں ان کے والد کے دورِ طالب علمی کے ساتھی تھے۔ احمد سعید ملیح آبادی نے مسلمانوں کو ہمیشہ جذباتی فیصلوں سے محفوظ رکھا اور فرقہ پرستوں کو اپنے اسی ہتھیار سے شر انگیزی سے روکے رکھا۔ ایک شیطان صفت اور ذہنی بیمارچاند مل چوپڑا نے کلکتہ کی عدالت میں قرآن پاک کو (نعوذ باللہ) چیلنج کرتے ہوئے مقدمہ دائر کیا تو احمد سعید ملیح آبادی نے مسلمانوں کو اشتعال سے بچنے کی طرف راغب کیا۔ اسی طرح تسلیمہ نسرین اور سلمان رشدی کی گستاخیاں، جن سے ہر خاص و عام واقف ہے، دمدم مسجد، سدہا مسجد کی منتقلی اور بابری مسجد کی شہادت جیسے حساس معاملات کے وقت قوم کے مجروح جذبات کو قابو میں رکھنے اور انہیں صبر و تحمل کا سبق پڑھانے اور اس پر عمل کے ذریعہ بنگال میں امن و سکون کا ماحول قائم رکھنے میں احمد سعید ملیح آبادی کے کردار کو اہل بنگال کبھی فراموش نہ کر سکیں گے ۔n