( ۹؍نومبر کو) مشہور افسانہ نگار انورقمر کی دوسری برسی کے موقع پر ملاحظہ کیجئے ان کے فن ِ افسانہ نویسی سے براہ راست بحث کرتا ہوا یہ اہم مضمون جس کی دوسری قسط آئندہ ہفتے شائع ہوگی۔
EPAPER
Updated: November 23, 2025, 4:53 PM IST | Mohammed Aslam Parvez | Mumbai
( ۹؍نومبر کو) مشہور افسانہ نگار انورقمر کی دوسری برسی کے موقع پر ملاحظہ کیجئے ان کے فن ِ افسانہ نویسی سے براہ راست بحث کرتا ہوا یہ اہم مضمون جس کی دوسری قسط آئندہ ہفتے شائع ہوگی۔
۷۰ء کی دہائی کے اواخرکا دورانیہ اردو فکشن کی تاریخ میں ان معنوں میں منفرد خصوصیت کا حامل رہا کہ یہی وہ دور تھا جب علامتیت، تمثیلیت اور تجریدیت کی اُڑائی ہوئی دھول نے اردو افسانہ کی مجموعی فضا کو بڑی حد تک دھندلاکر دیا تھا اور اُسی دھندلے اور گدلے منظرنامے کے عقب سے لکھاریوں کی ایک نئی نسل طلوع ہو رہی تھی جو اپنی گزشتہ نسل سے نہ پیچھا چھڑا پا رہی تھی نہ ہی اُن کے ہیئتی تجربات اور لسانی تخریبات کو اخذ کر رہی تھی۔ اس تناظر میں جب ہم ۱۹۷۸ء میں شائع ہو نے والے انور قمر کے اولین مجموعہ ’’چاندنی کے سپرد‘‘ کودیکھتے ہیں تو اُن کے افسانے مختلف بلکہ خوشگوار حدتک مختلف نظر آتے ہیں کہ یہ بڑی حد تک اُس تخلیقی ڈائلیما سے محفوظ اور محروم ہیں، جن سے اُن کے بیشتر معاصرین نبردآزما تھے۔ بحیثیت افسانہ نگار انور قمر کا فنی رویہ نہ روایت کی تقلید پر آمادہ ہے نہ بغاوت کی راہ اپنا تاہے، نہ کسی نظریے کا تابعدار ہے نہ کسی رحجان کا غلام۔ یہاں وہ اپنے حوالے سے دنیا کو دیکھنے اور دنیا کے وسیلے سے خود کو سمجھنے میں کوشاں دکھائی دیتے ہیں۔ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی سے براہ راست مڈبھیڑنے اُن کے افسانوں کووجودیت اور لایعنیت کے دلدل سے بچائے رکھا۔ یہ افسانے سیدھے سادے اور سرل ہیں لیکن اکہرے اور اُتھلے نہیں ہیں۔ قیدی، چوراہے پر ٹنگا آدمی، ہاتھیوں کی قطار، چاندنی کے سُپرد، جیک اینڈ جیل اور میرا بیٹا، قیدی، گرمی اور کیلاش پربت جیسےسہیج سبھائو کے افسانوں میں وہ نئی تکنیکوں کے چھلائوں کے پیچھے بھاگتے نظر نہیں آتے۔ بس سادگی اور پُرکاری سے پڑھنے والوں کو ورغلاتے اور اپنے دام میں لاتے ہیں کہ اُن کا مقصد صرف قصہ گوئی ہے۔
انور قمر افسانہ نگاروں کی ایسی صف سے تعلق رکھتے ہیں جو قلم برداشتہ لکھنے کے بجائے فکر و شعور کی جہات کو بروئے کار لاتے ہوئے افسانے کی تخلیق بلکہ تعمیر کرتے ہیں۔ افسانہ یک گونہ سہولت رسائی کے ساتھ انور قمر کے پاس نہیں آیاکہ اس کیلئے اُنہوں نے آنکھوں کا تیل بھی ٹپکایااور خونِ جگر بھی صرف کیا۔ موضوع کو ہضم کرنے، موٹیف کو رچانے بسانے، فضا کے رنگ روپ بھرنے، کرداروں کی سائیکی میں اُترنے، نیز الفاظ کے انتخاب اور اُن کی نشست و برخاست کے لمحات میں وہ اپنے فنی انہماک کو کبھی معطل ہونے نہیں دیتے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ انور قمر اپنے معاصرین میں سب سے زیادہ Concious اور حقیقی معنوں میں Devoted افسانہ نگار ہیں۔ اپنے نسبتاً کمزور افسانوں کو بھی جس لاگ، لگن اور لگائو سے اُنہوں نےسُپرد قلم کیا ہےوہ اس صنف سے اُن کے والہانہ عشق کی گواہی دینے کیلئے کافی ہے۔ بے خطر آگ میں کودنا اُن کی طبع اور مزاجِ عشق کے موافق نہ رہا ہو تب بھی عشق کا والہانہ پن اُن کی تخلیقی اُپج اور تخیلاتی اُڑانوں کوگیلی لکڑی کی طرح اندر ہی اندر سلگاتاضرور رہا۔ اپنے آپ کو متن سے باہر رکھ کر لکھنا وہ جانتے ہی نہیں اوراسی لیے آگ کے دریا سےگزرنے والےاپنے ہر افسانوی تجربے کو فائر پروف جیکٹ پہن کر عبور کرتے رہے۔ وجدان اور اندرونی اُپج سے زیادہ شعور، ڈسپلن اور ریاضت کے عمل دخل نے زندگی کی طرف اُن کے اپروچ کوClinical بنا دیا ہے اور یوں کمزور لمحات میں افسانہ آرٹ سے زیادہ کرافٹ کے قریب معلوم ہوتاہے۔ تخلیقی عمل کے دوران افسانہ نگار انور قمر اپنی باگ ڈور کسی روحانی یا غیر مرئی ہستی یا وجدانی کیفیت کے حوالے کرنے کے بجائےاُس قاری کے ہاتھوں میں دینا زیادہ پسند کرتے ہیں جو اُن کے فنی ضمیر میں Thinking Cap پہنےبیٹھا ہوا ہےاور کسی جادوئی جن کی طرح افسانے کے ہر صفحے پرمعنی کی فوری تاکید کا اہتمام کرنے آ دھمکتا ہے۔ انور قمر کے تشکیل دیے گئے متن کا تجزیہ کیا جائے تو یہ نتیجہ آسانی سے اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اُن کی سب سے بڑی فکر افسانہ مکمل کرنا نہیں اپنے فنی ضمیر کو شاد کام اور مطمئن کرنا ہے۔ افسانہ لکھتے ہوئے وہ جن ذہنی اور نفسیاتی زلزلوں سے گزرتے ہیں اُس کی ہر آہٹ اور ہر کروٹ کو اُن کے اندر بیٹھا ہوا قاری اس طرح دستاویز کرتا ہے کہ فنی ضمیر تشنہ اظہار نہ رہ جائے۔ ملحوظ رہےکہ انور قمر کے اندر کایہ قاری جتنا مہذب، مرتب، بیدار اور حساس ہے اُتنا ہی محتاط اورشکّی بھی ہے۔ کبھی کبھی تو محسوس ہوتا ہے افسانوی متن کی تشکیل افسانہ نگار انور قمر نہیں ، اُن کے اُسی Doubleنے کی ہے۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے اگر میں یہ کہوں کہ اسی کنٹو پ دھاری قاری نے ناقابلِ اظہارکو دائرۂ اظہار میں لاکرافسانوی متن میں قائم ہونے والے ڈسکورس کی دانشوارانہ لے کو تیز، گھنا، گنجان اور تہہ دار کیا اور اسی نے کہیں کہیں افسانے سے فطری روانی چھین کر فن کاری کو صناعی میں بدلنے کا کام بھی بڑی خوبی سےانجام دیا ہے۔
قصّہ مختصر یہ کہ انور قمر کے لیے افسانہ لکھنا نہ تفریحی مشغلہ ہے نہ ہی کوئی ضمنی سر گرمی کا معاملہ ہے ...افسانہ نگا ری اُن کی فکری و جذباتی ضرورت تو ہے ہی، اِسی کے ساتھ یہ مدعی بن کر اپنے وجود کا جواز تلاش کرنے کی خواہش اور کاوش سے بھی عبارت ہے۔ تخلیقی عمل کے دوران ارادوں، اندیشوں اور وسوسوں کا ایک قافلہ ہے، جو اُن کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلتاہے۔ افسانہ لکھنے سے پہلے اورلکھتے ہوئے ہی نہیں لکھنے کے بعد بھی عدم تکملیت کا روح فرسا احساس اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اسلوب اور ترتیب پر اُن کا اصرار اس امر کی شہادت ہے کہ ہر ایک بات کو وہ خصوصی انداز میں کہنا چاہتے ہیں۔ لکھے ہوئے کو دوبارہ لکھنے اور دیکھے ہوئے کو پھر سے دیکھنے کا پیٹرن تخلیقی تجسس اور آمادگی کے اسباب پیدا کرنے کی ناتمام جہت ہی کہی جاسکتی ہے، جو کبھی کبھی اکیڈمک ایکسرسائز میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے کہا انور قمر ایک بہائو میں دھواں دھار لکھنے والے افسانہ نگار نہیں۔ افسانوی متن میں داخل ہونے والے ہر جملے، بولے گئے ہرمکالمے، بیان کیے گئے ہر منظر اور ڈھالے گئے ہر کردارکی منصوبہ بندی پر انور قمر اپنی پوری توجہ صرف کرتے ہیں۔ افسانہ کو وسعت، گہرائی اور رفعت عطا کرنے کیلئے ایک ایک لفظ کوگویا چمٹے سے پکڑ کر جملے میں فٹ کر رہے ہوں اور اس عمل میں جتنا لکھتے نہیں اُتنا کاٹتےہیں۔
افتخار امام صدیقی نے اپنی ایک گفتگو میں اسے انور قمر کی تخلیقی جھنجھلاہٹ قرار دیا تھا جبکہ میرے خیال میں یہ بے لگام اوربے ہیئت متن کو ایک خوبصورت ہیئت اور صورت عطا کرنے کی وہ کشمکش اور ڈائلیما ہے، جوہر تخلیقی فن کار کا مقدرہوتا ہے۔ تجربے کی وہ قاش جسے اُن کے افسانوں کا مواد ہونا ہے اُسے بامعنی اور موثر بنانے کی للک اُن کے ذہن اور باطن کو کچھ اس طرح مضطرب رکھتی ہے گویا جینا اور لکھنا اُن کیلئے ایک ہی شے ہوجایا کرتا ہے۔ مشہور ڈراما نگار ابسن کی طرح اپنی تحریروں کو اولاد ماننے اور گرداننے کے باوجودانور قمر اُنہیں بہتUnder rate کرتے رہے ہیں۔ معروف افسانہ نگار م ناگ کے ساتھ ایک ادبی مکالمے کے دوران انہوں نے کہا تھا:
’’دُنیا سے رخصت ہونے سے پہلے میں ایک انتخاب اپنے افسانوں کا شائع کرنا چاہتا ہوں جس میں بمشکل تمام ایک درجن افسانے ہوں گے۔ آپ مجھ سے پوچھ سکتے ہیں کہ صرف ایک درجن افسانے ہی کیوں ؟ جواباً عرض ہے کہ میں اپنے صرف چھ افسانے ہی اس انتخاب میں رکھنا چاہتا تھا، لیکن کتاب کے صفحات کی تعداد کے پیشِ نظر جو مختصر ہو جائے گی اس لئے بارہ افسانے منتخب کرنے پڑیں گے۔ ‘‘
محولہ بالابیان سے کچھ اور پتہ چلے نہ چلے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ انور قمر اپنے پچاس سالہ تخلیقی و فنی حاصلات کے تئیں کسی خوش فہمی یاغلط فہمی میں مبتلا نہیں اورنہ ہی رعایتی نمبر دے کروہ اُسے آگے بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔ خود احتسابی کا یہ عمل پورے Involvment سے لکھے گئے افسانوں کو بھی دشمن کی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ محض پانچ یا چھ افسانوں کو بقائے دوام دینے کی جوبات اُنہوں نے کہی ہے اُس پر سر دست میں کسی بحث کے موقف میں نہیں اور یہ کہہ کر آگے بڑھ جانا چاہتا ہوں کہ ۲۰۱۵ء میں مظہر سلیم اور عامر قریشی نے جو انتخاب ’’جادوگر‘‘ کے عنوان سے تکمیل پبلی کیشن، ممبئی/ بھیونڈی کے لئے شائع کیا تھا، اُس میں انور قمر کے لگ بھگ سبھی اہم اور نمائندہ افسانے سمٹ آئے ہیں۔ کم و بیش پانچ دہائیوں کو محیط انور قمر کے افسانوی سفر میں ہمیں کئی موضوعاتی اور اسلوبیاتی پڑائو ملتے ہیں۔ ان کی تخلیقی کائنات چونکہ بیانیہ، علامتی، تمثیلی، اشاراتی، فنٹیسی اور تجرباتی سبھی طرز کے افسانوں سے آباد ہے، اس لئے ہم اُن کے فکری و فنی رویے کو کسی ایک خاص برانڈ میں باندھ نہیں سکتے۔ ابتدا ہی سے انور قمر کے یہاں اظہار کی جو متعدد صورتیں ٹھہرتی ہیں اس نے ہی اُنہیں زندگی کو اُس کے پورے تنوع، بوقلمونی اور تجربے کو اُس کے تمام جہات کے ساتھ انگیز کرنے کی ترغیب دی۔ ان کی کتابیں چاندنی کے سُپرد (۱۹۷۸ء)، چوپال میں سنا ہوا قصہ (۱۹۸۴ء)، کلر بلائنڈ (۱۹۹۰ء) اور جہاز پر کیا ہو ا؟ (۲۰۰۸ء) اصل میں زندگی کی ہمہ جہت بوقلمونی کا نگار خانہ اور اُن کے افسانوی سفر کی کُل پونجی ہیں۔ انور قمراُن لکھنے والوں میں نہ تھے، جو زندگی بھر ایک ہی پوز اورایک ہی پوزیشن میں تصویریں کھینچواتے ہیں۔ ایک زندہ اور بیدار فنکار کی حیثیت سے اُن کے فنی رویوں میں رونما ہونے والا موضوعاتی، بیاناتی اور اسلوبیاتی تغیر ایک دلچسپ اور معنی خیز رودادبیان کرتا ہے اور صراطِ مستقیم میں بڑھنے کے بجائے اُن کایہ افسانوی سفر ایک دائرہ کی تشکیل اور تکمیل کرتا ہے۔ نصف صدی سے اردو افسانے کی گیسو سنوارنے میں ہمہ تن مصروف رہنے والے انور قمرنے افسانہ نگاری کے اُس اسلوب اور تکنیک کو آزمایا جو اُنہوں نے اپنے ابتدائی افسانوں میں روا رکھی تھی۔
’’چاندنی کے سُپرد‘‘ کی رمزیت ، ایمایت اور اشاریت ’’جہاز پر کیا ہوا؟‘‘کے افسانوں میں تکمیلیت کو پہنچ جاتی ہے۔ یہاں افسانہ نگار کا مقصد محبت، نفرت، ہمدردی یا حقارت کے جذبات پیدا کرنا نہیں بلکہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی مسرتوں، اُمیدوں، کامرانیوں، محرومیوں، رسائیوں اور نارسائیوں کے معمولی نقوش اور موجودات کے ادنیٰ ترین مظاہرکے توسط سے بڑے سوالوں سے انکائونٹر کرنا ہے۔ ایسے سوال جن کے جواب خود اُس کے پاس نہیں... شاید یہی وجہ ہے کہ فضیل جعفری نے ’’جہاز پر کیا ہوا‘‘ کے دیباچہ میں لکھا ہے کہ اپنے افسانوی کرداروں اور واقعات کوانور قمر اسپرنگ بورڈ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ انور قمر کے وہ افسانے بالخصوص جو’’کلر بلائنڈ‘‘ کے بعد تحریر کیے گئے اپنی فکر ،زبان و بیان اور تکنیک کے اعتبار سے تخلیقیت سے معمور ہیں بلکہ تخلیقیت ہی ان کی نمایاں صفت ہے۔ یہاں نہ موضوع کی گھن گرج ہے، نہ چونکانے والی تکنیک، نہ جھنجھوڑنے والا اسلوب اور نہ ہی علامتوں اور استعاروں کے پھینکے گئے مایا جال ہیں۔ انور قمر یہاں دھیمے سُر میں بلکہ سرگوشیوں کے انداز میں باتیں کرتے ہیں، لیکن سرگوشیوں کی سادگی پر نہ جائیں کہ اس سادگی میں ایک خنک لاتعلقی بھی ہے۔ یہ افسانے ٹھہرے ہوئے پانی کی مثل خاموش ہیں۔ صاف، شفاف، لیکن گہرا پانی، جس کےاصل معنی سطح پر نہیں، سطح کے نیچے موجودہیں۔ اُن کے افسانے سزائے موت: ایک لوک کتھا، فضول کاغذات میں ملے تین خط، روٹی رساں، چڑیوں نے کہا عافیت ہے اور رات بسے کا راستہ جیسے افسانوں میں آرٹ کی صناعی تکمیل کو پہنچ کر اُس حسن کو پالیتی ہے جہاں فن کاری خود فن کو معدوم کر دیتی ہے۔
۱۹۷۰کے بعد کے جن افسانہ نگاروںنے افسانےکی روایت کو تجریدیت کے جال و جنجال سے نکالنے اور گردوپیش کی ٹھوس دُنیا سے اُسے مربوط کرنےپر توجہ مبذول کرائی اُن میں انور قمرکا نام ہم بغیر کسی ہچکچاہٹ کے لے سکتے ہیں۔ جدید اردو افسانے کے لگ بھگ سبھی انتھالوجی میں انور قمر کا افسانہ اپنی جگہ محفوظ کر چکا ہے اور معاصر افسانے پر لکھتے ہوئے بیشتر ناقدین نے اپنے مضامین میں ان کے افسانوں کو بطور حوالہ درج کرنے میں فیاضی کا جابجا ثبوت دیا ہے۔ مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ فضیل جعفری کے علاوہ کسی بڑے نقاد نے ان کے افسانوں پر الگ سے مقالہ یا مضمون لکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ (فضیل صاحب کا یہ مضمون بھی اتفاق سے ’’جہاز پر کیا ہوا؟‘‘ کیلئے بطور دیباچہ تحریر کیا گیا تھا۔ یعنی اس کے لکھے جانے میں بھی لکھوائے جانے کا بہت کچھ دخل رہا ہے) یہاں جملہ معترضہ کے طور پر یہ عرض کرتا چلوں کہ اپنی کتاب پر مزاح نگار حضرات مثلاً یوسف ناظم اور فیاض احمد فیضی سے ڈسٹ کور پر چند سطریں لکھوا کر انور قمر نے فکشن کے اُن ناقدوںسے انتقام لیا، جنہوں نے مصلحت یا تعصب کے زیرِاثر اُن سے اِغماض برتا۔
۲۰۱۲ء میں مظہر سلیم کی ادارت میں نکلنے والے سہ ماہی ’’تکمیل‘‘ نے ایک خصوصی شمارہ انور قمر سے معنون کر کے انہیں تہنیت پیش کی تھی۔ اس شمارہ میں انور قمر کے احباب کے تاثراتی نوٹس اور سرسری مضامین کے علاوہ گیارہ افسانوں کے تجزیے بھی اوپر تلے چن کر چھاپے گئے۔لیکن افسوس! اس خصوصی اشاعت میں شامل زیادہ تر تجزیےانورقمر کے افسانوں کے معنوی امکانات کی بازیافت کرنے اور اُن کے فن کےپیچیدہ میکنزم کو دریافت کرنے کے بجائےمکھی پر مکھی مارنے کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ محترم جائزہ نویسوں کی تمام تر تنقیدی موشوگافیاں افسانے کو ٹس سے مس کرنے میں ناکام ہیں اور سبھی افسانے وہیں کھڑے نظر آتے ہیں جہاں تجزیے سے پہلے موجود تھے۔ انور قمر کے افسانوں کی تہہ داری، اسلوب کی تخلیقی توانائی اور ملفوظی نظام کی گرہیں جس مرکوز مطالعے کا مطالبہ کرتی ہیں اس سے یہ تجزیے محروم ہیں۔ لہٰذایہ سوال ہمارے سامنےاُسی طرح ہاتھ پسارےکھڑا ہے کہ انور قمر کےفن پر کیونکر کوئی سنجیدہ مکالمہ قائم نہیں ہو سکا؟
افسانہ نگاری ’’ون مین شو‘‘ نہیں، اسی لئے تو کہتے کہ ہر افسانے کے دو خالق ہوتے ہیں، ایک افسانہ نگار اور دوسرا وہ زمانہ جس میں افسانہ لکھا گیا۔ تناسب کی تبدیلی ضروران میں ہوتی رہتی ہے۔ نمائندہ افسانوں کے مجموعہ ’’جادوگر‘‘ کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ افسانہ نگار کی ذاتی توفیق کے ساتھ زندگی کی اجتماعی استعداد نےنہ صرف اُن کے لکھے جانے کے اسباب مہیا کیے ہیںبلکہ اُنہیں لکھا بھی ہے لہٰذا ان افسانوں کے سینوں میں اُن کا عہد دھڑک رہا ہے۔ انور قمر اُن عصری معاملات و مسائل کوگرفت میں لینے اور اُن کے نا دریافت منطقوں کو چھونے کا جتن کرتے ہیں، جنہیں تاریخ اپنی پتھرائی ہوئی آنکھوں سے فقط دیکھتی رہتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ میں ویتنام کے یتیم بچوں کی بازآباد کاری کے تحت بے بی لفٹ آپریشن شروع کیا گیا لیکن بشر دوستی کے عنوان کے تحت جاری اس مشن کا اصل مقصد انسانی (اسمگلنگ کی) تجارت کی منڈیاں سجانا تھا۔ انور قمر نے اس موضوع پر قلم اُٹھاتے ہوئے انسانی زندگی سے وابستہ صداقتوں کو مضبوط فکر و نظر کے ساتھ پیش کیا۔’’کیلاش پربت‘‘ میں اُنہوں نے ایک امریکی پروجیکٹ کے پیچھے چھپے غیرانسانی چہرہ کو بے نقاب کیا۔ اس کے بعد سوویت یونین نے جب اپنی توسیع پسند پالیسی کے تحت افغانستان میں کٹھ پتلی حکومت بنائی اور بالواسطہ قبضہ کیا تو انور قمر نے سوویت روس کا سرخ مکھوٹا نوچ کر اس کے پیچھے چھپا مکروہ چہرہ دکھانے کیلئے ’’کابلی والا کی واپسی‘‘لکھا۔
گجرات کے فسادات ہوں یا عام آدمی پر سماجی، سیاسی یا مذہبی نظام کی پابندیاں یا پھر انسان کے باطن میں جاری خیر و شر کی نہ ختم ہونے والی نبردآزمائیاں...
سرمایہ کاری نظام کی حرص و ہوس تجدید کاری کے نام پر کس طرح شہر کو تباہی کے دہانے پر لاکر کھڑا کیا ہے اس کا تجزیہ انور قمر ’’ہاتھیوں کی قطار‘‘ میں نہایت عمدگی سے کیا ہے۔ Ecologicalتوازن کے بگڑتے، بہکتے اور بڑھتے قدموں کی آہٹ انہوں نے گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی میں ہی سن لی تھی۔ ماحولیات سے متعلق انسانی سروکار کے تئیں گہری دردمندی اور موجودہ نظام کی بے قاعدگیوں کے خلاف مزاحمت کی آوازان کے ابتدائی دور کے لکھے افسانے ’’ہاتھیوں کی قطار‘‘ میںسُنائی دیتی ہے۔
معاشرے کے تخلیقی منظر نامے پر انور قمر کا طرز احساس نہ صرف معنویت کی متنوع سطح کا حامل ہوتا ہے بلکہ تفہیم کے مختلف دائروں میں کام کرتے ہوئے اظہار کے نئے پیرائے اور وسیلے تراشتا اور تلاشتا رہتاہے۔ جزئیات اور تفصیلات کے اختلاف کے باوجود انور قمر کے یہاں Contentمیں کوئی بہت زیادہ فرق نہیں ملتا، فرق ہے تو صرف پیشکش کا ... ایک تخلیقی فن کار کی حیثیت سے انہوں نے دائرہ کو توڑنے کی کوشش کی ہے مگر اہم بات یہ ہے کہ ان کے کامیاب اور نمائندہ افسانے دائرہ کے اندر کا نہیں دائرہ کے باہر کا استعارہ ہیں۔’’فضول کاغذات میں ملے تین خط‘‘ میں تقسیم سے وابستہ سنگین اور ہولناک حقایق کو تیز تیکھے لہجے اور چیختے ہوئے اسلوب میں لکھنے کے بجائے انور قمر نے دھیمے، نرم اور سہیج سبھائو میں بیان کیا ہے۔ اپنے پڑھنے والے کے ذہن میں یہ افسانہ کئی ایسے سوالات چھوڑجاتا ہےجنہیںبھولنا مشکل اور یاد رکھنا خطرناک ہو جاتاہے۔ میرے خیال میں یہ افسانہ آج بھی بامعنی ہے اور دونوں ملکوں میں جاری نفرتوں کے مابین ایک مراسلے کا عنوان رکھتا ہے۔
کہتے ہیں’’بھوک جنم کی ہوک ہوتی ہے‘‘ یہ اپنی اصل میں کتنی سفاک، ذلیل، فحش، مکروہ اور قابل نفریں ہے یا ہو سکتی ہے، دلت ادب کا مطالعہ ہمیں بخوبی بتاتا ہے ۔ انور قمر کا افسانہ’’سزائے موت:ایک لوک کتھا‘‘ بھوک کے ایسی ہی بے شرمانہ اور بہمیانہ چہرے سے ہمیں روبرو کرواتا ہے۔ افسانے میںجبر کے خلاف کوئی احتجاجی لے نہیں ہے اورپورا افسانہ کسی پینٹنگ کی طرح خاموش ہے ۔ لیکن یہ خاموشی ایک بے آواز چیخ بن کرپورے افسانے میں گونجتی رہتی ہے۔یہ چیخ ہے ناانصافی، غربت، بربریت، لوٹ کھسوٹ، غلامی، بیماری اور استحصال کے خلاف ۔
دیویندر اسر نے انور قمر کے فن پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کے افسانوں کا مرکزی تھیم جبرکو قرار دیا تھا ۔ اس میں شک نہیں کہ یہ جبر ہی ہے جو انور قمر کے افسانوں میںمختلف عنوانات سے بار باراپنی موجودگی درج کرتا ہے۔ موضوعاتی اور اسلوبیاتی اعتبار سے مختلف طرز کے لکھے افسانوں میں بھی یہ جبر ہی لانچنگ پیڈکا بھی کام کرتا ہے ۔ ’’چوراہے پر ٹنگا آدمی‘‘ ، ’’کلر بلائنڈ‘‘، فضول کاغذات میں ملے ہوئے تین خط‘‘، ’’روٹی رساں‘‘ اور ’’جہاز پر کیا ہوا‘‘ جیسے مختلف افسانوں میں یہ جبر کہیں احتجاجی لے بن کر ابھرتا ہے تو کہیں نفسیاتی خوف بن کر، کہیں دبی دبی مزاحمت کی شکل میں نمودار ہوتا ہے تو کہیں اعصاب زدگی کے طور پراور کہیں جبر سے مکمل مفاہمت کے نقاب میں صورت گر ہوتا ہے۔ فضول کاغذات میں ملے ہوئے تین خط، روٹی رساں، قیدی، ہاتھیوں کی قطار، چوراہے پر ٹنگا ہوا آدمی، کابلی والاکی واپسی، مرگ انبوہ اور جہاز پر کیا ہوا میں جُزئیات اور تفصیلات میں اختلاف کے باوجود انہوں نے ایک ہوش مند اور حساس قصّہ گو کی حیثیت سے اپنی مزاحمت کو خاطر نشان کیا ہے۔ افسانہ علامتی ہو یا تمثیلی یا پھر ٹھوس بیانیہ ، انور قمر کا کوئی بھی افسانہ سماجی شعور سے خالی نہیں ۔ بیانیہ کی زیریں سطح پربے چینی، اضطراب، برہمی و غصّہ، جھنجھلاہٹ اور مزاحمت کی خاموش لہریں تیزی سے کروٹیں لے رہی ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ ان افسانوں میں سادگی اور آرٹ کا ڈسپلن دونوں موجود ہے۔ افسانےکے مرکزی کرداروں سے گہرے جذباتی تعلق کے باوجود لاتعلقی، سرد مہری اورانتہائی معروضیت سے پیش کرنے کی روش بعد کے زیادہ تر افسانوں میں ملتی ہے۔
اپنے خیال کو کم سے کم لفظوں میں سمیٹنا اور ان کے معنوی تلازمات کے سہارےبے لگام تخیل کو قابو میں رکھنا ایسا ہنر ہے جو انور قمر نے گزشتہ چالیس برسوں کی تخلیقی و فنی مشق سے سیکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انور قمر، اپنے پیش روؤں مثلاً سریندر پرکاش اور نیر مسعود کے مداح رہے ہیں، شایداسی لیے مجھے اُن کے کئی افسانوں میں ان دو پیش رو افسانہ نگاروں کی پرچھائیں نظر آتی ہے لیکن یہاں یہ کہنے کی قطعی ضرورت نہیں کہ اس سے انور قمر کی اوریجنلٹی خطرے میں نہیں پڑتی۔