Inquilab Logo

خواہش کے دروازے پر مایوسی کی دستک

Updated: March 11, 2024, 4:19 PM IST | Aleem Tahir | Malegaon

اکیسویں صدی کے آرام دہ رہائشی فلیٹ میں خواہش ’ہوم جم‘ سے فراغت پاتے ہوئے پسینے میں تربتر آرام دہ کرسی پر براجمان ہو جاتی ہے۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

اکیسویں صدی کے آرام دہ رہائشی فلیٹ میں خواہش ’ہوم جم‘ سے فراغت پاتے ہوئے پسینے میں تربتر آرام دہ کرسی پر براجمان ہو جاتی ہے۔ اس کے شگفتہ جسم کی کیفیت اس باغ کے مانند دکھائی دے رہی تھی جس میں تروتازہ فضائیں، اشجار اور رسیلے پھل بھرپور زندگی کا بے پناہ مظاہرہ کر رہے تھے۔ خواہش اطمینان حاصل کرتے ہوئے اپنی آنکھیں موند کر زندگی کی قربت کو محسوس کر رہی تھی۔ یکایک دروازے پر دستک کی آواز خواہش کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ وہ دوسرے ہی لمحے اٹھ کر دروازہ کھولنے کو لپکتی ہے۔ اس کی چال میں ہاتھی سا غرور اور چہرے کے تاثرات میں بادشاہی کی شان و شوکت صاف طور پر نمایاں تھی۔ دروازہ کھولتے ہی سامنے لاغر نحیف میلے کچیلے کپڑوں میں ملبوس ’بھکارن مایوسی‘ اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلائے گڑگڑانے لگیں۔ 
 ’’میں بہت بھوکی پیاسی ہوں جس کی وجہ سے مجھ میں کمزوری نے قبضہ جما رکھا ہے۔ کیا تم میری مدد کر سکتی ہو۔ خدا کے واسطے انکار مت کرنا۔ بڑی آس لے کر آئی ہوں۔ 
  خواہش کے چہرے پر غرور، تمکنت، حقارت کے بعد ہلکی سی مروت کے تاثرات پلک جھپکتے ہی گزر گئے اور گرجدار آواز نکلی۔ ’’ شاید میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتی۔ ‘‘ مایوسی نے کہا: تم کر سکتی ہو کچھ لمحے بات ہی کر لو مجھ سے، شاید مجھے اطمینان آ جائے۔ ‘‘
 خواہش نے جھجکتے ہوئے دروازہ کھول دیا اور اسے اندر بلاتے ہوئے کہا ’’ٹھیک ہے انسانیت کے ناطے میں تم سے کچھ دیر تو بات کر ہی سکتی ہوں۔ آؤ میرے ساتھ اور اس آرام دہ کرسی کے سامنے بیٹھ جاؤ تاکہ بات کرتے ہوئے ہم دونوں کا اینگل ایک دوسرے سے آپس میں برابر ملتا رہے۔ ‘‘مایوسی کرسی پر بیٹھ کر متاثر کن نگاہوں سے صرف نایاب فلیٹ ہی کا نہیں بلکہ خواہش کے خوبصورت جسم کا دیدار بھی کر رہی تھی جو واقعی طلسماتی، اساطیری، یا بالکل جادوئی سا محسوس ہو رہا تھا۔ خواہش نے آرام دہ کرسی پر براجمان ہوتے ہوئے کہا’’ بولو بھکارن مایوسی‘‘
  مایوسی : میں زندگی میں اپنے کام کو چپ چاپ کرتی ہوں۔ میرے سپنے پورے ہوتے ہیں۔ بغیر کسی کو بتائے اپنا کام انجام دینا میرا نیچر ہے۔ ‘‘
  خواہش: میں بے نیاز ہوں۔ دیکھو مجھے کوئی کمی نہیں ہے۔ زندگی مجھ سے مسلسل اُبل رہی ہے۔ میں خود پر کنٹرول رکھتی ہوں۔ دوسرے خود بخود میرے کنٹرول میں آ جاتے ہیں۔ غصہ، جذبات، زبان اور تخیلات پر میں نے قابو پا لیا ہے۔ اس لئے تم بھی میرے کنٹرول میں ہو۔ سمجھی!‘‘، مایوسی: تمہاری ان باتوں میں کیا تمہیں غرور نظر نہیں آرہا۔ ‘‘
 خواہش: مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ میں بہت خوش اور طاقتور ہوں۔ دیکھو میری عیش و عشرت سے مزین زندگی۔ 
 مایوسی: تمہاری کیفیت سے برخلاف میرا حال ہے۔ میں تو بس تمہیں سمجھا رہی تھی۔ شاید مجھے ہی سمجھنا ہوگا۔ ‘‘
  یکلخت دروازے پر دستک کی آواز پر خواہش چونکتے ہوئے اٹھتی ہے۔ اور دروازہ کھولتی ہے۔ سامنے’’ملک الموت‘‘ لحیم شحیم لمبی تڑنگی شخصیت لئے کھڑے مسکرا ررہے ہوتے ہیں۔ خواہش ملک الموت کو دیکھتے ہوئے منکسرالمزاجی سے دروازہ کھول دیتی ہے۔ ملک الموت کی ہیبت ناکی سے مایوسی بھی با ادب کھڑی ہو جاتی ہے۔ 
 حکمیہ اور با اعتماد آواز فلیٹ میں گونجتی ہے۔ 
’’ اب آپ دونوں باہر چلے جائیں تاکہ میں اپنا کام کر سکوں۔ ‘‘ دونوں جی جی کرتے ہوئے باہر جانے لگتے ہیں۔ آئی سی یو، روم میں مانیٹر پر دھڑکنوں کی لہروں کا گراف لال ہرے لائٹس اور بیپ کی آواز سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتا ہے۔ 
   انسان کے جسم میں کھنچاؤ سے ہلکی سی حرکت پر ڈاکٹر اور نرسیں اسے گھیر لیتی ہیں۔ ڈاکٹر کی نگاہیں مانیٹر پر اور انسان کے چہرے پر بار بار پڑتی ہیں۔ انسان اپنی آنکھیں کھولتا ہے۔ جن میں خوف کی دھاگے نما لکیریں ہیں۔ چہرے پر تشویشناکی، اور سانسیں لینے کی شدید کوششیں۔ 
 مانیٹر پر گراف کی پستیاں، اعداد کی کمیاں، ڈاکٹر اور نرسیں مصنوعی حیران پریشان۔ 
  انسان پانچویں بار سانس لینے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کراس نگاہوں سے اسپتال کی چھت کو آخری بار دیکھتا ہے، اور ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہ جاتا ہے۔ 
  ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے انسان کی کھلی آنکھوں کو بند کرتا ہے۔ اور ایک دودھیا سفید کپڑا پورے جسم پر ڈال دیتا ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK