Inquilab Logo

پرندہ

Updated: September 18, 2023, 1:53 PM IST | Rashid Qasmi | Jalgaon

پروں کو بے تابانہ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندہ اڑ گیا۔ ننھے بچے نے آنکھیں مچ مچائیں ۔آسمان کی طرف دیکھا۔ پرندے کو دور جاتے ہوئے دیکھ کروہ حیران رہ گیا۔ پرندہ تو قید میں تھا،کیسے اڑ گیا؟میلی آنکھوں کو ہتھیلی سے ملتے ہوئے بچے نے بغور دیکھا۔

Photo. INN
تصویر:آئی این این

پروں کو بے تابانہ پھڑپھڑاتے ہوئے پرندہ اڑ گیا۔ ننھے بچے نے آنکھیں مچ مچائیں ۔آسمان کی طرف دیکھا۔ پرندے کو دور جاتے ہوئے دیکھ کروہ حیران رہ گیا۔ پرندہ تو قید میں تھا،کیسے اڑ گیا؟میلی آنکھوں کو ہتھیلی سے ملتے ہوئے بچے نے بغور دیکھا۔ پرندہ نقطہ بن گیا تھا۔اس نے آنکھیں پھیر لیں اور داتن کرنے لگا۔کچن سے کھٹر پٹر کی آوازیں اٹھ رہی تھیں ،یعنی امی کچن میں جوجھ رہی تھیں ۔ دودھ، پانی، چائے، برتن، جھاڑوپونچھا،دھول مٹی ،کیا کیا کچھ پہلے بھی یہی....آج بھی یہی۔شاید کل بھی یہی سب کچھ رہے۔۔کتنا کچھ کرتی ہیں امی،بیچاری!بچے کے ناشتہ کی میز پر بیٹھنے سے پہلے ناشتہ حاضر تھا۔یہ روزانہ کا معمول تھا۔ حاضری سے پہلے ناشتہ حاضر۔آپ پہلے،امی بعد میں ۔نصیحتیں الگ، بالکل مفت... ہاتھ اور منہ صاف رکھو،منہ سے آوازیں مت نکالو۔ادھر ادھر نہیں دیکھتے ۔ ٹوسٹ کو یوں توڑو،دودھ اس طرح پیو... کپڑے پر داغ نہیں لگنے دو،سب کچھ مفت!بچہ کچھ یاد رکھتا ہے،کچھ بھول جاتا ہے۔ بچہ جو تھا ...
بیڈروم سے الارم کی آواز گونجی۔شاید ابو جاگ گئے ہیں ...اب کاغذ کی کڑکڑاہٹ سنائی دے رہی ہے۔امی نے اخبار سرہانے رکھ دیا ہوگا، اب ابو اخبار پڑھیں گے۔پڑھیں گے کیا،دیکھ لیں گے۔پڑھیں گے تو بریک فاسٹ کے بعد،تفصیل سے۔پہلے برتنوں کی کھڑکھڑاہٹ تھی۔اب پانی کے گرنے کی آوازیں بڑھ گئی ہیں ۔ہلکی ہلکی پھواروں کی آوازیں ۔پہلی برسات کی طرح تیز ۔ اب باتھ روم سے پانی کی شر شر آوازیں اٹھ رہی ہیں ۔ شاید ابو باتھ روم سے نکل کراپنے کمرے میں اپنے روم میں آگئے ہیں ۔ بچہ ناشتہ سے اٹھ کر کہیں جانے کو ہے کہ آواز گونجتی ہے،’بشیر! ابھی کتاب ہاتھ میں لو اور پندرہ منٹ بعدنہا دھوکر فریش ہوجائو۔ہوم ورک بھی پورا کرلینا۔بچہ ٹھٹکتا ہے،لیکن حکم کی تعمیل کرتا ہے۔اب کچن سے پانی کی آوازیں ۔امی کپڑے سے ہاتھ پونچھتی باہر نکلیں ۔
دھوپ پیڑوں سے ہوتی ہوئی دالان تک پہنچ گئی۔امی،ابو کی قمیص میں بٹن ٹانک رہی تھیں ۔ابو آرام کرسی میں براجمان بھارت کو خبروں میں کھوج رہے تھے۔بچہ ٹی وی پر کارٹون سیرئیل سے لطف اندوز ہورہا تھا کہ اچانک ٹی وی اسکرین پرپرندہ رو نما ہوا۔پہلے نقطے اتنا،پھر ...بڑھ کر ٹی وی سکرین اتنا۔بچہ ٹھٹک جاتا ہے۔پرندہ تو اڑ گیا تھا۔قید توڑ کر نکل بھاگا تھا۔آسمان میں نقطہ بن گیا تھا۔پھرواپس کیسے آگیا؟سامنے شیرین اپارٹمنٹ کی گیلری میں پنجرے میں اسیر وہ پرندہ ،روز صبح بچہ کی میلی کچیلی آنکھوں میں بھر جاتا تھا۔بچہ کو دیکھ کر وہ بڑی بے چینی سے پھڑ پھڑاتا تھا۔یا پھر ممکن ہے بچہ یوں سمجھتا ہو۔لیکن پرندہ ایسا کرتا ضرور تھا۔
 کچن کی کرخت آوازوں کے درمیان اپارٹمنٹ کے فلیٹوں سے اٹھتی بے نام صدائوں کے بیچ،قفس میں بند پرندے کی پھڑپھڑاہٹ لگتی بڑی عجیب سی تھی۔کچن،پانی کی آوازیں ،بے نام صدائیں ،داتن کرنا اور پرندے کی پھڑپھڑاہٹ تو معمولات میں شامل تھالیکن قفس سے اڑ کر آسمان میں نقطہ بن جانا۔یہ تو قطعی خلاف معمول تھا ...اور ٹی وی سکرین پر نمودار ہوجانا؟ ’امی،دیکھئے پرندہ پھر لوٹ آیا !‘‘بچے کی چیخ پر امی چونکی۔’ ’پرندہ؟ کیسا پرندہ؟‘ ‘امی کبھی ٹی وی سکرین کوکبھی بچے کو دیکھتیں ۔’ ’امی...وہ ہے نا...‘بچہ کچھ جھجک کرکچھ ہکلا کرگویا ہوتا ہے۔’ ’وہ پرندہ اڑ گیا تھا...‘بچہ ٹی وی کی اور انگلی دکھا رہا تھا۔ ’تو پھر....؟‘امی پھر پوچھتی ہیں ۔اس بیچ ابو اخبار سے نگاہیں ہٹاکرپہلے ٹی وی کوپھر بچے کو دیکھتے ہیں ۔پھر بڑی بے پروائی سے چہرہ اخبار میں چھپا لیتے ہیں ۔’’وہ....امی!وہ پرندہ صبح اڑ گیا تھا۔اپنے سامنے والے اپارٹمنٹ کے فلیٹ سے ۔’’سامنے والے فلیٹ سے...‘‘امی کی حیرانی بڑھی۔’’ایسا کیسے ہو سکتا ہو سکتا ہے؟‘‘ امی کی انگلیاں اپنے چہرے کے قریب پاکر بچہ سوچتا ہے،ہاں ...ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ لیکن پھر وہ سنبھلتا ہے اور کہتا ہے’’صبح میرے داتن کے سمے،وہ پرندہ پنجرے سے نکل کر پھرسے اڑ گیا تھا...دور آسمان میں ...اب دیکھئے نا۔‘‘
  ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے...‘‘اب کے امی کے سوال میں اچنبھا اور دلار گھل مل گئے تھے۔’’مجھے پڑھنے بھی دوگے؟‘‘ابو نے اخبار سے ڈھکا سر باہر نکالا۔ انکے چہرے پر ناراضگی کم ،بیزاری زیادہ تھی۔’’ دیکھئے..یہ بشیر...‘ امی کے الفاظ ہونٹوں تلے دب گئےکیونکہ بچہ چلایا تھا۔’’امی! وہ دیکھئے...وہ پرندہ...کتنا بڑا بڑا ساتھا...اب پھر نقطہ بن گیا ہے۔اور دیکھئے...وہ غائب! امی کیلئے کچھ بھی تعجب خیز نہیں تھا۔ٹی وی پرنت دن نت نئے تماشے ہوتے ہی رہتے تھے۔دراصل انکی کیفیت بچے کو لیکر تھی۔’’ چلو اب اپنا ہوم ورک پورا کرلو۔وہ پرندہ آیا بھی اور گیا بھی۔ٹی وی والے یہی سب کرتے ہیں ۔‘ ‘ امی نے حکم صادر کیا اور اپنے کام میں مصروف ہوگئیں ۔ داتن،پنجرہ،قید،ٹی وی،نقطہ...اور کچھ بھی نہیں ...بچہ بےشمار سوالوں کے چکرویو میں گھر گیا تھا۔ ’بشیر! یہاں آئو...‘اب کے ابو کی آواز نے متوجہ کیا۔جی ابو!‘ وہ بے اختیار بولا۔ ’یہاں آئو۔‘ ’جی ابو‘بچے کے لہجہ میں کچھ گھبراہٹ تھی، کچھ جھجک اور چہرے پرسوالوں کا دھندلکا۔ ’بیٹھو۔‘بچہ بیٹھ گیا۔امی بھی متوجہ ہو گئی تھیں ۔
   ’سنو!ابھی میں نے ایک بڑی اچھی بات اخبار میں پڑھی۔بات یوں ہے کہ اگر ہم اپنے کام سے کام نہ رکھیں تو ہمارا نقصان ہو سکتا ہے۔یا پھر ہم دوسرے غیرضروری کاموں میں الجھ سکتے ہیں ‘ ۔دیوار پر ٹنگی گھڑی کی سوئیاں آہستہ آہستہ آگے سرک رہی تھیں ۔ابو نے ادھر دیکھا اورکہا،’وہ گھڑی دیکھ رہے ہو؟‘ بچہ ہمہ تن گوش ہو گیا تھا۔ اسکی نظریں اٹھیں بھی لیکن وہ ٹک باندھے انہیں دیکھتا رہا۔ابو نے خود ہی بات آگے بڑھائی۔جب تک یہ سوئیاں چل رہی ہیں اور جب تک یہ گھڑی وقت دکھا رہی ہے،بھئی بشیر ! سمجھو اس دنیا میں کچھ نہ کچھ ہوتا رہیگا۔تم ابھی چھوٹے ہو۔تمہاری سمجھ کم ہے۔جب تم بڑے ہو جائوگے اور تمہاری سمجھ بھی بڑھ جائیگی تو تم دیکھوگے کہ کہیں نہ کہیں روزانہ نئی باتیں ہو رہی ہیں ۔
 ’’ میں تو چلی۔‘‘امی کو جیسے کچھ یاد آیا۔ جاتے جاتے امی نے ایک مسکراہٹ بھری نظر لاڈلے پرڈالی ضرور تھی۔’ ہاں تو بھئی سنو!‘ ابو بڑے استادوں والے موڈ میں تھے،’ تم جب بڑے اسکول جائوگے تو راستے میں تمہیں ٹریفک پولیس دکھائی دیگاجو کاپی قلم ہاتھ میں تھامے کسی سے باتیں کر رہا ہوگا۔کسی دواخانے پر لوگوں کی بھیڑ ہوگی،جوعلاج کیلئے وہاں آئے ہونگے۔ان میں اسکول جانے والے بچے بھی ہونگے۔ کہیں بھیڑ میں ایک آدھ حادثہ بھی ہو سکتا ہے۔حادثہ یعنی ایکسیڈنٹ، یعنی تم سمجھتے ہونا؟’ ہاں ابو،کہیں کوئی ٹکر...کوئی گاڑی کسی دوسری گاڑی سے۔ ‘‘ بچہ سن اور سمجھ رہا تھا...اپنے ذہن کی کوری تختی پر لکھتا بھی جا رہا تھا،لیکن ایک بات جو رہ رہ کرذہن سے جا نہیں پا رہی تھی..وہ تھی...وہ پرندہ۔ ’ہاں ہاں .. بس وہی... ابو نے شاباشی کے انداز میں مانا’ کہیں کوئی پھٹے حال آدمی تمہیں بھیک مانگتا دکھائی دے گا،الگ الگ چیزیں بیچنے والے آواز لگاتے،راہ گیروں کو للچاتے دکھائی دیں گے۔اوربہت کچھ تم جو تم دیکھوگے...یہ سب دیکھ،سن کر تم کیا کروگے؟ ’کیا ،ابو؟‘ بچہ یہ سب دیکھ،سن کر تصویر حیرت بن گیا تھا۔ تم پہلے اپنا راستہ ٹھیک طریقے سے بنانے کی کوشش کروگے۔ اس راہ کو پار کروگے۔اپنے اسکول پہنچوگے۔وہاں رک کر پڑھوگے، لکھوگے، اور ٹھیک وقت پر اسکول سے نکل کرگھر واپس آنے کی کوشش کروگے۔ وہاں رکوگے نہیں ،کہیں چوکوگے نہیں ۔بس اپنے گھر واپس آجائوگے، ٹھیک ہے؟‘ بچہ جہان حیرت سے نکلنے کی کو شش کررہا تھا۔’ٹھیک ہے! اب تم اسکول جانے کی تیاری کرو۔دیکھو وقت کیسے بھاگاجا رہا ہے۔
بچہ اپنی جگہ سے اٹھا۔۔امی کچن میں تھیں ۔بس کام اور کام ’سن لیا بشیر؟‘ وہیں سے امی نے پوچھ بھی لیا۔ ’کیا امی؟‘بشیر چونکا۔ابھی ابھی ابو کے لیکچر سے ابھرا،وہ سمجھ نہیں سکا تھا،امی کیا پوچھ رہی ہیں ؟ ’وہی، جو تمہارے ابو نے سمجھایا؟‘ ’جی ہاں ،امی!‘بچہ جیسے اپنے آپ بڑبڑایا۔ ’ٹھیک ہے، چلو تیاری کرو۔ ٹریفک، پولیس، دواخانے، مریض، بھیڑ، حادثہ اورکیا کیا کچھ۔لیکن ہرے بھرے درخت کھٹے میٹھے پھل، چہچہاتے پرندہ، سرسراتی ہوا،آنکھ مچولی کھیلتی دھوپ چھائوں ۔ یہ سب کہاں گئے؟ابو نے توکچھ بھی نہیں بتایا۔بچہ چلتے چلتے کرسی سے ٹکرایا۔جلد ہی سنبھل کر سیدھا کھڑا ہوگیا۔اچانک اس نے ایک باریک لیکن تیز سیٹی سنی۔وہ گیلری کی سمت لپکا۔دیکھا کہ سامنے شیرین اپارٹمنٹ کے فلیٹ کی گیلری میں لٹکا پنجرہ ہل رہا تھا۔اس نے محسوس کیا جیسے پرندہ پھڑ پھڑایا ہو۔جیسے وہ بے بسی سے سر پٹک رہا ہولیکن پنجرے میں تو کچھ بھی نہ تھا!بچے نے آنکھیں پھاڑ کر دیکھنے کی کوشش کی۔کچھ بھی نہ تھا۔بچہ مایوس لوٹ گیا۔اس نے کچھ دوری سے پلٹ کر دیکھا۔پنجرہ ہل رہا تھا۔لوٹتے ہوئے امی سے ٹکرا گیا تھا۔ ’’ارے! تم نے تیاری نہیں کی؟‘امی کسی قدر خفگی سے بولیں ۔ ’امی، وہ... وہاں ..وہ..‘ بچہ کچھ گھبرایا سا،کچھ روہانسا ہوگیا تھا۔وہ، وہ کیا؟‘ امی بہت متعجب تھیں اور بچہ جدھر اشارہ کر رہا تھا،مڑ کر ادھر دیکھا۔کچھ بھی نہ تھا۔ بچہ کیا کہتا؟امی نے اسکی آنکھوں میں جھانکا،وہاں تھوڑی یاسیت اور معصومیت جھانک رہی تھی۔ تم ٹھیک ہو نہ؟ ’ اچھا سنو!‘امی نے بچے کے گالوں کواپنے ہاتھوں کے پیالے میں بھر کر کہا،’’ شام کو تمہارے ابو تمہارے لئے ایک کھلونا لائینگے،جانتے ہو،کیا؟‘بچے نے نفی میں گردن ہلائی۔امی نے دونوں ہاتھ پھیلائے اور نظریں اسکی نظروں سے گڑا کر بڑے زور سے کہا،’ اتنا بڑا بڑا سا ،بولنے والا طوطا!‘بچہ یوں اچھل پڑا جیسے سامنے والی فلیٹ کی گیلری سے ٹنگے پنجرے میں پرندہ واپس آگیا ہواور جس نے بڑے زوروں سے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا ہو اور اپنی چونچ کو کھول کرایک تیز سیٹی بلند کی ہو!

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK