اقتدار، نوکر شاہی، منصب بازی اور مادی ترقی کی زبان انگریزی کو مان لیا گیا اور اب الگورتھم کی بنیاد پر چلنے والے انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے اسلئے یہی زبان آئندہ بھی دیسی زبانوں پر حاوی رہے گی
EPAPER
Updated: August 20, 2023, 12:57 PM IST | Mrinal Pande | Mumbai
اقتدار، نوکر شاہی، منصب بازی اور مادی ترقی کی زبان انگریزی کو مان لیا گیا اور اب الگورتھم کی بنیاد پر چلنے والے انٹرنیٹ کی حکمرانی ہے اسلئے یہی زبان آئندہ بھی دیسی زبانوں پر حاوی رہے گی
ہندی، ہندو اور ہندوستان کے جدید طرفدار یہ جان کر بے ہوش نہ ہوں کہ سب سے پہلے ’بھاشا‘ کیلئے لفظ ’ہندی‘ استعمال کرنے والے جو لوگ تھے وہ ہندو ادیب اور شاعر نہیں بلکہ مسلمان ادیب اور شاعر تھے۔ امیر خسرو کی ’’خالق باری‘‘ ہندی اور اُردو کا سب سے پرانا مجموعہ ہے۔ اس میں بارہ مرتبہ ہندی اور پچپن مرتبہ ہندوی لفظ کا استعمال ملتا ہے۔ دونوں الفاظ کا براہ راست مفہوم ہے ہند یعنی بھارت کے تمام لوگوں کی زبان۔
شاہ حاتم اپنے ’’دیوان زادہ‘‘ کی تقریظ میں لکھتے ہیں کہ ہندوی کہا جاتا تھا، عام لوگ بھی ہندوی بخوبی سمجھتےہیں اور بڑے طبقے کے لوگ بھی۔ اسے بھاشا (بھاکھا بھی لکھا ہوا ملتا ہے) کہا جاتا تھا۔ تلسی داس نے بھی اس زبان کیلئے بھاکھا لفظ ہی کا استعمال کیا جب اُنہوں نے کہا: ’’بھاکھا بھنتی مور متی تھوری‘‘۔ ۱۸؍ ویں صدی میں اُردو کیلئے ریختہ لفظ بھی ملتاہے جو شعراء میں فارسی کے برعکس اُردو شاعری کے پڑھے جانے (مراختہ) سے نکلتا ہے۔ (نوٹ: لغت کے مطابق مراختہ کا معنی ایسی محفل شعر و سخن ہے جس میں ریختہ یعنی صرف اُردو کلام پڑھا جائے، ریختہ گویوں کا مشاعرہ، ریختے (اُردو) کا مشاعرہ یا مجلس ِریختہ: مترجم)۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ہندوستان میں تمام بولیوں کے اشتراک سے بننے والی زبان۔ اُردو شعراء میں اس کا اولین شاعر میرؔ کو مانا جاتا ہے جن کو اُن کے بعد آنے والوں میں سب سے اہم نام غالبؔ نے بھی تسلیم کیا جب اُنہوں نے کہا تھا: ’’ریختہ کے تمہی اُستاد نہیں ہو غالب = کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا۔‘‘
۱۸؍ ویں صدی کے بھارت میں لکھنا پڑھنا یا تو پنڈتوں کے مقدر میں تھا یا دربار سے وابستہ سرکاری افسران کے نصیب میں ۔ اِن میں ہندو اور مسلمان دونوں ہی شامل تھے۔ بقیہ سماج میں خواندگی بہت کم تھی۔ اُنیسویں صدی کی ابتداء میں جان گلکرسٹ نے عوام تک سرکاری احکام پہنچانے اور سرکاری اُمور میں سہولت کیلئے مدرس اور منشی تیار کرنے کی نیت سے معیاری زبان کی تشکیل کا ذمہ چار بھاکھا (بھاشا) منشیوں کو سونپا۔ انہیں فرمان یہ دیا گیا تھا کہ خواندگی میں اضافہ ہو اور اسکولی نظام میں فارسی الفاظ سے مزین اُردو کو مسلمانوں کی اور سنسکرت کے الفاظ سے سجی ہندی کو ہندوؤں کی زبان تصور کرتے ہوئے درسی کتابوں کو دو الگ الگ رسم الخط میں لکھایا پڑھایا جائے۔ بھاکھا (بھاشا) منشیوں نے اس حکم کی تعمیل میں ایک عوامی زبان کو رسم الخط کی بنیاد پر دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ رسم الخط کا یہی مسئلہ ہندی، ہندوی اور ہندوستانی کو الگ الگ فرقوں کی زبان ماننے کی غلط فہمی کی جڑ بنتا چلا گیا۔
کسی بھی ملے جلے یا مشترکہ سماج میں بول چال کی زبان سب کیلئے قابل قبول ہوتی ہے، اس میں کسی فرقہ کا سوال نہیں پیدا ہوتا کہ یہ فلاں فرقہ کی زبان ہے اور فلاں کی نہیں ہے لیکن ایسی عوامی زبان جسے دو فرقوں کو ذہن میں رکھ کر دیدہ و دانستہ بانٹا گیا ہو، اُس کو وجود میں آنے والے ان حصوں یعنی دو زبانوں کے درمیان نزاع کا سبب تو بننا ہی تھا چنانچہ جو زبان دونوں فرقوں کی مشترکہ زبان تھی وہ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی، ایک حصہ ایک فرقے کا اور دوسرا حصہ دوسرے فرقے کا۔ جبکہ وہ ایک ہی زبان کی دو اکائیاں ہیں ۔ ہندی اور ہندوی جو ایک مشترکہ عوامی زبان تھی اور مشترکہ تہذیب کی غماز ہوا کرتی تھی جب رسم الحظ اور فارسی نیز سنسکرت کی بنیاد پر الگ کی گئی تو اس کی وجہ سے ایک جانبدارانہ ردعمل پیدا ہوا اور یہ بھی ہونا ہی تھا۔ یہی وہ وقت تھا جب یورپ سے چلنے والی مغربی ہوائیں روایات، تہذیب، حب الوطنی اور قومیت کی بابت نئے خیالات مشتہر کر رہی تھیں ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بھاشا کا مسئلہ ناحق ہندو پہچان اور مسلم شناخت کا مسئلہ بن گیا۔
اس کے باوجود بیسویں صدی تک دونوں زبانوں کے درمیان تاک جھانک اور صاحب سلامت رہی۔ زبان کسی ایک فرقے کی نہیں پوری قوم کی امانت ہوتی ہے اس نکتے کو سب سے پہلے مہاتما گاندھی نے پہچانا اور اپنے سہ لسانی اخباروں (ہندی اور گجراتی میں ’’نوجیون‘‘ اور اُردو میں ’’قومی آواز‘‘) اور پرارتھنا سبھاؤں کی معرفت ہندوستان کے عوام تک سچ، اہنسا اور ستیہ گرہ کا پیغام پہنچاتے رہے اور اپنے مقصد میں کامیاب رہے۔
افسوس کہ عوامی زبان سے جو فائدہ اُٹھایا جاسکتا تھا ہمارا سماج وہ نہیں اُٹھاسکا۔فارسی گئی تو انگریزی آگئی۔ عوام کی زبان یعنی ہندی اُردو کے ذریعہ سماجی اور سیاسی اصلاحات کیلئے جو زمین تیار کی جاسکتی تھی، وہ سیاسی جبر کی بھینٹ چڑھ گئی۔ پاکستان کو اس کی سزا یہ ملی کہ پنجابی، سندھی اور بلوچی زبان بولنے والوں نے اُردو کو مہاجروں کی زبان کہہ کر سب کی زبان نہیں بننے دیا۔ ہمارے یہاں شمالی ہندوستان کے سیاسی قائدوں کی شاطر سیاست اور غیر ہندی ریاستوں کی بے چینی ہندی کی راہ میں حائل ہوگئی جس کی وجہ سے ہندی پورے ملک میں رائج نہیں ہوسکی۔ معلوم ہوا کہ سرحد کے اِس پار بھی اور اُس پار بھی اقتدار، نوکر شاہی، منصبی کشمکش اور مادی ترقی کی زبان انگریزی کو مان لیا گیا اور اب الگورتھم کی بنیاد پر جاری رہنے والے انٹرنیٹ کے دور میں یہی زبان آئندہ بھی دیسی زبانوں کا حق مارتی رہے گی۔
وجے دیو نارائن ساہی کا کہنا ہے کہ غالب اور میر کے بعد کے شعراء اور منٹو کے بعد کے ادیب پاکستان میں اُردو کی دُنیا کے مستقل باشندے نہیں بن سکے۔ بالکل اُسی طرح ہندی کے لیکھک ہندوستانی سیاست میں کوئی تغیر برپا نہیں کرسکے۔ اس سے قبل کہ اس کا تجزیہ کیا جاتا اور صورت حال کو سمجھنے کی کوشش ہوتی، حنیف قریشی، آتش تاثیر، اروند کرشن مہروترا، آلوک رائے یا رام چندر گوہا جیسے پاکستانی اور ہندوستانی ادیب، جن کی ایک طویل فہرست ہے، اب اپنی مادری زبان کی قیمت پر انگریزی میں لکھنا پسند کرتے ہیں ۔
گزشتہ نصف صدی کا مشاہدہ یہ ہے کہ ہندوتوا وادی اور اس پر مبنی سیاست کے غیر فانی ہونے کے فریب میں ہندی، بیرونی الفاظ کو مستعار لے کر اُردو کا اور اپنا یعنی دونوں زبانوں کا نقصان کرنے پر کمربستہ ہے۔ اس ہندی میں غالب یا نرالا کے ضبط غم، پرساد یا مہادیوی کا خاموش اور پُرسکون استغراق، چھوٹے شہروں کے بجھتے چلے جانے والے نچلے طبقے کے کرب کو محسوس کرنے والے مکتی بودھ، رام کمار، کملیشور اور بھارتی جیسے ادیب دھیرے دھیرے وقت کے کہرے میں گم ہورہے ہیں ۔ ایک خاص شہریت کا تیور اپنانے کیلئے سوشل میڈیا پر بھی ہندی اور اُردو دونوں نے گاؤں تک پھیلے بولیوں کے بولنے والے ہندوستان سے خود کو گویا الگ کرلیا اور کاٹ لیا ہے۔ اس لئے، قارئین بُرا نہ مانیں تو عرض کروں کہ ہندی صحافت سے لے کر ادب تک ہندی اور اُردو کے ہمارے ادیب نہ تو سماج کے بنیادی مسائل سے بحث کررہے ہیں نہ ہی اُنہیں رسم الخط، سیاست یا مذہب کے مسئلوں میں اُلجھی ہندوستانی تہذیب کو ٹھیک کرنے کی فکر ہے۔ وہ بھاشا یا زبان کے سیلانی ہیں جو تھوڑی دیر کیلئے بیرونی سیاحوں کو اپنے علاقے میں لاکر دور بین سے خوبصورت نظارہ دکھانے کی زحمت کرتے ہیں اور جب بیرونی سیاحوں اپنی راہ لیتے ہیں تو وہ اپنے لئے انگریزی زبان کی دُنیا سے مالدار گاہک کو ملتفت کرنے کیلئے قدم آگے بڑھا دیتے ہیں ۔