اس واقعے کے بعد تنکوف نے روس چھوڑ دیا اور بعد ازاں اپنی روسی شہریت سے بھی دستبرداری اختیار کرلی۔ وہ اب بیرون ملک مقیم ہیں اور جنگ کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔
EPAPER
Updated: December 30, 2025, 8:01 PM IST | London
اس واقعے کے بعد تنکوف نے روس چھوڑ دیا اور بعد ازاں اپنی روسی شہریت سے بھی دستبرداری اختیار کرلی۔ وہ اب بیرون ملک مقیم ہیں اور جنگ کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔
روسی ارب پتی اولیگ تنکوف نے انکشاف کیا کہ یوکرین جنگ پر تنقید پر مبنی ان کی صرف ایک انسٹاگرام پوسٹ نے انہیں تقریباً ۹ ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا اور کریملن کے دباؤ کے باعث انہیں ’تنکوف بینک‘ میں اپنے حصص فروخت کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کسی زمانے میں روس کے امیر ترین بینکرز میں شمار ہونے والے تنکوف نے بتایا کہ یہ صورتحال ۲۰۲۲ء میں ان کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ کے بعد پیدا ہوئی جس میں انہوں نے جنگ کو ”احمقانہ“ قرار دیا تھا اور روسی فوج کو ’بدعنوان‘ اور ’غیر تیار شدہ‘ کہتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ ۹۰ فیصد روسی عوام اس جنگ کے خلاف ہیں۔ پوسٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ بے گناہ لوگ اور سپاہی مارے جا رہے ہیں اور جرنیلوں کو اب احساس ہوا ہے کہ ان کی فوج کتنی کمزور ہے۔
یہ بھی پڑھئے: پوتن کی رہائش گاہ پر حملے کا دعویٰ، ٹرمپ کا اظہارِ تشویش، یوکرین کی تردید
بی بی سی کو دیئے گئے ایک حالیہ انٹرویو میں تنکوف نے اپنے تجربے کو کسی ”یرغمال“ کی صورتحال سے تشبیہ دیتے ہوئے بتایا کہ یہ پوسٹ کرنے کے چند ہی دنوں کے اندر انہیں کریملن سے کال موصول ہوئی۔ ان کے مطابق، انہیں واضح پیغام دیا گیا کہ یا تو وہ بینک میں اپنے حصص فروخت کر دیں اور بینک سے اپنا نام ہٹا دیں، ورنہ بینک کو قومی ملکیت میں لے لیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ وہاں مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی اور نہ ہی وہ قیمت پر بحث کرسکتے تھے، اس لئے اپریل ۲۰۲۲ء میں انہوں نے اپنے حصص، اصل مالیت کے محض ۳ فیصد کے برابر قیمت پر فروخت کر دیئے، جس سے انہیں ذاتی دولت سے ۹ ارب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھئے: یوکرین جنگ بندی: ٹرمپ کی زیلنسکی اور یورپی لیڈران سے گفتگو، ’نمایاں پیش رفت‘ کا دعویٰ
اس واقعے کے بعد تنکوف نے روس چھوڑ دیا اور بعد ازاں اپنی روسی شہریت سے بھی دستبرداری اختیار کرلی۔ وہ اب بیرون ملک مقیم ہیں اور جنگ کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ روس میں کس طرح کاروباری اشرافیہ کے اندر سے اٹھنے والی اختلافی آوازوں کو کچلا جاتا ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ نظام واقعی کس طرح کام کرتا ہے۔ ان کے بقول، روس کے طاقتور ترین کاروباری افراد بھی اس وقت غیر محفوظ ہو جاتے ہیں جب وہ ریاست کے بیانیے کو چیلنج کرتے ہیں۔