چائے کاپہلا حرف ہی چاہت سے لبریز ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں جس کے چاہنے والے موجود ہیں باغات ، پودوں ، ہری اور سیاہ پتیوں کوبھی چائے ہی کہا جاتا ہے۔
EPAPER
Updated: July 21, 2025, 4:04 PM IST | Ghani Ghazi | Lakhanwara, Buldana
چائے کاپہلا حرف ہی چاہت سے لبریز ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں جس کے چاہنے والے موجود ہیں باغات ، پودوں ، ہری اور سیاہ پتیوں کوبھی چائے ہی کہا جاتا ہے۔
چائے کاپہلا حرف ہی چاہت سے لبریز ہے۔ دنیا کے کونے کونے میں جس کے چاہنے والے موجود ہیں باغات ، پودوں ، ہری اور سیاہ پتیوں کوبھی چائے ہی کہا جاتا ہے۔ چین اس کاآبائی وطن ہے جہاں یہ چا، عرب میں شائی، ایران میں چائی، لندن میں ٹی ، یونان میں ٹیوں اون ،جرمنی میں ٹی تو ہندوستان میں چائے کہلاتی ہے۔ نام چاہے الگ الگ مگر بنانے کا طریقہ اور ذائقہ ہر جگہ ایک جیساہے ۔ دودھ پانی اور شکر ملا کر خوب ابالنے کے بعد جو جوشاندہ تیار ہوتا ہے اُسے چائے کہا جاتا ہے۔ وگر نہ دو دھ اور پانی کی کیا بساط کہ چائے کہلا ئے ! زمانے کے ساتھ ساتھ ذائقہ اور لذت کے مطابق اسے گڑ چائے ،باسوندی، بادشاہی ، کڑک میٹھی ، پھیکی ،مسالہ، ہر بل، کشمیری ، گرین ٹی ‘ قہوہ اور سلیمانی جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ لذت کو مزید بڑھانے کے لئے آمیزہ میں بادام ، پستہ ،دار چینی،لونگ ،کالی مرچ، سونف ،الائچی اور مکھن کا بھی استعمال ہوتاہے تو پینے کے لئے پیتل ، تانبہ، اسٹیل ،کانچ ، مٹی ،چینی ،پیالہ ‘ پیالی ، گلاس،کپ ساسر کلہڑبسی جیسے برتنوں کا ستعمال کیا جاتا ہے یہ محض ذائقے کیلئے نہیں بلکہ کھانسی ، بدن درد، سردرد، پیٹ درد ،تھکاوٹ ،نقاہت اور عارضی کمزوری کو دور کرنے کے لئے دوا کا کام کرتی ہوں۔
پسینہ میں شرابورمزدور ایئرکندیشن میں بیٹھے سرمایہ دار،تھکاہارا کسان، سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگ بارش میں بھیگے چروا ہے ،یہ سب کے کام آتی ہے ۔ چھوپڑی ہو یا بنگلہ ،محل ہو کہ بلند عمارت چائے ہر جگہ مہمانوں کے استقبال کے لئے ہر آن تیار رہتی ہے ۔ریلوے اسٹیشن‘ بس اسٹینڈ ‘ بازار ہاٹ ‘ گلی کوچہ شاہ راہ ‘ نکڑ ‘ چوک ریلوے کے ڈبے‘ اسٹال ‘ ریستوران‘ فائیواسٹار ہوٹل ‘ ٹپری‘ ہاتھ گاڑی ہر جگہ یہ خدمت کے لئے حاضرہے۔ بین الاقوامی سطح پر اس قدر مشہور کہ ۲۱ ؍ مئی کو ’’ عالمی یوم چائے ‘‘ منایا جاتا ہے۔ اسے چاہے جس نام سے یاد کیا جائے ‘ چاہے جس برتن میںپی جائے ‘ جو شاندے میں چاہے جو اشیاء ملادی جائیںیا تیز آگ پر ابالا جائے کالی ‘ پیلی ‘ دودھیائی جس بھی رنگ میں رہے چائے اپنی شناخت پر قائم رہتی ہے۔ اپنے تشخص کے ساتھ کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ ادیبوں، قلمکاروں،شاعروں کی میز پر تو اس کے گرما گرم پیالے بھرے رہتے ہیںجو چسکیاں لے لے کر قلم کے ذریعے تخیلات کے موتی قرطاس ابیض پر بکھیرتے ہیں۔n