Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’ہر شخص کا ایک ستارہ ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور مرتا بھی ہے‘‘

Updated: August 19, 2024, 10:15 AM IST | Abdullah Hussain | Mumbai

’’اداس نسلیں‘‘ کے مصنف عبداللہ حسین کے افسانے ’’دھوپ‘‘ سے اقتباس۔

Photo: INN
تصویر : آئی این این

پانی میں تیرتے ہوئے سفید لمبی لمبی پتلی انگلیوں والے ہاتھ کو دیکھ کر اسے یاد آیا کہ اس کنویں کی پشت پر، جہاں سے یہ پگڈنڈی دوبارہ شروع ہوتی تھی، ایک نجومی بیٹھا کرتا تھا جس کے آگے ایک میلا سا کپڑا پھیلا ہوتا تھا جس پر عجیب و غریب قسم کے سکے اور پیتل کے چھوٹے چھوٹے نمبروں والے مکعب بکھرے رہتے تھے۔ اس نے پانی سے ہاتھ نکال کر چہرے پہ پھیرا او پھر بالوں سے پونچھ کر خشک کیا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کنواں ریں ریں کی مدھم، یکساں، خواب آلود آواز نکالتا ہوا چل رہا تھا اور اس کا بیٹا اچک کر گادی پر سوار ہو بیٹھا تھا اور ایک کھوپے چڑھے بیل کی دم پکڑ کر کھینچ رہا تھا۔ دائیں طرف جامن اور شہتوت کے پیڑوں کا جھنڈ تھا جس میں کاشت کار کا کچا مکان تھا۔ کاشت کار اپنے مکان کے سامنے بیٹھا ٹوکے سے چارہ کتر رہا تھا۔ مکان کی دیوار کے ساتھ کھرلی پر بھینس بندھی تھی جس کی پشت پر ایک کوا بیٹھا چونچ مار رہا تھا۔ اس سایہ دار، خاموش اور پرامن منظر کو آنکھوں میں اتار کر اس نے ایک لمبا چکر کاٹا اور ڈیرے کی پشت پر جا نکلا۔ جوتشی کی جگہ خالی تھی۔ 

یہ بھی پڑھئے:گلزار: اردو بولنے کو ایک نشہ آور تجربہ کے طور پر بیان کرنے والا شاعر

اس کے پیچھے کنویں کے چلنے اور پانی کے بہنے اور کسان کے ٹوکے کی آوا ز تھی اور گہری سایہ دار جگہوں میں گرے ہوئے پرانے پتوں کی تیز بو تھی اور سامنے چلچلاتے ہوئے رنگ تھے اور گیہوں کی لاکھوں جھومتی ہوئی بالیوں کی سرسراہٹ تھی۔ ساری جگہوں میں سے جوتشی نے صرف اسی جگہ کا انتخاب کیوں کیا تھا؟ اس نے سوچا۔ حالانکہ یہاں سے صرف پیدل دہقان گزرا کرتے تھے اور اس نے کبھی کسی دہقان کو جوتشی کے پاس بیٹھے ہوئے نہ دیکھا تھا۔ یہ ایک ایسی ہی پراسرار بات تھی جیسی بچپن کی ساری سرزمین ہوتی ہے۔ اس نے سوچا اور جوتشی جب تک وہاں رہا تھا ہمیشہ بڑے اطمینان اور فراغت سے وہاں بیٹھا ہوا ملتا رہا تھا۔ اس کے پاس پرانی سی سیاہ صندوقچی پڑی رہتی تھی جس پر چند بوسیدہ کتابیں اوپر نیچے رکھی ہوتی تھیں جن کے ساتھ ایک… انسانی ہاتھ کی شکل بنی ہوئی تھی اور ہتھیلی میں چند لکیریں کھچی تھیں اور نیچے بڑے بڑے لفظوں میں لکھا تھا: جوتش، رمل، نجوم، ابجد۔ 
’’ابجد؟‘‘ ایک روز ا س نے اپنے باپ سے پوچھا تھا، ’’یہ کیا ہوتا ہے بابا!‘‘ اور اس کا باپ کہ اور ساری باتوں کے علاوہ ابجد کا بھی علم رکھتا تھا (اس کے باپ کی بڑی بڑی مونچھیں تھیں اور وہ دنیا کے سارے علموں کا ماہر تھا) بولا تھا: ’’اسموں کا علم ہوتا ہے بیٹے۔‘‘

یہ بھی پڑھئے: شاعری اور ادب کیلئے یہ ضروری نہیں کہ وہ وقتی سیاست کے اشاروں پر چلے

’’اسموں کا؟‘‘ اس نے پوچھا تھا۔ 
’’ہاں …‘‘ اس کے باپ نے کہا تھا ’’ناموں کا۔ ‘‘ 
’’ہر شخص کے نام کا اثر اس کی ساری زندگی پر پڑتا ہے بیٹے۔ اسے ابجد کہتے ہیں۔ ‘‘
’’نام کا اثر کئے پڑتا ہے بابا!‘‘ اس نے پوچھا تھا اور اس کا باپ آرام سے پگڈنڈی پر بندوق کو گود میں رکھ کر بیٹھ گیا تھا اور اسے پاس بٹھا کر بولا تھا: ’’یہ لفظوں کا علم ہے بیٹے اور لفظ میں بڑا جادو ہوتا ہے۔ ‘‘
’’جادو ہوتا ہے؟‘‘ 
’’ہاں۔ ‘‘
’’کیسے؟‘‘ 
’’ایسے…‘‘ اس کا باپ ایک بالی توڑ کر اسے دانتوں میں چباتے ہوئے بولا تھا، ’’کہ جیسے تمہارا نام ہے جسے سویرے سے شام تک میں تمہاری ماں اور بہن اور سکول میں تمہارے استاد اور ہم جماعت ان گنت بار پکارتے ہیں اور تم اس نام پر بولتے ہو۔ مگر نام اسی پر ختم نہیں ہو جاتا۔ نام جتنی بار بھی پکارا جاتا ہے اس کا ایک لفظ بنتا ہے اور منہ سے نکل کر ہوا میں جاتا ہے کہ اس کی ایک شکل ہوتی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ضائع ہو گیا مگر کبھی ضائع نہیں ہوتا کیونکہ لفظ زندہ ہو تا ہے اور اس کا رشتہ تمہارے ستارے سے ہوتا ہے اور ہر بار جو پکارا جاتا ہے تو آواز کی رفتار سے اڑتا ہے اور آٹومیٹک (بابا کو یہ لفظ استعمال کرنے کا بہت شوق تھا، وہ دل میں ہنسا) سیدھا تمہارے ستارے تک پہنچتا ہے اور اس سے جا ٹکراتا ہے، ہر بار اور یوں تمہاری زندگی پہ اثر انداز ہوتا ہے‘‘۔ 
’’ستارہ کیا ہوتا ہے بابا؟‘‘ 
 ’’ہر شخص کا ایک ستارہ ہوتا ہے جس کے زیر اثر وہ پیدا ہوتا ہے اور زندہ رہتا ہے اور مرتا بھی ہے۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK