Inquilab Logo Happiest Places to Work

دوزبانوں کا امتزاج

Updated: May 05, 2025, 1:48 PM IST | Shakeel Ejaz | Akola

 سید یحییٰ نشیط کے اعلیٰ اخلاق، ان کی علمیت، ادبی کارنامے اوران کے انکسار کے بارے میں سب ہی لکھ رہے ہیں اوراپنے اپنے طورپر تجربات، مشاہدات اور واقعات بیان کرکے ان کا حق ادا کررہے ہیں، اس لئے میں بھی انہی سب باتوں کو دہراؤں گا تو ایسا لگے گا جیسے میں کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیگتے ہوئے کسی سے پوچھوں کہ بارش ہو رہی ہے کیا؟

Renowned researcher Syed Yahya Nasheed. Photo: INN
معروف محقق سید یحییٰ نشیط۔ تصویر: آئی این این

 سید یحییٰ نشیط کے اعلیٰ اخلاق، ان کی علمیت، ادبی کارنامے اوران کے انکسار کے بارے میں سب ہی لکھ رہے ہیں اوراپنے اپنے طورپر تجربات، مشاہدات اور واقعات بیان کرکے ان کا حق ادا کررہے ہیں، اس لئے میں بھی انہی سب باتوں کو دہراؤں گا تو ایسا لگے گا جیسے میں کھلے آسمان کے نیچے بارش میں بھیگتے ہوئے کسی سے پوچھوں کہ بارش ہو رہی ہے کیا؟
  اب سے پچاس ساٹھ برس پہلے یعنی میرے بچپن میں، میرے آس پاس، دینی مجالس اور مساجد میں وعظ بیان میں ہم صرف مشکل اردو سنتے تھے۔ اس زمانے میں کسی پرہیز گار حلیہ والے شخص سے مراٹھی گفتگو سننے پر حیرت انگیز خوشی ہوتی تھی۔ یحییٰ نشیط صاحب کے لباس کی تفصیل لکھنے کی ضرورت نہیں۔ ہم آپ دیکھتے ہی رہتے ہیں ۔ ممبئی کی ایک میٹنگ میں جب وہ اس لباس میں ادبی مراٹھی میں تقریر کررہے تھے تو نہ صرف شردپوار صاحب اور ان کے ساتھی بلکہ وہاں موجود غیر مراٹھی حضرات بھی ان کو اس حیرت سے سن رہے تھے کہ آنکھیں پھٹی ہوئیں اور منہ تھوڑے تھوڑے کھلے ہوئے تھے۔ 
  میں جب سید یحییٰ نشیط کوپاجامے اور سرپر سفید رومال میں مراٹھی بولتے ہوئے سنتا ہوں تو ایسے اشعار یاد آتے ہیں جن کا ایک مصرعہ فارسی میں اور دوسرا مراٹھی میں ہو۔ بہت کمزور یادداشت کے بھروسے پر ایک قطعہ لکھ رہا ہوں۔ یہ بھی اوریجنل نہیں ، کسی غیر شاعر کا بنایا ہوا ہے: 
دو نان پختہ دیدم =کُترا گھے یون گیلا 
شمشیررا کشیدم =نالیا چاپار گیلا
دو الگ الگ بہترین زبانوں کا امتزاح یحییٰ نشیط صاحب کی شخصیت میں دیکھ کر امیر خسرو کے یہ اشعار بھی یاد آتے ہیں : 
زحال مسکیں مکن تغافل دورائے نیناں بنائے بتیاں 
کہ تاب ہجراں ندارم اے جاں نہ لیہو کاہے لگائے چھتیاں 
شبان ہجراں دراز چوں زلف و روز وصلت چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں 
 یحییٰ صاحب کی طبیعت کا انکسار ایسا ہے جیسے ریلوے بک اسٹال پر ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی، چمکدار اور رنگین رسالوں کے درمیان اردو کا رسالہ ایک گوشے میں unnoticedرکھا ہوا ہے جسے لوگ ’پڑھا ہوا‘ کہتے ہیں لیکن جب اس کی مشمولات کا مطالعہ کیاجاتا ہے تو وہ تمام طمطراق والے رسائل سے بہتر ثابت ہوتا ہے۔ ان رسائل میں زندگی کو لذیذ بنانے کے طریقے اوراس رسالے میں زندگی کے فلسفے اور دونوں جہاں میں کامیابی کے نسخے بتائے گئے ہیں۔ یحییٰ صاحب کی شخصیت دیگر شخصیات کی چکا چوند میں یہی اردو رسالہ ہے۔ 
 لفظ ’یحییٰ‘ کا تلفظ اردو کے نئے بچوں کے لئے تو مشکل ہے ہی، غیر اردو والوں کے لئے اور بھی مشکل ہے لیکن لوگ ہر مشکل میں آسانی تلاش کرہی لیتے ہیں ۔ اکولہ کی مشہور مانک ٹاکیز کے مالک کا نام یحییٰ سیٹھ تھا۔ وہاں کام کرنے والے ان کو ’آیا سیٹھ ‘ کہتے تھے۔ وہاں تھیٹر میں اس قسم کے مکالمے سننے کو ملتے تھے:
 ’’ آیا سیٹھ آئے کیا ؟‘‘’’آیا سیٹھ تو ابھی گئے۔ ‘‘یہ لوگ ترکی کی مسجد آیا صوفیا کو ان کے یحییٰ سیٹھ کی بنائی ہوئی مسجد سمجھتے تھے۔ میرے والد غنی اعجاز صاحب یحییٰ نشیط صاحب کے بارے میں کہا کرتے تھے، ’’ وہ برار کے لئے اللہ کی عنایت کردہ ایک نعمت ہیں۔ ‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK