Inquilab Logo Happiest Places to Work

عمران پر فائر

Updated: July 26, 2025, 1:52 PM IST | Salman Ghazi | Mumbai

ابن صفی مرحوم کے اسلوب اور کرداروں کی بازیافت کی ایک کوشش (۱) عمران پر کس نے اور کیوں فائر کیا تھا اور دونوں کہاں غائب ہو گئے؟ فیاض کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی اور رحمان صاحب نے اس سے فون پر یہی سوالات پوچھے تھے۔

Picture: INN
تصویر: آئی این این

داخلی دروازے کی گھنٹی بجی تو سلیمان باورچی خانے سے باہر نکلا۔  لیکن جوزف ڈرائنگ روم سے دہاڑا ’’ٹم ڈور نئی کھولے گا ‘‘سلیمان نے کھا جانے والی نظروں سے اسے گھور کر پوچھا ’’کیوں نئی کھولے گا؟‘‘
’’باس کا آرڈر اے‘‘کہتے ہوئے جوزف نے دروازے کے پاس پہنچ کر پیپ ہول سے ایک آنکھ لگا دی۔ ساتھ ہی اس کی بانچھیں بھی کھل گئیں۔  اس نے فوراً دروازہ کھول دیا اور ایک طرف ہٹ کر قدرے خم ہو کر ’’ بولا  سلام، ویلکم مسی، ہاؤ آر یو؟‘‘
عمران کی چھوٹی بہن ثریا جوزف کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی خشک لہجے میں بولی ’’جوزف! بھائی جان کہاں ہیں؟‘‘
’’ام کو نئی معلوم مسی، کل ایوننگ میں گیا۔ ابی واپس نئی آیا۔‘‘
’’فون آئے تو کہنا امی کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ فوراً گھر آئیں۔‘‘
’’مسی! پلیز کم اِن…‘‘  ثریا جوزف کی پوری بات سنے بنا دروازے سے ہی پلٹ گئی۔ 
جوزف نے دروازہ بند کیا۔  پلٹا تو سلیمان کو اپنے سامنے کھڑا پایا۔  اس کے چہرے سے ابھی تک غصہ عیاں تھا۔ تنک کر بولا: 
’’سن بے کالیے! مجھ پر دھونس نہ جمانا،  ہاں!  ورنہ کھانے میں جمال گھوٹا ملا کر لوٹا پریڈ نہ کرائی تو میرا نام بھی سلیمان نہیں۔‘‘
’’جمال گوٹا... لوٹا۔۔۔ کیا بولٹا ٹم؟ ام باس کو بولے گا، ٹمارا کھانا نئی مانگٹا، باس ام کو فون کیا ،بولا ڈینجر ہے۔  ڈور اونلی ام کھول سکٹا، جاؤ ٹم کچن میں کھانا بناؤ۔‘‘
’’ابے کالیے، سچ سچ بتا، عمران صاحب کو کیا ہوا؟ یہ چھوٹی بیگم صاحبہ کیوں آئی تھیں؟‘‘
’’ام کیا بٹائے، باس کا مدر ناٹ ویل بولا، باس کو گھر جانا مانگٹا۔‘‘
اتنے میں ڈور بیل پھر بجی۔  جوزف نے جھانکا تو اس بار کیپٹن فیاض دروازے پر تھا۔  اس نے سلیمان کو جانے کا اشارہ کیا۔ سلیمان خاموشی سے ہٹ گیا۔ جوزف نے دروازہ کھولا اور ہاتھ کے اشارے سے فیاض کو سلام کیا۔  جوزف کا چہرہ بالکل سپاٹ اور تاثرات سے خالی تھا۔ وہ اٹینشن کھڑا کیپٹن فیاض کے کندھے کے اوپر سے سامنے والی دیوار کو خاموشی سے گھور رہا تھا۔
’’عمران کہاں ہے؟ ‘‘کیپٹن فیاض نے فلیٹ میں داخل ہوتے ہوئے پوچھا
’’باس کل ایوننگ گیا۔ ابی ٹک نئی آیا۔‘‘
’’کیوں نہیں آیا؟‘‘
’’ام کیا بٹائے؟ وہ باس اے۔‘‘
’’فون کیا تھا؟‘‘
’’نئی‘‘
’’ثریا کیوں … ‘‘پوچھتے پوچھتے فیاض رک گیا اور’’ عمران آئے تو فون کرنے کہنا ‘‘کہتے ہوئے باہر نکل گیا۔ 
……………
رحمان صاحب کا چہرہ غصے کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ کچھ ہی دیر پہلے وہ کیپٹن فیاض سے فون پر بات کر رہے تھے۔  دراصل انہوں نے خود ہی فیاض کو فون کیا تھا۔  وہ عمران کے متعلق جاننا چاہتے تھے۔ لیکن فیاض کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ عمران کہاں تھا۔  دراصل کل شام کو شہر کی ایک بھری پری شاہراہ پر عجیب واردات ہوئی تھی۔  دو طرفہ فائرنگ میں ایک کار کا شیشہ ٹوٹا تھا، ایک شخص زخمی ہوا تھا۔  فٹپاتھ پر پڑا ایک ریوالور بھی ملا تھا جس سے ایک فائر ہوا تھا۔  کار عمران کی تھی لیکن عمران خود غائب تھا۔  جو شخص زخمی ہوا تھا وہ بھی غائب تھا۔  عمران کی کار سے کچھ فاصلے پر فٹپاتھ پر واقع ٹیلیفون بوتھ کے فرش پر جمے خون اور باہر پڑے ریوالور سے فیاض صرف اتنا اندازہ لگا سکا کہ ٹیلیفون بوتھ میں سے کسی نے عمران پر فائر کیا تھا جو اپنی کار میں بیٹھا تھا۔  لیکن کسی تیسرے شخص نے حملہ آور پر بھی فائر کیا تھا جس سے وہ زخمی ہو گیا اور ریوالور اس کے ہاتھ سے گر پڑا۔  لیکن وہ موقعۂ واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ عمران پر کیا گیا فائر چوک گیا جس سے کار کا شیشہ ٹوٹ گیا۔  عمران زخمی بھی نہیں ہوا کیونکہ اس کی گاڑی میں کہیں بھی خون نہیں پایا گیا۔ جائے واردات پر تلاش کرنے پر دو عدد گولیاں مل گئیں۔  آس پاس پوچھ گچھ کرنے پر کسی نے بھی گولیاں چلنے کی آواز یا دھماکے سننے کا اعتراف نہیں کیا جس سے فیاض اس نتیجے پر پہنچا کہ دونوں طرف سے سائلینسر لگے ہوئے ریوالوروں سے گولیاں چلائی گئی تھیں۔  فیاض کی معلومات کی گاڑی اس سے ایک انچ آگے نہ بڑھی اور وہیں ٹھپ ہو گئی۔  عمران پر کس نے اور کیوں فائر کیا تھا اور دونوں کہاں غائب ہو گئے؟ فیاض کو اس کی کوئی خبر نہیں تھی اور رحمان صاحب نے اس سے فون پر یہی سوالات پوچھے تھے۔  فیاض ہکلانے کے سوا کوئی واضح جواب نہیں دے سکا۔  رحمان صاحب کے یہ پوچھنے پر کہ دونوں کی تلاش کے لئے کیا لائحہ ٔ  عمل تیار کیا گیا ہے تو حقیقتاً فیاض کے دونوں ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔  وہ آخر اس کا کیا جواب دیتا کہ وہ دونوں کو کہاں اور کیسے تلاش کریگا؟ فیاض اس طرح کے منصوبے عمران کے مشوروں کے بغیر بنا ہی نہیں سکتا تھا۔  اس پر رحمان صاحب بہت طیش میں آگئے اور فیاض اور اس کے ماتحتوں کو سخت سست کہنے لگے اور یہ کہتے ہوئے فون بند کر دیا کہ ان دونوں کو اب میں اپنے ذرائع سے تلاش کروںگا۔  فیاض پسینے میں تر بتر ہو گیا تھا۔  اس کا دل اس کی کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا۔  فون بند ہونے پر اس نے سخت پریشانی کے باوجود اطمینان کی گہری سانس لی۔ 
(سلسلہ وار کہانی کی دوسری قسط کل پڑھئے)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK